حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علمی ذوق
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اصحاب رسول ﷺ میں
ایک منفرد مقام کے حامل ہیں ۔ آپ کی شخصیت بہت سے کمالات کا گلدستہ تھی ۔
آپ جرأت و شجاعت ، مساوات و عدالت ، غیرت و حمیت ، صدق و اخلاص اور سوز و
گداز کا آئینہ تھے ۔ نظم مملکت اور تدبیر سلطنت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے
تھے ۔ فن حرب و ضرب میں اپنی مثال آپ تھے ۔ جلوۂ الہام اور نو ر بصیرت تھے
۔ آپ کے خدوخال ، فکر و خیال اور قول و مقال میں حق ہی حق رونق افروز تھا
۔ ختم نبوت کے نگیں جناب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے آپ
کی سیرت کا ہر پہلو ہی پھولوں کی مہک، تاروں کی چمک اور شبنم کی دمک سے
عبارت تھا، اُن میں سے آپ کا علم اور تعلیم کے ساتھ لگاؤ ، قرآن و سنت کے
علوم میں مہارت اور دلچسپی ایک اہم گوشہ ہے ۔
آپ کے علمی مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔
ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال بینا انا نائم
شربت یعنی اللبن حتی انظر الی الری یجری فی اظفاری ثم ناولت و عمر قالوا
فما اولت قال العلم۔(بخاری ۱ / ۵۲۰ ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اسی اثناء میں کہ میں محو
خواب تھا، میں نے دودھ پیا یہاں تک کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سیراب ہونے کا
اثر میرے ناخنوں میں جاری ہے پھر میں نے وہ دودھ عمر کو دے دیا، صحابہ نے
پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’علم‘‘
حضرت ابو وائل کہتے ہیں :
قال ابن مسعود لو ان علم عمر وضع فی کفۃ میزان و وضع
علم الناس فی کفۃ میزان لرحج علم عمر (اسد الغابہ ۳/ ۶۵۱ دارالفکر ، تاریخ
الخلفاء : ۱۲۰ میر محمد کتب خانہ کراچی، سیر اعلام النبلاء ۲ / ۵۲۰
دارالفکر)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’’ اگر حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا علم ترازو کے ایک پلڑ ے میں رکھا جائے اور دیگر تمام لوگوں کا
علم دوسرے پلڑ ے میں رکھا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کا پلڑ ا
بھاری ہو جائے گا ‘‘٘
حضرت ابو وائل نے حضرت ابراہیم نخعی سے اس بات کا تذکرہ کیا کہ حضرت عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بڑ ے اچھے انداز میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے علم کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ اس پر حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ
نے جواب دیا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے بارے میں اس سے بھی بڑ ی بات کی ہے ، حضرت ابو وائل نے پوچھا ’’وہ
کیا ہے ؟‘‘ تو حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ’’ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تھا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے
کہا تھا :
’’ذھب تسعۃ اعشار العلم‘‘ (اسد الغابہ ۳ / ۶۵۱ تاریخ الخلفاء ۱۲۰)
’علم کے دس حصوں میں سے نوحصے دنیا سے چلے گئے ‘‘
بڑ ے بڑ ے اہم مسائل کا علم آپ کے پاس محفوظ تھا ۔ حضور سرور کائنات صلی
اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ایک مرتبہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بڑ ے
پریشان بیٹھے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو آپ
نے فرمایا ’’اے طلحہ آپ غمگین کیوں ہیں ؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے
جواب دیا کہ’ ’میں نے رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے
سنا تھا ’’
انی
لا علم کلمۃ لا یقولھا احد عند حضرۃ الموت الا وجد روحہ لھا روحاً حین
تخرج من جسدہٖ و کانت لہ نورا یوم القیامۃ فلم اسأل رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ولم یخبرنی بھا‘‘۔
’’میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جو شخص بھی موت کے وقت وہ پڑ ھ لے گا اس کی
روح کو جسم سے نکلتے ہوئے آسانی ہو گی اور وہ کلمہ قیامت کے دن اس کیلئے
نور بن جائے گا لیکن اس کلمہ کے بارے میں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سوال کر سکا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی ‘‘۔
آج میں اس وجہ سے غمگین اور اداس ہوں اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا
انا اعلمھا قال فللہ الحمد فما ھی؟ قال الکلمۃ التی قالھا لعمہ لا الہ الا اللہ قال طلحۃ صدقت (جامع المسانید والسنن ۱۸ / ۴۲ دارالفکر)
’’میں وہ کلمہ جانتا ہوں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا پس اللہ تعالیٰ
کیلئے حمد ہے وہ کلمہ کون سا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کلمہ وہی
ہے جو نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چچا سے کہا تھا یعنی
لا الہ الا اللہ ۔ اس پر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے ۔
امام جلال الدین سیوطی نے کہا ہے کہ ’’آپ سے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی پانچ سو انتالیس احادیث مروی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء ۱۰۹ ، میر محمد
کراچی)
