[right]
دوڑنے والا پتھر
یہ ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا، جو ہمیشہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسٰی علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہور ہوا۔ جب کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہوا ہے۔
پہلا معجزہ
اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو در حقیقت حضرت موسٰی علیہ السلام کا معجزہ تھا وہ اس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔
اس کا مفصل واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عام دستور تھا کہ وہ بالکل ننگے بدن ہو کر مجمع عام میں غسل کیا کرتے تھے۔ مگر حضرت موسٰی علیہ السلام گو کہ اسی قوم کے ایک فرد تھے اور اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے، لیکن خدا وند قدوس نے ان کو نبوت و رسالت کی عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ اس لئے آپ کی عصمت نبوت بھلا اس حیا سوز بے غیرتی کو کب گوارا کر سکتی تھی۔ آپ بنی اسرائیل کی اس بے حیائی سے سخت نالاں اور انتہائی بیزار تھے اس لئے آپ ہمیشہ یا تو تنہائی میں یا تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل نے جب یہ دیکھا کہ آپ کبھی بھی ننگے ہو کر غسل نہیں فرماتے تو ظالموں نے آپ پر بہتان لگا دیا کہ آپ کے بدن کے اندرونی حصہ میں یا تو برص کا سفید داغ یا کوئی ایسا عیب ضرور ہے کہ جس کو چھپانے کیلئے یہ کبھی برہنہ نہیں ہوتے اور ظالموں نے اس تہمت کا اس قدر اعلان اور چرچا کیا کہ ہر کوچہ و بازار میں اس کا پروپیگنڈہ پھیل گیا۔ اس مکروہ تہمت کی شورش کا حضرت موسٰی علیہ السلام کے قلب نازک پر بڑا صدمہ و رنج گزرا اور آپ بڑی کوفت اور اذیت میں پڑ گئے۔ تو خدا وند قدوس اپنے مقدس کلیم کے رنج و غم کو بھلا کب گوارا فرماتا اور اپنے ایک برگزیدہ رسول پر ایک عیب کی تہمت بھلا خالق عالم کو کب اور کیونکر اور کس طرح پسند ہو سکتی تھی۔ ارحم الراحمین نے آپ کی براءت اور بےعیبی ظاہر کر دینے کا ایک ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ دم زدن میں بنی اسرائیل کے پروپیگنڈوں اور ان کے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور آپ کی براءت اور بے عیبی کا سورج آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن و آشکار ہو گیا اور وہ یوں ہوا کہ ایک دن آپ پہاڑوں کے دامنوں میں چھپے ہوئے ایک چشمہ پر غسل کیلئے تشریف لے گئے اور یہ دیکھ کر کہ یہاں دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہیں ہے، آپ اپنے تمام کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ کر اور بالکل برہنہ بدن ہو کر غسل فرمانے لگے، غسل کے بعد جب آپ لباس پہننے کیلئے پتھر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں کو لئے ہوئے سر پٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسٰی علیہ السلام بھی اس پتھر کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے کہ ثوبی حجر، ثوبی حجر، یعنی اے پتھر ! میرا کپڑا۔ ۔ ۔ ۔ اے پتھر ! میرا کپڑا۔ مگر یہ پتھر برابر بھاگتا رہا۔
یہاں تک کہ شہر کی بڑی بڑی سڑکوں سے گزرتا ہوا گلی کوچوں میں پہنچ گیا اور آپ بھی برہنہ بدن ہونے کی حالت میں برابر پتھر کو دوڑاتے چلے گئے۔ اس طرح بنی اسرائیل کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سر سے پاؤں تک آپ کے مقدس بدن میں کہیں بھی کوئی عیب نہیں ہے بلکہ آپ کے جسم اقدس کا ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطہ ء کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام اسانوں میں اس کی مثال تقریباً محال ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ہر ہر فرد کی زبان پر یہی جملہ تھا کہ
