حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
الحمد اللہ رب العلمین والصلوٰة والسلام علیٰ سید المرسلین
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطنٰ الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
کہ ” یایھاالنبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المومنین،(پ ۰۱، الانفال 63)
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ تمہیں کافی ہے اور جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے “۔مفتی احمد یار خان نعیمی آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان پر نازل ہوئی یہ ہی عبداللہ بن عباس کا
فرمان ہے ۔ لہذا یہ آیت مکیہ ہے اور من اتبعک لفظ اللہ پر معطوف ہے (روح
البیان) حضرت عمر کے ایمان سے مسلمانوں کی تعداد چالیس ہوئی۔ حضور
ﷺ نے ان کی دعا بدھ کو مانگی اور آپ رضی اللہ عنہ جمعرات کو ایمان لائے اس وقت آپ کی عمر ۶۲ سال تھی۔ (تفسیر نورالعرفان، ص ۲۲۲)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلامم :حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق دو تین روایات ہے لیکن
مشہور روایت پیش خدمت ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک روز تلوار حمائل کیے
گھر سے نکلے ہی تھے کہ بنو زہرہ کا ایک شخص نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
آپ کو ملے پوچھا : اے عمر کہا کا قصد ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ محمد
ﷺکے قتل کا ارادہ ہے ۔ اس شخص نے کہا کہ اس قتل کے بعد تم بنی ہاشم اور بنی
زہرہ سے کس طرح بچ سکو گے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ معلوم ہوتا
ہے تم بھی اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے نعیم بن عبداللہ نے کہا کہ
میری چھوڑی اپنے گھر کی خبر لو تمہارا بہنوی اور بہن بھی اپنا آبائی دین
ترک کر چکے ہیں ۔ آپ یہ سنتے ہی بہن کے گھر پہنچے جہاں حضرت خباب رضی اللہ
عنہ بھی موجود تھے لیکن آپ کی آہٹ پا کر کہی چھپ گئے۔ اس وقت یہ تینوں
سورہ طہٰ پڑھ رہے تھے اور آپ کے آجانے پر خاموش ہوگئے۔ انہوں نے چھپانا
چاہا اسی اثنا میںان سے تلخ کلامی ہوگئی آپ غضبناک ہوگئے اور بہنوئی کو
طمانچہ مارا بہن بچانے آئے تو اس کو بھی مارا۔ بہن نے غصہ میں کہا کہ میں
گواہی دیتی ہوں کہ سوائے ایک معبود کے کوئی دوسرا خدا نہیں اور محمد
ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ بہن کی حالت دیکھ کر دل نرم ہو گیا پوچھا مجھے
بھی دکھاﺅ کیا پڑھ رہے تھے آپ نے وضو کیا قرآن کریم سورہ طہٰ پڑھی اسی
دوران حضرت خباب رضی اللہ عنہ بھی باہر آگئے اور دعائے مصطفی
ﷺ کی بشارت سنائی۔ (تاریخ الخلفاءبحوالہ حاکم، بیہقی
ﷺ 268)
دربارِرسالت سے فاروق کا لقب: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ
آپ کو فاروق کا لقب کیسے ملا؟ فرمایا کہ جب اللہ عزوجل نے میرا سینہ اسلام
کے لیے کھول دیا تو میں نے پوچھا رسول اللہ
ﷺکہا تشریف فرما ہیں میری بہن نے کہا وہ صفا کے پاس دارِارقم میں ہیں میں
سیدھا وہاں پہنچا تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کے ساتھ دو عالم
کے مالک و مختار
ﷺ حجرے میں تشریف فرما تھے،
میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان جمع ہوگئے۔ حضرت
حمزہ نے پوچھا کیا ہوا تو سب نے کہا عمر آئے ہیں۔ یہ سن کر آقا
ﷺ باہر تشریف لے آئے اور میرے کپڑوں کو کھینچ کر چھوڑ دیا مجھ پر اس قدر ہیبت طاری ہوئی کہ میں گھٹنوں کے بل گر پڑا، آپ
ﷺنے فرمایا کہ اے عمر کیا باز نہیں آﺅ گئے ؟ میں نے فوراً کلمہ شہادت پڑھا
تو دارِارقم میں موجود صحابہ کرام علیھم الرضوان نے اس زور سے نعرہ لگایا
کہ مسجد والوں سنا، میں نے عرض کی یارسول اللہ
