سو برس تک مردہ رہے پھر زندہ ہو گئے
اکثر مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عزیز بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کر دیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا اور ایک لاکھ کو ملک شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کر دیا اور ایک لاکھ کو گرفتار کرکے لونڈی غلام بنا لیا۔ حضرت عزیز علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کر دیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔
بخت نصر کون تھا ؟
قوم عاملقہ کا ایک لڑکا ان کے بت ‘ نصر ‘ کے پاس لاوارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا بخت نصر ( نصر کا بیٹا ) رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہر سف بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا۔ ( تفسیر جمل، ج1، ص321، البقرۃ: 259 )
کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیز علیہ السلام جب کسی طرح ‘ بخت نصر ‘ کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہو چکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بےاختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ
انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالٰی پھر اس کو آباد کرے گا ؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالٰی نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کر دیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کر دیا اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلا بلا کر اس شہر میں آباد کر دیا اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اور قسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور بارونق بنا دیا۔ جب حضرت عزیز علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالٰی نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مر چکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑیں ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بوباس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمرو ہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالٰی نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیز! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے ؟ تو آپ نے خیال کرکے کہا کہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ نہیں، اے عزیز! تم پورے سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیز! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان میں گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیز علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہوکر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا:
اعلم ان اللہ علٰی کل شئ قدیر ہ ( پ3، البقرۃ: 259 )ترجمہ کنزالایمان: میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔اس کے بعد حضرت عزیز علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیز علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیز کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیز کا کیا ذکر ہے ؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہو چکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! میں ہی عزیز ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ! آپ کیسے عزیز ہو سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالٰی نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیز علیہ السلام تو ایسے باکمال تھے کہ ان کی ہر دعاء مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیز علیہ السلام ہیں تو میرے لئے دعا کیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آ جائے اور میرا فالج اچھا ہو جائے۔ حضرت عزیز علیہ السلام نے دعاء کر دی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا ارو بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقیناً حضرت عزیز علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لیکر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہو چکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا کہ اے لوگو! بلا شبہ یہ حضرت عزیز علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کامسہ تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیز کو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیز ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنائیے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کر دیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیز نے توراۃ صحیح پڑھی یا نہیں ؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کر دی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کر دو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کر دوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیز نے جو توراۃ پڑھی وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیز کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ بے شک حضرت عزیز یہی ہیں اور یقیناً یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذاللہ حضرت عزیز خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیز خدا کے بیٹے ہیں۔ ( معاذاللہ )
( تفسیر جمل علی الجلالین، ج1، ص322، پ3، البقرۃ: 259 )
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔
او کالذی مر علٰی قریۃ وھی خاویۃ علٰی عروشھاج قال انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا ج فاماتہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ ط قال کم لبثت ط قال لبثت یوما او بعض یومط قال بل لبثت مائۃ عام فانظر الی طعامک و شرابک لم یتسنہ ج وانظر الٰی حمارک و لنجعلک اٰیۃ للناس و انظر الی العظام کیف نشزھا ثم نکسوھا لحما ط فلما تبین لہ لا قال اعلم ان اللہ علی کل شئ قدیر ہ ( پ3، البقرۃ: 259 )ترجمہ کنزالایمان: یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم فرمایا نہیں بلکہ سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو نہ لایا اور گدھے کو دیکھ ( کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں ) اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
(درس ہدایت )(1) ان آیتوں میں صاف صاف موجود ہے کہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی آب و ہوا میں حضرت عزیز علیہ السلام کا گدھا تو مر کر گل سڑ گیا اور اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئیں مگر پھلوں اور شیرہ ء انگور اور خود حضرت عزیز علیہ السلام کی ذات میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ سو برس میں ان کے بال بھی سفید نہیں ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی قبرستان کے اندر ایک ہی آب و ہوا میں اگر بعض مردوں کی لاشیں گل سڑ کر فنا ہو جائیں اور بعض بزرگوں کی لاشیں سلامت رہ جائیں اور ان کے کفن بھی میلے نہ ہوں ایسا ہو سکتا ہے، بلکہ بارہا ایسا ہوا ہے اور حضرت عزیز علیہ السلام کا یہ قرآنی واقعہ اس کی بہترین دلیل ہے۔ ( واللہ تعالٰی اعلم )
(2) بیت المقدس کی تباہی اور ویرانی دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام غم میں ڈوب گئے اور فکرمند ہو کر یہ کہہ دیا کہ اس شہر کی بربادی اور ویرانی کے بعد کیونکر اللہ تعالٰی اس شہر کو دوبارہ آباد فرمائے گا ؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے وطن اور شہر سے محبت کرنا اور الفت رکھنا یہ صالحین اور اللہ والوں کا طریقہ ہے۔ ( واللہ تعالٰی اعلم )