Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
Subject: حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ اور Thu 10 Dec 2009 - 6:52
حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ اور حضور کی غلامی خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی ذات سے کون ناواقف ہے آپ رضی اﷲ عنہنے اپنی حکومت میں بے شمار کارنامے انجام دے کر تاریخ میں ایک باب رَقم کیا آج کل کے دور میں جس طرح امریکہ نام نہاد سُپر پاور ہے اس دور میں قیصرو قصریٰ سُپر پاور ہوتی تھی قیصرو قصریٰ بھی آپ رضی اﷲ عنہ کے نام سے کانپتے تھے جِدھر آپ رضی اﷲ عنہکی نگاہِ مبارک اُٹھ جائے وہ ملک فتح و نُصرت پاتا تھا ۔ہر طرف آپ کی عظمت کا جھنڈا لہرا رہا تھا ہر طاقت کو جو اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف اُٹھتی آپ رضی اﷲ عنہ نے اُسے نیست و نابود کردیا۔ ایک مرتبہ آپ رضی اﷲ عنہ نے ایک وفد بیت المقدّس بھیجا وہ وَفد کوئی عام آدمیوں کا نہیں بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا وَفد تھا یہ وَفد بیت المقدّس پہنچا یہ اُس دور کی بات ہے جب بیت المقدّس پر پادریوں کا قبضہ تھا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ بیت المقدّس کو پادریوں کے چُنگل سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پادریوں سے کہا کہ ہم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی جانب سے یہ پیغام لائے ہیں کہ تم لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجاﺅ۔ یہ سُن کر پادریوں نے کہا ہم لوگ صرف تمہارے امیر المومنین کو دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جو نشانیاں ہم نے فاتح بیت المقدّس کی اپنی کتابوں میں پڑھی ہیں کیا وہ نشانیاں تمہارے امیر میں موجود ہیں؟ اگر موجود ہوئیں تو ہم بغیر جنگ و جدل کے بیت المقدّس تمہارے حوالے کردیں گے یہ سُن کر مسلمانوں کا یہ وَفد حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہکی خدمت میں حاضر ہوااور سارا ماجرا آپ رضی اﷲ عنہ کو سُنایا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہنے اپنا ستر پیوند سے لبریز جُبّہَ پہنا،عمامہ شریف پہنا اور جانے کے لئے تیار ہوگئے سارے صحابہ کرام علیہم الرضوان ،حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے عرض کرنے لگے حضور! وہاں بڑے بڑے لوگ ہوں گے،بڑے بڑے پادری ہوں گے آپ رضی اﷲ عنہ اچھے اور نئے لباس پہن لیں ۔ہمارے بیت المال میں کوئی کمی نہیں ۔ انسانی فطرت کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ جب بندہ کوئی بڑی جگہ جاتا ہے تو وہ اچھالباس پہنتا ہے تاکہ اُس کا وقار بلند ہو۔ مگر اﷲاکبر! صحابہ کرام علیہم الرضوان کی یہ بات سُن کر فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کو جلال آگیا اور فرمانے لگے کہ کیا تم لوگ یہ سمجھے کہ عمر کو عزت حکومت کی وجہ سے ملی ہے یا اچھے لباس کی وجہ سے ملی ہے ؟ نہیں عمر کو عزت حضور کی غلامی کی وجہ سے ملی ہے آپ فوراً سواری تیار کرکے روانہ ہوئے جیسے ہی آپ رضی اﷲ عنہ بیت المقدّس پہنچے تو حضرت عمر فارقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا حُلیہ مبارک دیکھ کر ،سرکار اعظم کے غلام کو دیکھ کر پادریوں کی چیخیں نکل گئیں اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہکے قدموں میں گِرپڑے اور ساری بیت المقدّس کی چابیاں حضرت عمر ر ضی اﷲ عنہکے حوالے کردیں اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ سے جنگ نہیں کرنی کیونکہ ہم نے جو حُلیہ فاتح بیت المقدس کا کتاب میں پڑھا ہے یہ وہی حُلیہ ہے اس طرح بغیر جنگ کے بیت المقدّس آزاد ہوگیا۔ اُن ( ) کے جو غلام ہوگئے وقت کے ا مام ہوگئے نام لیوا اُن کے جو ہوئے اُن کے اُونچے نام ہوگئے دریائے مصر غلامِ مصطفی کے اشاروں پر درِ مصطفی کے غلام امیر المومنین سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کے دورِ خلافت میں مصر کا دریائے نیل خشک ہوگیا۔مصری رعایا مصر کے گورنر صحابی رسول حضرت عمر بن العاص رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اے امیر! ہمارا یہ دستور تھا کہ جب دریائے نیل خشک ہوجاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو دریا میں زندہ درگور کرکے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے اس کے بعد دریا پھر جاری ہوا کرتا تھا اب ہم کیا کریں؟ گورنر نے فرمایا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اسکے رحمت والے رسول کا رحمت بھرا دینِ اسلام ہرگز ہرگز ایسے ظالمانہ اور جاہلانہ فعل کی اجازت نہیں دیتا تم لوگ انتظار کرو میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو خط لکھتا ہوں وہاں سے جو حکم ملے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔ چنانچہ گورنر کاقاصد مدینہ الرسول آیا اور دریائے نیل خشک ہونے کا حال سُنایا۔امیر المومنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یہ خبر سُن کر نہ گھبرائے نہ پریشان ہوئے ۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ قاصد کو یہ کہہ کر بھی روانہ کرسکتے تھے کہ تم لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرو،نوافل پڑھو اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کر وکہ اﷲ تعالیٰ دریائے نیل کو دوبارہ جاری فرمادے میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میرے پاس کیوں آئے ہوبس دُعا کرو عبادت کرو اﷲتعالیٰ تمہارے حال پر رحم فرماکر دریائے نیل دوبارہ جاری فردیگا۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہنے قاصد سے یہ نہ کہا بلکہ نہایت ہی سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک ایسا تاریخی خط لکھاجیسے کوئی آدمی ایک انسان کو خط لکھ کر اُس سے مُخاطب ہوتا ہے ایسا تاریخی خط دریائے نیل کے نام لکھا جو تاریخ ِ عالم میں بے مثل و بے مثال ہے ۔ الیٰ نیل مصر من عبداﷲ عمر بن الخطاب:ام بعد فان کنت تجری بنفسک فلا حاجۃ لنا الیک وان کنت تجری باﷲ فانجر علی اسم اﷲ۔ اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا (تو میں امیرالمومنین ہو کر تجھ کو حکم دیتا ہوں ) کہ تو پھر اﷲ تعالیٰ کے نام پر جاری ہوجا۔ (بحوالہ ،کتاب:ازالۃ الخفاءجلد دوئم صفحہ نمبر 166) امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اس خط کو لفا فے میں بند کرکے قاصد کو دیا اور فرمایااس کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے چنانچہ جوں ہی آپ رضی اﷲ عنہکا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا فوراً جاری ہوگیا اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک خشک نہیں ہوا۔ چاہیں تو اشاروں سے اپنی کا یا ہی پلٹ دیں دنیا کی یہ شان ہے خدمت والوں کی سردار کا عالم کیا ہوگا اﷲ اکبر! یہ دریا کب سے خط پڑھنا سیکھ گیا جو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے خط کو پاتے ہی آپ کے حکم کو پاتے ہی جاری ہوگیا میر ی سمجھ میں بات یہی آتی ہے کہ حضرت عمررضی اﷲ عنہ اپنے آقا کے ایسے سچّے غلام تھے کہ آپ کا حکم دریاﺅں پر بھی چلتا تھا۔