ابن کثیر نے جامع المسانید والسنن کی جلد نمبر ۱۸ میں آپ سے ۵۵۴ احادیث
روایت کی ہیں ۔ (جامع المسانید والسنن لا بن کثیر جلد نمبر۱۸ )
اور اس جلد کا نام مسند عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رکھا ہے ۔ جہاں تک قرآن
مجید کے علوم و معارف سے واقفیت کا تعلق ہے اور تعلم سے دلچسپی ہے ۔ حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
تعلم عمر البقرۃ فی اثنتی عشرۃ سنۃ فلما ختمھا نحر جزورا (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ۱ / ۴۵ ‘سیر اعلام النبلاء ۲ / ۵۲۰)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ بقرہ بارہ سال میں پڑ ھی جب آپ نے یہ سورۃ ختم کی تو اونٹ ذبح کیا ۔
ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو اُمت کے محدث تھے جن کی زبان پہ حق
بولتا تھا اور عربی جن کی مادری زبان تھی انہیں سورۃ بقرہ کے تلفظ اور
معانی سے کوئی دوری نہیں تھی وہ علوم و معارض کے کوئی اور جہاں تھے ، جن
کیلئے انہوں نے صرف بقرۃ کی فضاء میں بارہ سال تک پرواز کی۔
حضرت قبیصہ بن جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللّٰہ لم
اراحدا اقراء الکتاب اللہ ولا افقہ فی دین اللّٰہ ولا اقوم بحدود اللّٰہ
ولا اھیب فی صدور الرجال من عمر بن الخطاب (اسد الغابہ ۳ / ۶۵۱ دارالفکر)خدا کی قسم! میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی کتاب
اللہ کو پڑ ھنے والا، دین کو سمجھنے والا، حدود اللہ کو قائم کرنے والا،
لوگوں کے سینوں میں ہیبت والا نہیں دیکھا۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا:
من یعرف الناسخ والمنسوخ ؟ قال عمر ( شرح السنۃ للبغوی ۱ / ۲۰۸ دارالفکر)
ناسخ منسوخ کون جانتا ہے ؟ آپ نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مبلغ علمی اصابت فکر اور صلابت رائے کا اندازہ
اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی سوچ نے متعدد مرتبہ وحی سے موافقت
کی۔ حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان ۱۹ مقامات کی تفصیل رقم کی ہے ۔
جہاں آپ کی رائے نے قرآن مجید کی آیات سے موافقت کی ۔ پہلے آپ ایک تجویز
پیش کرتے پھر ویسے ہی آیت کا نزول ہو جاتا ۔ دو مقامات ایسے ذکر کئے جہاں
آپ کی رائے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے موافقت پر واقع ہوئی۔
یعنی پہلے آپ کی تجویز تھی پھر وہی نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
تھا اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام ایسا بھی ذکر کیا جہاں آپ
کی رائے تو رات کے موافق ٹھہری ۔ جب حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے
کہا:
ویل لملک الارض من ملک السماء فقال عمر الا من حاسب نفسہ فقال کعب والذی نفسی بیدہ انھا فی التوراۃ لتابعتھا فخر عمر ساجداً ( تاریخ الخلفاء ۱۲۲ ، ۱۲۳، ۱۲۴ ، ۱۲۵ میر محمد کتب خانہ کراچی)
’’ہلاکت ہے زمین کے بادشاہ کی آسمان کے حاکم سے اس پر حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے کہا مگر جس نے اپنے آپ کا محاسبہ کیا تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے
کہا مجھے اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے تورات میں ایسے ہی ہے
آپ نے اسی طرح کہا ہے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سجدے میں گر پڑ ے ‘‘۔
تحصیل علم اور تحقیق مسائل کی تڑ پ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ علم و حکمت کے نکتۂ عروج پر ہونے کے باوجود مختلف
مسائل پر موارد علم کی طرف متوجہ ہوتے رہے ، جب بھی کوئی ایسا مسئلہ پیش
آتا تو کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کر لیتے ، ان سے سوال کرتے یہاں
تک عمر و علم میں چھوٹے صحابہ سے بھی سوال کرنے میں نہ جھجکتے ۔ آپ کا
علمی مجالس منعقد کرنا اس قدر مشہور ہو چکا تھا اور آپ کا معمول بن چکا
تھا کہ حضرت ابوالحصین مفتیان کو مخاطب کر کے کہنے لگے :
ان احدکم لیفتی فی المسألۃ لو وردت علی عمر بن الخطاب لجمع لھا اھل بدر ( شرح السنۃ ۱ / ۲۰۹ دارالفکر بیروت)’’تم لوگ ایک مسئلہ پر اکیلے فتویٰ دے دیتے ہو کہ اگر یہی مسئلہ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ پر پیش کیا جاتا تو آپ تمام بدری صحابہ کو اس کی تحقیق کیلئے
اکٹھا کر لیتے ‘‘۔
سفر و حضر میں آپ کی تحقیق کا کارواں جاری رہتا اور علم کی پیاس بجھانے
کیلئے ہر وقت سرگرداں رہتے ، اہم دینی احکام و مسائل تو اپنی جگہ پر رہے
آپ کے سوالات کا سلسلہ کہیں وسیع تھا ۔ اس سلسلے میں بندہ حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ذکر کرتا ہے آپ کہتے ہیں :
اخذت الناس ریح بطریق مکۃ و عمر بن الخطاب رضی اللہ
عنہ حاج فاشتدت علیھم فقال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ لمن حولہ ما الریح
؟ فلم یرجعو الیہ شیائً فبلغنی الذی سأل عنہ عمر فاستحثثت راحلتی حتی
ادراکتہ فقلت یا امیر المومنین اخبرت انک سألت عن الریح ۔ وانی سمعت رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الریح من روح اللہ تعالیٰ تاتی بالرحمۃ و
تاتی بالعذاب فلا تسبوھا ۔ سلوا اللہ خیرھا واستعیذ وا باللہ من