ﷺہم زندہ ہیں یا مریں ؟ کیا حق پر نہیں ہیں؟ ارشاد فرمایا : ” ہاں کیوں
نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے حق پر ہیں ۔ میں نے
عرض کی تو پھر چھپیں کیوں؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث
فرمایا ! آپ ضرور نکلیں گے ۔ پس ہمیں دو صفوں میں نکلنے کا حکم دیا ایک
میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری میں میں تھا۔ جب قریش نے مجھے اور
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ایسی تکلیف پہنچی کے جو پہلے نہ تھی۔
بس رسول اللہ
ﷺ نے اسی وجہ سے مجھے ”فاروق“ کا لقب دیا اور اللہ نے حق و باطل کے درمیان فرق فرمادیا۔ (حلیتہ الاولیاء، ج۱، ص 102)
زمین پر آقا ﷺ کے دو وزیر: شرح ”فقہ اکبر “ میں ہے کہ رسول اللہ
ﷺنے فرمایا کہ ہر نبی کے چار یار ہوتے ہیں۔ جن میں سے دو آسمان اور دو زمین
پر ہوتے ہیں۔ اسی طرح میرے بھی چار وزیر ہےں۔ آسمانی وزیر جبرائیل علیہ
السلام اور میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمین پر دو وزیر ابوبکر اور عمر
علیھم الرضوان ہیں ۔
فضیلتِ عمر رضی اللہ عنہ احادیث مبارکہ میں: (1) رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں الہام والے لوگ تھے اگر میری امت میں کوئی ہوا تو وہ عمر ہے (مشکوٰة شریف مترجم، ج ۳، ص316) ۔
(2) رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمایا ہے (مشکوٰة شریف مترجم ، ج ۳، ص318)۔
(3) رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتاتو وہ عمر بن الخطاب ہوتا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیںمشکوٰة شریف مترجم ، ج۳، ص 319)۔
(4) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے
رب عزوجل کی موافقت کی مقام ابراہیم میں ، پردہ میں اور بدر کے قیدیوں میں
(مشکوٰة شریف مترجم، ج۳، ص 320)
حیات عمر رضی اللہ عنہ کے چند گوشے : (1) ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نشہ میں دیکھ کر اسے درے
مارنے چاہے کہ اس شخص نے آپ کو گالی دی۔۔۔ گالی سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے
اس کو چھوڑ دیا لوگوں نے کہ: ” امیر المومنین ! جب اس نے آپ کو گالی دی تو
آپ نے اسے چھوڑ دیا اس کی کیا وجہ ہے؟“ فرمایا: جب اس نے مجھے گالی دی تو
میں نے اسے اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ اس سے مجھے بے حد غصہ معلوم ہوا ۔۔۔ میں
نے خیال کیا کہ اگر اسے سزادوں گا تو یہ میرے ذاتی غصہ کی وجہ سے ہوگی ۔۔۔
اور مجھے یہ برا لگتا ہے کہ اپنے نفس کے لیے کسی کو سزا دوں(تذکرہ
الواعظین ، ص 462)۔
(2) ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف لائے آپ کو کوئی تکلیف
لاحق تھی حکماءنے شہد تجویز کیا ۔ بیت المال میں ایک شہد کا کپا موجود
تھا۔ آپ نے لوگوں سے کہا کہ کیا تم جھے اجازت دیتے ہو کہ میں بیت المال سے
کچھ شہد لے لوں اگر تم اجازت دوگے تو لو ں گا ورنہ مجھ پر حرام ہے ۔
چنانچہ لوگوں نے آپ کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے آپ کو اجازت دے دی (تاریخ
الخلفاء، ص 316)۔
(3)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ راتوں کو مدینہ منورہ کی
آبادی میں گشت فرمایا کرتے تھے، ایک بار ایک عورت دروازہ بند کیے فراقیہ
(جدائی) اشعار پڑھ رہی تھی دوسرے روز آپ نے فوراً ہی غزوات میں موجود
عاملین کو لکھا کہ کوئی شخص چار مہینے سے زیادہ میدان جنگ میں نہ رہے
(یعنی چار ماہ بعد اسے گھر جانے کی اجازت دے دی جائے(تاریخ الخلفاء،
ص318)۔
(4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اسلام کے عظیم سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ
بن الجراح کا خط ملا کے بیت المقدس آپ کے تشریف لائے بغیر فتح نہیں ہوسکتا
۔ ۔۔ تو آپ رضی اللہ عنہ فوراً شام کی طرف روانہ ہوگئے ۔ آپ کے ہمراہ ایک
اونٹ اور آپ کا غلام تھا۔۔۔ راستہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اور غلام
کے درمیان مساوات قائم رکھی اور کچھ فاصلہ تک آپ رضی اللہ عنہ اونٹ پر
سوار ہوتے اور کچھ فاصلہ تک غلام ۔۔۔ اتفاق سے بیت المقدس پہنچنے پر غلام
کی باری تھی اور آپ مہار تھامے پیدل چل رہے تھے۔ ۔۔ حضرت ابوعبیدہ بن
الجراح رضی اللہ عنہ کو جب آپ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ استقبال کے لیے
شہر سے باہر آگئے ۔۔۔ لیکن آپ کو اس حال میں دیکھ کر کہا:” اے
امیرالمومنین عمائدینِ شہر روسا عنقریب آ پ سے ملنے اور استقبال کرنے آرئے
ہیں اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ وہ لوگ اس حال میں دیکھیں “۔ آپ رضی اللہ عنہ
نے فرمایا :” ہماری عزت اور ہماری بزرگیءصرف یہی ہے کہ ہم مسلمان ہےں ۔۔۔
ہم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عزت بخشی ہے۔ ہم کو دنیا وی عزت کی ضرورت
نہیں۔۔۔ میں شہر میںیو نہی داخل ہو نگا “ (تذکرة الواعظین، ص 465)۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کرامات: (۱) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ کی
گلیوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور شیطان کے درمیان تین دفعہ کُشتی ہوئی
اور آپ نے تینوں دفعہ اس کو خاک آلود کر دیا (دلائل النبوة ابو نعیم، ص
349)۔
(۲)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر بنا کر
جنگ کے لیے بھیجا ۔ ایک روز آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ دوران خطبہ
فرمایا:” اے ساریہ پہاڑ کی پناہ لو، اے ساریہ پہاڑکی پناہ لو۔“ حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک ماہ کی
مسافت تھی ۔ حضرت ساریہ واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ میں نے فلاں جمعہ
دن کہ یہ آواز سنی تھی اے ساریہ پہاڑ کی پناہ لو(دلائل النبوة ابو نعیم، ص
531)۔
(۳) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے اس
نے کہ جمرہ (چنگاری) آپ نے پوچھا تیرے باپ کا نام ، اس نے کہا (شعلہ)
قبیلے کا نا دریافت کیا اس نے کہا حرقہ (آگ) وطن کا نام پوچھنے پر بتایا
حرہ(گرمی) پوچھا حرة کہا ہے بتایا نطمی ( شعلہ) میں یہ سن کر آپ نے
فرمایااپنے اہل وعیال کی جلد خبر لو وہ تو جل مرے، وہ شخص اپنے گھر گیا تو
واقعی اس کے گھر کو آگ لگ چکی گھی اور سب جل مرے تھے۔ (موطا امام مالک
تاریخ الخلفاء، ص 294)۔
(4) جب مصر فتح ہوا تو وہاں کے گورنر حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کے
پاس عجمی لوگ آئے اور کہاکہ ہماری کھیتی باڑی کا انحصار دریائے نیل پر ہے
اور ہر سال دریائے نیل میں ایک نوجوان لڑکی کی قربانی دیتے ہیں تب دریائے
نیل کا پانی جاری ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس رسم پر عمل کرنے سے منع
فرمادیا۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بات پر عمل کرتے ہوئے کسی لڑکی کو
دریائے نیل میں نہ پھینکا ۔ دریائے نیل خشک رہا اور پانی بالکل نہ آیا۔
لوگ بہت پریشان ہوئے اور ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت عمرو بن العاص
رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور ساری
حالت سے آگا ہ کیا۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن
العاص کو ایک رقعہ بھیجا اور لکھا کہ یہ رقعہ دریا ئے نیل میں ڈال دینا ۔
اس مبارک رقعہ میں درج ذیل الفاظ تھے کہ ” اللہ عزوجل کے بندے امیرالمو
منین (حضرت ) عمر (رضی اللہ عنہ کی جانب سے مصر کے دریا’نیل‘ کی طرف !