واللہ ما بموسٰی من باس
‘ یعنی خدا کی قسم موسٰی بالکل ہی بے عیب ہیں۔‘
جب یہ پتھر پوری طرح حضرت موسٰی علیہ السلام کی براءت کا اعلان کر چکا تو خود بخود ٹھہر گیا۔ آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور اس پتھر کو اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا۔ ( بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب30، ج2، ص442، رقم 3404، تفسیر الصاوی، ج5، ص 1659، پ22، الاحزاب: 69 )
اللہ تعالٰی نے اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا کہ
یآیھا الذین اٰمنوا لا تکونوا کالذین اٰذوا موسٰی فبراہ اللہ مما قالوا ط وکان عنداللہ وجیھا ہ
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسٰی کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو انہوں نے کہی اور موسٰی اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔ ( پ22، الاحزاب: 69 )
دوسرا معجزہ
میدان تیہ میں اسی پتھر پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنا عصا مار دیا تھا تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو چالیس برس تک بنی اسرائیل میدان تیہ میں استعمال کرتے رہے۔ جس کا پورا واقعہ پہلے گزر چکا ہے۔ قرآن مجید کی آیت: فقلنا اضرب بعصاک الحجر ( پ1، البقرۃ: 60 ) میں ‘ پتھر ‘ سے یہی پتھر مراد ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ) معجزات کے منکرین جو ہر چیز کو اپنی ناقص عقل کی عینک ہی سے دیکھا کرتے ہیں۔ اس پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا محال قرار دے کہ اس معجزہ کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ اتنے چھوٹے سے پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ حالانکہ یہ منکرین اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بعض پتھروں میں خدا وند تعالٰی نے یہ تاثیر پیدا فرما دی ہے کہ وہ بال مونڈ دیتے ہیں، بعض پتھروں کا یہ اثر ہے کہ وہ سرکہ کو تیز اور ترش بنا دیتے ہیں، بعض پتھروں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ لوہے کو دور سے کھینچ لیتے ہیں، بعض پتھروں سے موذی جانور بھاگ جاتے ہیں، بعض پتھروں سے جانوروں کا زہر اتر جاتا ہے، بعض پتھر دل کی دھڑکن کیلئے تریاق ہیں، بعض پتھروں کو نہ آگ جلا سکتی ہے نہ گرم کر سکتی ہے، بعض پتھروں سے آگ نکل پڑتی ہے، بعض پتھروں سے آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے تو جب خدا وند قدوس نے پتھروں میں قسم قسم کے اثرات پیدا فرما دیئے ہیں تو پھر اس میں کونسی خلاف عقل اور محال بات ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے اس پتھر میں اللہ تعالٰی نے یہ اثر بخش دیا اور اس میں یہ خاصیت عطا فرما دی کہ وہ زمین کے اندر سے پانی جذب کرکے چشموں کی شکل میں باہر نکالتا رہے یا اس پتھر میں یہ تاثیر ہو کہ جو ہوا اس پتھر سے ٹکراتی ہو وہ پانی بن کر مسلسل بہتی رہے یہ خدا وند قادر و قدیر کی قدرت سے ہرگز ہرگز نہ کوئی بعید ہے نہ محال نہ خلاف عقل۔ لٰہذا اس معجزہ پر ایمان لانا ضروریات دین میں سے ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
وان من الحجارۃ لما یتفجر منہ الانھر ط وان منھا لما یشقق فیخرج منہ المآء ط وان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ ط ( پ1، البقرۃ: 74 )
ترجمہ کنزالایمان: اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔
بہر حال پتھروں سے پانی نکلنا یہ روزانہ کا چشم دید مشاہدہ ہے تو پھر بھلا حضرت موسٰی علیہ السلام کے پتھر سے پانی کے چشموں کا جاری ہو جانا کیونکر خلاف عقل اور محال قرار دیا جا سکتا ہے۔
[center]