شرھا۔(المستدرک للحاکم ۵ / ۴۰۶ دارلمعرفۃ بیروت) ’’مکہ شریف کے راستے میں لوگوں کو آندھی نے آ لیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
حج کرنے جا رہے تھے ، آندھی بہت تیز ہو گئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو
ان کے ارد گرد لوگ تھے ان سے سوال کیا کہ یہ ہوا کیا ہے ؟ انہوں نے کوئی
جواب نہ دیا ۔ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال کے بارے میں پتہ چلا
میں نے اپنی سواری تیز کی یہاں تک کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جا ملا
میں نے کہا اے امیر المومنین مجھے پتہ چلا ہے آپ نے ہوا کے بارے میں سوال
کیا ہے ‘ میں نے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ’’ہوا
اصل میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے یہ کبھی رحمت لاتی ہے اور کبھی عذاب ،
تم اس کو گالی نہ دو ، اللہ تعالیٰ سے اس کے خیر کا سوال کر اور اس کے شر
سے پناہ مانگو‘‘۔
اس سلسلے میں آپ کو کوئی حیاء بھی آڑ ے نہیں آتی تھی ۔ مخصوص امور کے بارے
میں ان کے متعلقین سے پوچھتے ۔ ایک مرتبہ آپ رات کو مدینہ شریف میں گشت کر
رہے تھے تو گھر سے ایک عورت کی آواز آ رہی تھی آپ نے سنا تو اشعار پڑ ھ
رہی تھی ۔ جن میں اس کے اپنے خاوند سے فراق کا ذکر تھا۔ ابن جریج نے روایت
کیا ہے کہ آپ نے اس عورت سے پوچھا ’’تیرا مسئلہ کیا ہے ؟‘‘ اس نے کہا ’’آپ
نے میرے شوہر کو کئی مہینوں سے محاذ جنگ پر بھیج رکھا ہے اور میں اس کیلئے
بے چین ہوں ‘‘۔ آپ نے اس سے کہا ’’یہ اچھی بات نہیں ہے ‘‘ اس نے کہا
’’معاذ اللہ ‘‘ آپ نے کہا ’’تو صبر کر میں اس کی طرف پیغام بھیجتا ہوں اور
بلا بھیجتا ہوں ‘‘اس کے بعد آپ نے اس امر کی تحقیق کا ارادہ کیا روایت میں
ہے :
ثم دخل علی حفصۃ فقال انی سائلک عن امر قد اھمنی فاخر
جیہ عنی کم تشتاق المرأۃ الی زوجھا فخفضت راسھا استحیت قال فان اللہ لا
یستحی من الحق ، فاشارت بیدھا ثلاثۃ اشھر والا فاربعۃ اشھر فکتب عمر ان لا
تجس الجیوش فوق اربعۃ اشھر (تاریخ الخلفاء ۱۴۲) پھر آپ (اپنی صاحبزادی) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہیں کہا
میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنے والا ہوں ، جس نے مجھے بڑ ی مشکل میں ڈال دیا
ہے ۔ آپ میری یہ مشکل حل کر دیں ۔ سوال یہ ہے کہ عورت کتنی مدت تک اپنے
خاوند سے صبر کر سکتی ہے ؟ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سر جھکا دیا
اور شرمانے لگیں ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ
حق بیان کرنے سے حیاء نہیں کرتا تو حضرت خفصہ رضی اللہ عنہا نے ہاتھ کے
اشارے سے بتایا ’’تین مہینے یا پھر چار مہینے ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے جرنیلوں کی طرف لکھ بھیجا کہ لشکروں کو چار مہینے سے زائد نہ روکا
جائے ‘‘۔
آپ اپنے ذاتی مسائل کے حل کیلئے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے مشورہ
فرما لیتے تھے ۔ حضرت ابوامامہ بن سہل سے روایت ہے آپ نے فرمایا:
مکث عمر زمانا لا یاکل من بیت المال شیئاً حتی دخلت
علیہ فی ذالک خصاصۃ فارسل الی اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاستشارھم،
فقال : قد شغلت نفسی فی ھذا الامرفما یصلح لی منہ فقال علی: غدائٍ و عشائٍ
فاخذ بذلک عمر (تاریخ الخلفاء ۱۴۱)’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مدت تک بیت المال سے کچھ کھائے بغیر امور
خلافت سر انجام دیتے رہے ۔ یہاں تک کہ آپ کے ہاں غربت آ گئی ۔ آپ نے نبی ا
کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بلا بھیجا اور ان سے مشورہ کیا ۔ آپ
نے ان سے پوچھا کہ میں نے اپنے تمام اوقات امور خلافت میں لگا دیے ہیں تو
میں بیت المال سے کیا وظیفہ لے سکتا ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب
دیا ’’صبح کا اور رات کا کھانا ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی پر عمل
کیا‘‘۔
’’تحصیل علم کی اس گہرائی کی بنیاد پر آپ نے صرف سورۃ بقرہ میں بارہ سال لگا دئیے ‘‘۔
علمی مباحثہ:آپ کی زبان پہ حق بولتا تھا ، اس کے باوصف علمی مباحثہ میں بحث کے تقاضے
پورے کرتے ، مخالف کی بات سنتے ، پھر علمی قوت سے اس کا ردّ کرتے یا پھر
اس کی بات کو قبول فرما لیتے ۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ نبی ا کرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا یہ معاہدہ ہوا تھا ۔ خیبر کی اراضی میں تم مزارعت کرو ۔
نقرکم ما اقر کم اللہجب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہے ہم تمہیں یہاں برقرار رکھیں گے ۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وہاں کھجوریں تقسیم کرنے گئے ہوئے تھے ۔ رات کے
اندھیرے میں نامعلوم افراد نے آپ پر تشدد کیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے فرمایا کہ’’اس علاقے میں ان یہود کے علاوہ اور کوئی ہمارا دشمن
نہیں ‘‘۔ چنانچہ آپ نے انہیں جلا وطن کر دینے کا پختہ ارادہ فرما لیا ۔ آپ
کے سامنے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی تھا:
لا یبقین دینان بارض العرب (عمدۃ القاری ۹ / ۶۲۹ دارالفکر)
’’ارض عرب پردو دین باقی نہیں رہیں گے ‘‘
جب آپ نے یہود خیبر کو نکالنے کا فیصلہ صادر کیا تو بنی ابی التحقیق کا