امابعد! اے دریائے نیل اگر تو اپنی مرضی سے جاری ہوتا ہے تو جاری مت ہو
ہمیں تیری کوئی حاجت نہیںاور اگر تجھے اللہ عزوجل جاری فرماتا ہے تو ہم اس
سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے جاری فرما دے۔“ حضرت عمرو بن العاص نے رقعہ
دریائے نیل میں ڈال دیا۔ لوگ صبح دریائے نیل پر پہنچے تو دیکھا کہ حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کے رقعہ کی برکت سے دریا میں سولہ گز پانی جاری فرمادیا
اور اللہ عزوجل نے وہ رسم ِ باطل مٹادی اور آج تک یہ رسم ختم ہے ۔ دریائے
نیل اس کے بعد آجتک خشک نہیں ۔ (عیون الحکایات، ج۱، ص 229)
چاہے تو اشاروں سے اپنی کایا ہی پلٹ دے دنیا کی
یہ شان ہے خدمت گاروں کی سرکار کا عالم کیا ہوگا
شہادت عمر رضی اللہ عنہ : ابول لولو نامی شخص جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا ایک دو دھاری
خنجر آستین مٰں چھپا کر مسجد میں ایک گوشہ میں چھپ ک ربیٹھ یا ، ابھی پو
نہیں پوٹی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے ہوئے
گشت کررہے تھے جب مسجد میں اس کے قریب سے گزرے تو اس نے آپ کے جسم پر پے
درپے وار کیے اس نے آپ کے علاوہ ۱۲ اور افراد کو زخمی کیا جس میں سے ۶
افراد انتقال کرگئے ۔ اس نے خد بھی خود کُشی کر لی۔ ۶۲ذوالحجہ کو آپ بھی
خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ (عیون الحکایات، ج۱، ص 39، تاریخ الخلفا، ص 306)
اولیاتِ فاروقی رضی اللہ عنہ: (1) تاریخ و سالِ ہجری جاری کیا۔
(2) بیت المال قائم کیا۔
(3)ماہِ رمضان میں تراویح کی نماز باجماعت جاری فرمائی۔
(4) لوگو ں کے حالات معلوم کرنے کے لیے راتوں کو گشت کیا۔
(5)ہجو، مذمت کرنے والوں پر حد جاری فرمائی۔
(6)شراب پینے والے پر اسی کوڑے لگوائے ۔
(7) متعہ کی حرمت کو عام کیا اور ناجائز قرار دیا۔
(
جن لونڈیوں سے اولاد ہو ان کی خرید و فروخت ممنوع قرار دی۔
(9) نمازِ جنازہ میں چار تکبیر پڑھنے کا حکم دیا۔
(10) دفاتر قائم کیے اور وزارتیں معین و مقرر کی۔
(11) سب سے زیادہ فتوحات حاصل کی۔
(12)مصر سے بحرِ ایلہ کے راستے مدینہ طیبہ میں غلہ پہنچانے کا بندوبست کیا۔
( 13) صدقہ کا مال اسلامی امور میں خرچ کرنے سے روکا۔
(14)ترکہ اور ورثے کے مقررہ حصوں کی تقسیم کا نفاذ فرمایا۔
(15)گھوڑوں پر زکوٰة وصول کی۔
(16) دُرہ ایجاد کیا۔
(17) شہروں میں قاضی مقرر کیے۔
(18) کوفہ، بصرہ، جزیرہ، شام ، مصر اور موصل شہر آباد کیے۔
(19) مساجد میں رات کو روشنی کا بندوبست کیا۔
(20) مسافر خانے قائم کیے۔
(21)اذانِ فجر میں الصلوٰة و خیرمن النوم کا اضافہ کیا۔ (تاریخ الخلفاءص 312)
یوں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی ایک مثالی نمونہ ہے اور
خصوصاً حکمران طبقہ کے لیے مثلِ راہ ہے ۔ چند اوراق میں ان کو سمیٹنا مشکل
ہی نہیں ناممکن ہے آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کے مختصر سے احوال حصول برکت
کے لیے پیش کیے ہیں دعا ہے اللہ عزوجل اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔
(آمین)
طالبِ دعا
قیصر مصطفی عطاری
بزمِ رضائے محمد ﷺ