Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا Tue 28 Sep 2010 - 5:44 | |
| حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا عبد المصطفٰٰی اعظمی صاحب رحمۃ اللہ الباری ان کا نام ہند اور کنیت ام سلمہ ہے لیکین یہ اپنی کنیت ہی کے ساتھ زیادہ مشہور ہیں ان کے والد کا نام حزہفہ یا سہیل اور ان کی والد عاتکہ بنت عامر ہیں یہ پہلے ابو سلمہ عبداللہ بن اسد سے بیاہی گئی تھیں اور یہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہو کر پہلے حبشہ ہجرت کر گئے پھر حبشہ سے مکہ مکرمہ چلے آئے اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اونٹ پر کجاوہ باندھا اور بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اونٹ پر سوارکر ا یا اور وہ اپنے دودھ پیتے بچے کو گود میں لے کر اونٹ پر نٹھادی گئیں تو ایک دم حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے میکا والے بنو مغیرہ دوڑ پڑے اور ان لوگوں نے یہ کہ کر کہ ہمارے خاندان کی لڑکی مدینہ نہیں جاسکتی حجرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اونٹ سے اتار ڈالا یہ دہکھ کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان والوں کو طیش آ گیا اور ان لوگوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی گود سے بچے کو چھیں لیا اور یہ کہا کہ یہ بچہ ہمارے خاندان کا ہے اس لئے ہم اس بچہ کو ہر گز ہر گز تمہارے پاس نہیں رہنے دیں گے اس طرح بیوی اور بچہ دونوں حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جدا ہو گئے مگر حضرت ابو سلمہ نے ہجرت کا ارادہ نہیں چھوڑا بلکہ بیوی اور بچہ دونوں کو خدا کے سپرد کر کے تنہا مدینہ منورہ چلے گئے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا شوہر اور بچے کی جدائی پر دن رات رویا کرتی تھیں ان کا یہ حال دیکھ کر ان کے ایک چچازاد بھائی کو رحم آگیا اور اس نے بنو مغیرہ کو سمجھایا کہ آخر اس غریب عورت کو تم لوگوں نے اس کے شوہر اور بچے سے کیوں جدا کر رکھا ہے؟ کیا تم لوگ یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ ایک پتھر کی چٹان پر ایک ہفتہ سے اکیلی بیٹھی ہوئی بچے اور شوہر کی جدائی میں رویا کرتی ہے آخر بنو نغیرہ کے لوگ اس پر رضا مند ہو گئے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا اپنے بچے کو لے کر اپنے شوہر کے پاس مدینہ چلی جائے پھر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندن والوں نے بھی بچہ کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے سپرد کر دیا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا بچے کو گود میں لے کر ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پر سوار ہو گئیں مگر جب مقام "تنعیم " میں پہنچیں تو عثمان بن طلحہ راستہ میں ملا جو مکہ کا مانا ہواایک نہایت ہی شریف انسان تھا اس نے پوچھا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہاکہ میں اپنے شوہر کے پاس مدینہ جارہی ہوں اس نے کہا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی دوسرا نہیں ہے؟ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے درد بھری آواز میں جواب دیا میرے ساتھ میرے اللہ عزوجل اور میرے اس بچہ کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہے یہ سن کر عثمان بن طلحہ نے کہا کہ خدا کی قسم میرے لئے یہ زیب نہیں دیتا کے تمہارے جیسی ایک شریف زادی اور ایک شریف انسان کی بیوی کو تنہا چھوڑدوں یہ کہہ کر اس نے اونٹ کی مہاراپنے ہاتھ میں لی اور پیدل چلنے لگا۔ حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف کسی عرب کو نہیں پایا جب ہم کسی منزل پر اترتے تو وہ الگ دور جا کر کسی درخت کے نچے سو رہتا اور میں اپنے اونٹ پر سورہتی پھر چلنے کے وقت وہ اونٹ کی مہار ہاتھ میں لے کر پیدل چلنے لگتا اسی طرح اس نے مجھے قبا تک پہنچا دیا اور یہ کہ کر واپس مکہ چلا گیا کہ اب تم چلی جاؤ تمہارا شوہر اسی گاؤں میں ہے چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بخیریت مدینہ پہنچ گئیں پھر دونوں میاں بیوی مدینہ میں رہنے لگے چند بچے بھی ہو گئے شوہر کا انتقال ہو گیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بڑی بے کسی میں پڑگئیں چند چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوگی میں زندگی بسر کرنا دشوار ہو گیا ان کا یہ حال زاردیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرما لیا اور بچوں کو اپنی پرورش میں لے لیا اس طرح یہ حضور علیہ الصلوۃوالسلام کے گھر آگئیں اور تمام امت کی ماں بن گئیں حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا عقل وفہم 'علم وعمل' دیانت وشجاعت کے کمال کا ایک بے مثال نمونہ تھیں اور فقہ و حدیث کی معلومات کا یہ عالم تھا کہ تین سواٹھہتر حدیثیں انہیں زبانی یاد تھیں مدینہ منورہ میں چوراسی برس کی عمر پاکروفات پائیں ان کے وصال کے سال میں بڑااختلاف ہے بعض مورخین نے ۵۳ ھ بعض نے ۵۹ ھ بعض نے ۶۲ ھ لکھا ہے اور بعض کا قول ہے کہ ان کا انتقال ۶۳ ھ کے بعد ہوا ہے ان کی قبر مبارک جنت البقیع میں ہے۔ تبصرہ: اللہ اکبر! حضرت بی بی ام سلمہرضی اللہ عنھا کی زندگی صبرواستقامت جذبہ ایمانی جوش اسلامی زاہدنہ زندگی علم و عمل محنت و جفاکشی عقل و فہم کا ایک ایسا شا ہکار ہے جس کی مثال مشکل ہی سے مل سکے گی ان کے کارناموں اور بہادری کی داستانوں کو تاریخ اسلام کے اوراق میں پڑھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اے آسمان بول!اے زمین بتا! کیا تم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا جیسی شیر دل اور پیکر ایمان عورت کو ان سے پہلے کبھی دیکھا تھا۔ ماں بہنو ! تم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری بیبیوں کی زندگی سے سبق حاصل کرواور خداکے لئے سوچو کہ وہ کیا تھیں؟ اور تم کیا ہو؟ تم بھی مسلمان عورت ہو خدا کے لئے کچھ تو ان کی زندگی کی جھلک دکھاؤ۔
یہی مائیں ہیں جن کی گود میں اسلام پلتا تھا حیا سے انکی انساں نور کے سانچے میں ڈھلتا تھا
| |
|
muhammad khurshid ali Moderator
Posts : 371 Join date : 05.12.2009 Age : 42 Location : Rawalpindi
| Subject: Re: حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا Wed 29 Sep 2010 - 9:05 | |
| | |
|