ایک آدمی آ گیا (بنو حقیق یہود کے سردار تھے ) اس نے آ کر حضرت عمر رضی
اللہ عنہ سے کہا:
یا امیرالمومنین اتخرجنا وقد اقرنا محمد و عاملنا علی
الاموال و شرط ذلک لنا فقال عمر اظننت انی نسیت قول رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم : کیف بک اذا اخرجت من خیبر تعدوبک قلوصک لیلۃ بعد لیلۃ (بخاری
۱ / ۳۷۷ ، قدیمی کتب خانہ کراچی) ’’اے امیر المومنین ! کیا آپ ہمیں نکالیں گے حالانکہ حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمیں یہاں برقرار رکھا اور ہمارے ساتھ ہمارے اموال پر معاملہ
کیا اور ہمارے لئے اسے معاہدہ میں شر ط بنایا ۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے
فرمایا’’کیا تمہارا خیال ہے کہ میں رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ
فرمان بھول گیا ہوں جو آپ نے فرمایا تھا ۔ اے بنوحقیق کے سردار تیرا اس
وقت کیا حال ہو گا جب تو خیبر سے نکالا جائے گا اور سفر کرنے کی عادی
اونٹیاں تجھے کئی راتوں تک لے جائیں گی‘‘۔
چنانچہ آپ نے انہیں ان کے ثمرات مال مویشی وغیرہ کی قیمت دے دی اور انہیں
وہاں سے نکال دیا چونکہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمیشہ
کیلئے وہاں نہیں چھوڑ ا تھا بلکہ یہ شرط تھی کہ جب تک ہم چاہیں گے ۔اس
یہودی کے اعتراض پر آپ نے فوراً حدیث شریف سے استدلال کیا اور یہ استدلال
اس عقیدہ پر موقوف تھا ۔ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی خبریں دیتے
تھے اور وہ سچی بھی ثابت ہوتی تھیں اور صحابہ انہیں احکام و معاملات کی
دلیل بھی بناتے تھے ۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مطلقہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس کو عدت کے
دوران رہائش دینا اس کے طلاق دینے والے خاوند پر ضروری ہے یا نہیں ؟ آپ نے
جواب دیا ضروری ہے تو اس پر کسی شخص نے کہا کہ فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ
’’مجھے زوج نے طلاق بائن دی مجھے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا تھا
لا نفقۃ لک ولا سکنی تیرے لئے خاوند پر نفقہ ضروری ہے نہ رہائش۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا
’’لسنا
بتار کی کتاب ربنا وسنۃ نبینا صلی اللہ علیہ وسلم بقول امرأۃ لا ندری
لعلھا کذبت قال اللہ تعالیٰ : لا تخر جوھن من بیوتھن ولا یخرجن (شرح معانی الاثار ۲ / ۴۰ مکتبہ امدادیہ ملتان)
’’ہم ایک عورت کی بات پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے ، ہو سکتا ہے کہ اس عورت نے جھوٹ بالا ہو ،
اِدھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’تم ایسی عورتوں کو گھروں سے نہ نکالو
اور نہ وہ نکلیں ‘‘۔
ایک روایت میں یوں ہے :
لعلھا اوہمت (احکام القرآن للبحصاص ۳ / ۴۶۰ سہیل اکیڈمی لا ہور)
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ہو سکتا ہے اس عورت کو اس بات کا
وہم ڈالا گیا ہو ‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ علمی کمال تھا کہ اگر حق
دوسرے آدمی کی بات میں نظر آیا ہے تو آپ نے فوراً اس کی بات کو قبول کر
لیا آپ کے سامنے امیر المومنین کا منصب اور محدث اُمت ہونے کا شرف ذرہ بھی
رکاوٹ نہیں بن سکا ۔ آپ جہاں دیگر فیصلوں میں عدالت کے علمبردار تھے ،
علمی تقاضوں میں بھی عدالت کے امین تھے ۔ یہاں تک کہ آپ نے عوام کے ہر فرد
کو دلیل کی بناء پر حق مخالفت ، حق اعتراض عطا کر رکھا تھا ۔ یہ علیحدہ
بات ہے کہ اگر معترض کی بات غلط تھی تو اسے آہنی دلائل سے ردّ کر دیا لیکن
اگر اس کی بات درست ہوتی تو تسلیم کر لیتے ، ایک مرتبہ آپ منبر رسول صلی
اللہ علیہ وسلم پر خطاب فرما رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ’’نکاح کے وقت
عورتوں کو زیادہ حق مہر نہ دیا کرو، زیادہ سے زیادہ بھی دو تو چار صد درہم
سے زائد نہ ہو ، اگر زائد ہو تو میں بیت المال میں جمع کر لوں گا ‘‘۔ کس
قدر عوام کو امیر المومنین سے وضاحت طلب کرنے کا حق تھا ؟ جوں ہی آپ منبر
سے نیچے اُترے تو قریش کی ایک چپٹی ناک والی عورت نے آپ کوروک لیا ۔ اس نے
کہا:
یا امیر المومنین نھیت الناس ان یزیدوا فی مھر النساء
علی اربع مائۃ درھم ؟ فقال نعم فقالت: اما سمعت ما انزل اللہ فی القرآن
قال وای ذالک؟ فقالت اما سمعت اللّٰہ یقول واتیتم احداھن قنطاراً فقال
اللھم غفراً کل الناس افقہ من عمرثم رجع فرکب المنبر فقال ایھا الناس انی
کنت نھیتکم ان تزیدوا النساء فی صدقاتھن علی اربع مائۃ درھم فمن شاء ان
یعطی من مالہ ما احب (تفسیر ابن کثیر ۱ / ۴۷۸ مکتبہ حقانیہ پشاور)’’اے امیرالمومنین! کیا آپ نے لوگوں کو منع کیا ہے کہ وہ چار سو درہم سے
زائد حق مہر نہ دیں ۔ آپ نے جواب دیا ’’ہاں ‘‘ اس عورت نے کہا ’’کیا؟آپ نے
وہ نہیں سنا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے ؟ ‘‘ آپ نے کہا
’’کیا ؟اس عورت نے کہا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’تم
اس بیوی کو ڈھیروں مال دے چکے ہو‘‘ (یعنی بصورت حق مہر) اس پر حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اے اللہ عمر کو بخش دے ہر کوئی ہی عمر سے زیادہ
فقیہ ہے پھر آپ لوٹے اور منبر پر جلوہ گر ہوئے ۔ آپ نے فرمایا’’اے لوگو!
میں تمہیں چار سو درہم سے زائد حق مہر دینے سے منع کرتا تھا لیکن اب تم سے
جو چاہے اپنے مال سے جتنا چاہے حق مہر دے ۔ ایک روایت میں ہے آپ نے اس
موقع پر فرمایا
’’امرأۃ اصابت ورجل اخطأ ’’عورت نے درست کہا اور مرد نے غلطی کی‘‘۔
علم کی قدرو منزلت:آپ کے ہاں علم اور اہل علم کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ یہاں تک
کہ آپ نے علم کی بناء پر اصاغر کو اکابر پر ترجیح دی ۔ حضرت عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ کہتے ہیں :
کان عمر یدخلنی مع اشیاخ بدر فقال بعضھم لم تدخل
ھذالفتی معنا ولنا ابناء مثلہ فقال انہ ممن قد علمتم (بخاری ۲ / ۶۱۵ قدیمی
کتب خانہ کراچی)’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے بدری شیوخ کے ساتھ داخل کر لیتے تھے ۔ ان
میں سے بعض (حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے آپ سے کہا (اہم مجالس
کے ضوابط کی وجہ سے ) اس نوجوان کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھا لیتے ہو؟ ان جیسے
تو ہمارے بیٹے بھی ہیں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’یہ ان
میں سے ہیں جنہیں تم جانتے ہو‘‘
ایک روایت میں ہے آپ نے کہا
’’انہ علمتم ‘‘(بخاری ۲ / ۷۴۳ قدیمی کتب خانہ کراچی)
’’یہ وہ ہے جسے تم جانتے ہو ‘‘
مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’’ان کو ساتھ بٹھانے کی
وجہ ظاہر ہے ، یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے ‘‘ آپ نے فرمایا ہو ’’سو تم جانتے ہو
کہ یہ وہ ہیں جن کیلئے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اللھم فقھہ فی الدین(اے
اللہ تعالیٰ انہیں دین کی سمجھ عطا فرما) کی دعا فرمائی تھی یا یہ مقصد
تھا کہ ان کے علم و فضل اور ذہانت کی لحاظ سے انہیں بڑ وں کے ساتھ بٹھایا
جاتا ہے ۔ یہ وجہ زیادہ راحج ہے اگرچہ سب سے پہلی وجہ بھی بڑ ی جامع ہے ۔
اس کی ایک وجہ ترجیح یہ ہے کہ اسی حدیث شریف کے دوسرے طریق میں حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا وجہ یہ ہے ۔
ان لہ لساناً سؤلاً وقلبا عقولاً’’ان کی زبان زیادہ سوال کرنے والی ہے اور دل زیادہ سمجھنے والا ہے ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عظیم ترعلمی ذوق کی بنیاد پر آپ ان کی ان
صلاحیتوں کی وجہ سے کبار بدری صحابہ کے ساتھ بٹھا لیتے تھے بلکہ ایک روایت
میں تو یہ ہے :
کان عمر بن الخطاب یدنی ابن عباس فقال عبدالرحمن بن عوف
(بخاری ۲ / ۶۳۸ قدیمی کتب خانہ کراچی)’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو
قریب کر لیتے تھے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مذکور بات
کہی‘‘۔
دوسری وجہ ترجیح یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن ان کبار بدری
صحابہ رضی اللہ عنہما کے درمیان حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو
بٹھا کر علم کے لحاظ سے آپ کی فضیلت ان کیلئے واضح کر دی ۔ حضرت سعید بن
جبیر رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے
ہیں ۔ آپ نے کہا:
دعاہ ذات یوم فادخلہ معھم فما رئیت انہ دعانی یومئذ
الا لیر یھم قال ما تقولون فی قول اللہ تعالیٰ اذا جاء نصر اللہ والفتح
فقال بعضھم امرنا ان ونحمداللہ و نستغفرہ اذا نصرنا و فتح علینا و سکت
بعضھم فلم یقل شیائً فقال لی اکذاک تقول یا ابن عباس فقلت لا قال فما تقول
قلت ھو اجل رسول اللہ ﷺ اعلمہ لہ قل اذا جاء ک نصر اللہ فذلک علامۃ اجلک
فسبح بحمد ربک انہ کان توابا فقال عمر ما اعلم منھا الا تقول (بخاری ۲ / ۷۴۳ قدیمی کتب خانہ کراچی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن آپ کو بلایا پس آپ کو ان کبار صحابہ رضی
اللہ عنہم کے ساتھ بٹھایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں اس دن کے بارے
میں میری یہی رائے ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس لئے بلایا کہ
ان کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو میری فضیلت دکھائیں ۔ آپ نے ان سے مخاطب
ہوتے ہوئے سوال کیا
’’اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح ‘‘
کے قول ایزدی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟(یعنی اس شرط کی جزا کیا ہے
) بعض نے کہا ’’ہمیں حکم دیا گیا ہے جب ہماری مدد کی جائے اور ہمیں فتح دی
جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور اس سے استغفار کریں اور بعض نے
جواب دینے سے سکوت اختیار کیا ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری طرف
متوجہ ہوتے ہوئے کہا ’’ ابن عباس کیا تمہاری بھی یہی رائے ہے ‘‘ میں نے
کہا نہیں ۔ انہوں نے کہا آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔میں نے کہا یہ
رسول اللہ ﷺ کا دنیا سے رحلت فرمانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو اس کا علم دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جب تمہارے پاس اللہ
تعالیٰ کی مدد آ جائے گی تو اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے وصال کی
علامت ہے پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں وہ رجوع برحمت فرمانے والا
ہے ‘‘۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’ میں اس کے بارے میں یہی
جانتا ہوں ‘‘۔
امام بغوی نے باب طرح
المسئالۃ علی الاصحاب لیختبرما عندھم من الالعلم(آدمی کا اپنے دوستوں سے سوال کرنا تا کہ جانے کہ ان کے پاس کتنا علم ہے
کے بارے میں باب) کے تحت اس حدیث شریف کو نقل کیا ہے ۔ اس سے قبل انہوں نے
یہ لکھا ہے :
یکرہ لرجل ان یتکلف لسوال مالا حاجۃ بہ الیہ وان دعت
الحاجۃ الیہ فلا باس بہ کماروی ان عمر اراد اظھار فضل عبد اللہ بن عباس
علی القوم فسألھم (شرح السنہ للبغوی ۱ / ۲۱۱ دارالفکر بیروت)’’آدمی کیلئے یہ مکروہ ہے کہ وہ بغیر ضرورت کے سوال کا تکلف کرے ہاں اگر
ضرورت ہو تو پھر سوال میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب کچھ لوگوں پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنہ کی فضیلت بیان کرنا چاہی تو ان سے سوال کیا ۔
بہرحال یہ سارا عمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علمی ذوق کا آئینہ دار ہے ۔
آپ کے ہاں علم کی قدرومنزلت کا اندازہ اس حدیث شریف سے لگایا جا سکتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جس کو اکثر روایت کیا کرتے تھے وہ حدیث
شریف یہ ہے :
ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان من الشجر
شجرۃ لا یسقط ورقھا وھی مثل المسلم حدثونی ماھی؟ فوقع الناس فی شجر
البادیۃ و وقع فی نفسی انھا النخلۃ قال عبد اللہ فاستحییت قالو یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخبرنا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھی
النخلۃ قال عبد اللہ فحدث ابی بما وقع فی نفسی فقال لأن تکون قلتھا احب
الی من ان یکون لی کذا وکذا (بخاری ۱ / ۲۴ قدیمی کتب خانہ کراچی )’’رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا درختوں میں سے ایک درخت
ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور مسلمان کی طرح ہے مجھے بتاؤ وہ کون سا
درخت ہے ؟ لوگ صحراء کے درختوں میں سوچ بچار کرنے لگے ۔ میرے دل میں یہ
بات آئی کہ وہ درخت کھجور ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے
ہیں مجھے حیاء آ گئی (میں نے دل میں آنے والے اس جواب کا اظہار نہ کیا )
صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بتا دیں وہ کون سا درخت
ہے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے ۔ حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو کچھ میرے دل میں آیا تھا میں نے
اس کا تذکرہ اپنے ابا جان حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا انہوں نے کہا
’’اگر آپ یہ بات نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بتا دیتے تو مجھے
سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند تھا ‘‘۔
امام بدرالدین عینی نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے :
قال ابن بطال : وفی تمنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان
یجاوب ابنہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بما وقع فی نفسہ من الفقہ ان الرجل
یباح لہ الحرص علی ظھور ابنہ فی العلم علی الشیوح و سرورہ بذلک و قیل انما
تمنی ذلک رجائً ان یسر النبی صلی اللہ علیہ وسلم باصابتہ فیدعولہ ( عمدۃ
القاری ۲ / ۳۰۲ ، دارالفکر بیروت)’’ا بن بطال نے کہا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تمنا سے کہ ان کا بیٹا
نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا وہ جواب دے دیتا جو اس کے دل میں
آ گیا تھا یہ ثابت ہوا کہ آدمی کیلئے یہ جائز ہے کہ اس کو یہ حرص ہو کہ اس
کا بیٹا علمی طور پر شیوخ پر اُجاگر ہوا ور یہ بھی جائز ہے کہ ایسے موقعہ
پر وہ شخص خوشی کا اظہار کرے ۔ بعض نے کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
اس بات کی تمنا اس لئے کی کہ بیٹے کے درست جواب سے نبی ا کرم صلی اللہ
علیہ وسلم خوش ہو جاتے اور اس کیلئے دعا فرماتے ‘‘۔
طلب علم کی حوصلہ افزائی:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حصول علم کیلئے سفر کرنے ، حصول علم میں وقت صرف
کرنے ، مجلس علمی اور درسگاہ کا بڑ ا مقام ۹ مرتبہ بیان کیا ہے ۔ اس سلسلے
میں آپ کا ایک ارشاد گرامی ملاحظہ ہو:
ان الرجل لیخرج من منزلہ و علیہ من الذنوب مثل جبل
تھامۃ فاذا سمع العلم و خاف واسترجع علی ذنوبہ انصرف الی منزلہ و لیس علیہ
ذنب فلا تفارقوا مجالس العلماء فان اللہ لم یخلق تربۃ علی وجہ الارض ا کرم
من مجالس العلماء ( تفسیر کبیر ۲ / ۲۱۰ ، دارالفکر بیروت)’’ایک آدمی اپنے گھر سے نکلتا ہے اس حال میں کہ اس پر تھامہ پہاڑ جتنے
گناہ ہوتے ہیں جب وہ علم کی بات سنتا ہے کانپ اُٹھتا ہے اور اپنے گنا ہوں
پر افسوس کرتا ہے تو وہ اپنے گھر کی طرف یوں لوٹتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ
بھی نہیں ہوتا پس علماء کی مجالس سے علیحدہ نہ ہو جانا کیونکہ اللہ تعالیٰ
نے روئے زمین پر کہیں ایسی خاک پیدا نہیں فرمائی جو علماء کے بیٹھنے کی
جگہ سے زیادہ عزت والی ہو‘‘۔
امام کاسانی نے اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بہت زریں قول ذکر کیا ہے :
ان رجلا قدم من الشام الی عمر رضی اللہ عنہ ما اقدمک؟
قال قدمت لا تعلم التشھد فبکی عمر حتی ابتلت لحیتہ ثم قال واللہ انی لار
جو من اللّٰہ ان لا یعذبک ابداً ( بدائع الصنائع ۱ /۳ دارالفکر ، بیروت)’’ایک آدمی ملک شام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا آپ نے اس سے
کہا کیسے آئے ہو؟ اس نے جواب دیا ’’تشہد سیکھنے آنا ہوں ‘‘ یہ سن کر حضرت
عمر رضی اللہ عنہ رو پڑ ے یہاں تک آپ کی داڑ ھی تر ہو گئی پھر آپ نے یہ
فرمایا ’’میں اللہ تعالیٰ سے اس بات کی اُمید کرتا ہوں کہ وہ تجھے بالکل
عذاب نہیں دے گا ‘‘۔
آپ نے جب سن ۲۰ ہجری میں دیوان و شعبہ جات حکومت قائم کئے تو آپ نے جن
لوگوں کی اسلام کیلئے خدمات تھیں ان کے وظائف مقرر کئے ۔ آپ نے اہل بیت
اطہار کو مقدم کیا پھر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے غزوات میں ان کے
کارناموں کے مطابق وظائف مقرر کئے اس کے بعد آپ نے عوام کے ان کی علمی اور
جہادی صلاحیتوں کے مطابق وظائف مقرر کئے ۔ طبقات ابن سعد میں ہے :
ثم فرض للناس علی منازلھم و قراء تھم للقرآن و جھادھم ( الطبقات الکبری لا بن سعد ۲ / ۲۵۵ دارالفکر ، بیروت)
’’پھر آپ نے لوگوں کیلئے ان کے مرتبہ ، ان کی قرآن مجید کی قرأت اور ان کے جہاد کے مطابق ان کے وظائف معین کئے ‘‘۔
آپ نے اسلامی سلطنت میں جن حضرات کو گورنر اور عامل بنا کر مختلف صوبوں
میں بھیجا ان میں سرفہرست مقصد تعلیم تھا۔ یہاں تک آپ نے سلطنت کے اطراف و
اکناف کے عوام کے سامنے ان گورنروں کا مقصد بیاں کرتے ہوئے کہا:
انی لم استعمل علیکم عما لی لیضربوا ابشارکم ویشتموا
اعراضکم و یا خذوا اموالکم ولکنی استعملتھم لیعلموکم کتاب ربکم و سنۃ
نبیکم ( الطبقات الکبریٰ ۲ / ۲۴۳ دارالفکر بیروت)’’میں نے تم پر اپنے گورنر اس لئے مقرر نہیں کئے کہ وہ تمہارے معزز لوگوں
کو ماریں اور تمہاری پگڑ یاں اچھالتے پھریں اور تمہارے مال ہڑ پ کر جائیں
بلکہ میں نے تو انہیں تم پر اس لئے مامور کیا ہے کہ وہ تمہیں تمہارے رب
تعالیٰ کی کتاب ، تمہارے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تمہیں
سکھائیں ‘‘۔
حضرت نافع بن عبدالحارث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ شریف کا حاکم
بنایا تھا وہ آپ کو جب عسفان میں ملے تو آپ نے ان سے پوچھا پیچھے مکہ شریف
میں اپنی جگہ کسے خلیفہ بنا آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ’’ابن ابزی کو
۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
من ابن ابزی قال مولی من موالینا قال عمر فاستخلفت
علیھم مولی فقال یا امیر المومنین انہ رجل قاری القرآن عالم بالفرائض ،
قاض فقال عمر اما ان نبیکم قد قال ان اللہ یرفع بالقرآن اقواما و یضع بہ
آخرین (شرح السنۃ للبغوی: ۳/ ۲۴۲ دارالفکر بیروت)’’کون ابن ابزی ؟ حضرت نافع نے کہاوہ ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ کیا تم نے اہل مکہ شریف پر ایک غلام
کو حاکم بنا دیا ہے ۔ انہوں نے جواب دیا ’’اے امیر المومنین یہ شخص قرآن
کا قاری فرائض کا عالم اور قاضی ہے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
سچ فرمایا ہے ۔ تمہارے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اللہ تعالیٰ
قرآن مجید کی وجہ سے کئی اقوام کو عروج دیتا ہے اور کئی لوگوں کو پست کر
دیتا ہے ‘‘۔
طلب علم میں غفلت پر شدت:جہاں آپ لوگوں کی تعلیم پر خوش ہوتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے
تھے وہاں آپ کو جہالت کی وجہ سے شدید رنج بھی ہوتا تھا اور غصہ بھی آتا
تھا ۔ آپ نے جس موقع پر بھی لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے دور پایا تو اسی
موقع پر انہیں احساس تعلیم دلایا۔ ہر شخص اگرچہ مکمل عالم دین نہ بھی ہو
لیکن آپ کے نزدیک ہر شعبہ زندگی کے ہر فرد پر اپنے شعبہ سے متعلق اسلامی
معلومات کا ہونا نہایت ضروری تھا ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
:
روی عن عمر رضی اللہ عنہ انہ کان یطوف السوق ویضرب
بعض التجار بالدرۃ و یقول لا یبیع فی سوقنا الا من یفقہ والا اکل الرباشاء
ام ابی ( احیاء علوم الدین للغزالی ۲ / ۷۴ دارالفکر بیروت)حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت کیا گیا ہے کہ آپ بازار کا
معائنہ کیا کرتے تھے اور بعض (خرید و فروخت کے مسائل سے جاہل) تاجروں کو
کوڑ وں سے مارتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمارے بازار میں صرف وہی چیز
فروخت کرے جو دینی مسائل کا علم رکھتا ہے ۔ ورنہ وہ دانستہ یا نادانستہ
سود کھا ئے گا ‘‘۔
آپ اس حد تک اُمت مسلمہ کو علم کا گرویدہ بنانا چاہتے تھے کہ اگر کوئی
کلام میں اعرابی غلطی کرتا تو اسے بھی ڈانٹتے چہ جائے کہ کوئی عبادات یا
معاملات میں غلطی کرے ، ایک مرتبہ آپ کا گذر ایک مقام سے ہوا جہاں لوگ
تیراندازی کر رہے تھے جب ایک شخص کا نشانہ خطا ہوا تو آپ نے فرمایا:
اخطات تم نے نشانہ لینے میں غلطی کی۔ آپ کے نزدیک عسکری اموراور فن حرب و
ضرب میں مہارت بڑ ی ضروری تھی ۔ اس لئے جب آپ نے اس کی گرفت کی اس شخص نے
آپ کے سامنے اپنی معذرت یوں پیش کی ۔ کہنے لگا ’’نحن متعلمین ‘‘ کہ ابھی
ہم سیکھ رہے ہیں ۔ اس لئے غلطی ہو گئی لیکن اس نے معذرت کرتے کرتے نئی
غلطی کر ڈالی اور نحن متعلمونکی جگہ نحن متعلمین کہہ دیا اس پر حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کے علمی ذوق کا مزہ کر کرا ہوا تو آپ نے فرمایا:
واللّٰہ لخطاک فی کلامک لا شد علینا من خطئک فی نضالک ( دلیل المحادثہ لنعوم جرجیس ۷ مطبعۃ منیر بغداد شریف)’’خدا کی قسم تمہاری کلام میں غلطی ہم پر تمہاری تیر کے نشانے کی غلطی سے
زیادہ شدید ہے ‘‘۔ طبقات ابن سعد میں یوں ہے حضرت عبدالرحمن بن عجلان سے
روایت ہے :
ان عمر بن الخطاب مربقوم یرتمون فقال احدھم اسیت فقال عمر سوء اللحن اسوا من سواء الرمی ( طبقات ابن سعد ۲ / ۲۴۵ دارالفکر)حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک قوم کے پاس گزرے وہ تیر اندازی کر رہے
تھے ان میں (ایک نے دوسرے سے کہا) تم نے غلطی کی ہے (اسات کی جگہ یہ اسیت
بول دیا ) اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’کلام کی غلطی تیر اندازی
کی غلطی سے بڑ ی ہے ‘‘۔
آخری دم تک ذوق علمی:حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جب قاتلانہ حملہ ہوا زخم بڑ ے گہرے تھے آپ بستر
شہادت پر پڑ ے ہوئے تھے ۔ آپ کو دودھ پلایا گیا تو اسی طرح پیٹ کے زخموں
سے باہر آ گیا ۔ لوگوں کو یقین ہو گیا اب امیر المومنین چند لمحے ہی ہمارے
درمیان موجود ہیں ۔ مختلف وفود آنے لگے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خراج
تحسین پیش کرنے لگے اتنے میں ایک نوجوان بھی آیا اور کلمات تحسین کہنے لگا
۔ بخاری شریف میں ہے :
فلما ادبرا ذا ازارہ یمس الارض قال ردوا علی الغلام قال یا ابن اخی ارفع ثوبک فانہ انقی لثوبک واتقی لربک
( بخاری شریف ۱ / ۵۲۴ قدیمی کتب خانہ کراچی)’’جب اس نے پیٹھ پھیری تو اس کا تہبند زمین کو چھو رہا تھا ۔ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے کہا ’’اس لڑ کے کو میری طرف بلاؤ ‘‘ آپ نے کہا ’’اے بھیجتے
اپنا کپڑ ا اوپر کرو کیونکہ یہ عمل تمہارے کپڑ ے کیلئے زیادہ صفائی والا
ہے اور تمہارے رب کیلئے زیادہ تقویٰ والا ہے ۔ تادم وصال آپ نے تعلیمی اور
تبلیغی فریضہ بھی دیگر فرائض کی طرح سرانجام دیا۔