Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری کی کشف و کرامات Mon 14 Jun 2010 - 10:49 | |
| حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری کی کشف و کرامات
شادی دیو کا اسلام قبول کرنا تمام پجاریوں کا سردار شادی دیو تھا۔ خواجہ بزرگ کے تشریف لانے سے جب اس نے مندر کی اور بُت خانوں کی ویرانی دیکھی تو غصہ میں بھڑک گیا اور خواجہ صاحب کو تکلیف پہنچانا چاہا مگر جونہی اس مردِ قلندر نے ایک نگاہ ڈالی شادی دیو اور اس کے ساتھی کانپ گئے اور قدموں میں گِر کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسکا اسلام نام سَعد رکھا گیا۔
اجے پال جوگی سے مقابلہ اسلام کی ترقی و عروج دیکھ کر رائے پتھورا کو بڑی تشویش ہوگئی اور اس نے اسلام کی ترقی کو جادو سے روکنا چاہا۔ اپنے خاندانی گرو اجے پال کی طرف متوجہ ہوا یہ ہندوستان کے سب سے باکمال اور مشہور جادوگروں میں سے تھا۔ اجمیر کے قریب ایک جنگل میں رہتا تھا۔ اجے پال کو بلا کر خواجہ صاحب کا سارا حال بتا دیا۔ اجے پال ان کرامتوں کو معمولی سمجھا اور راجہ کو یقین دلا دیا کہ وہ بہت جلد انہیں اجمیر سے نکال دے گا۔ مرگ چھالا پر بیٹھا اور اپنے تمام چیلوں کے ساتھ اناساگر روانہ ہوا جہاں خواجہ صاحب قیام فرما تھے۔ جادوگروں کا یہ لشکر اڑن شیروں پر سوار اور ہاتھوں میں اژدھے کا کوڑا لئے ہوئے چیختا چلاتا ہوا اناساگر کے قریب آ پہنچا۔ کچھ نو مسلم رفقاء یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے لیکن خواجہ صاحب نے ایک حصار اپنی انگلی سے کھینچ کر فرمایا۔ اس کے اندر ہی رہنا۔ باہر نہ جانا، محفوظ رہو گے۔ اجے پال اور اس کے ساتھیوں نے اپنے ہاتھ سے اژدہے چھوڑ دئیے جو تیزی سے خواجہ صاحب کی طرف بڑھے مگر حصار تک پہنچ کر سب کے سب جل گئے۔ اس ترکیب سے جب ناکام ہو گئے تو جادوگروں نے آگ برسانا شروع کردیا مگر وہ آگ بھی خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی بلکہ اُلٹے وہ آگ پلٹ کر انہیں جو جلانے لگی۔ جب یہ تدبیر ناکام ہوگئی تو اجے پال نے آسمان کی طرف اُڑ کر فضا سے حملہ کرنا چاہا اور اس ارادے سے وہ آسمان کی طرف اڑا۔ خواجہ صاحب کی نظر اس پر پڑی۔ فوراً آپ نے اپنے جوتیوں کو اشارہ کیا کہ وہ اس بے دین کو نیچے اتار لائیں۔ جوتیاں اڑیں اور آن کی آن میں اجے پال کے سر پر پہنچ کر تڑاتڑ پڑنے لگیں۔ وہ جوتیاں اسے نیچے اتار لائیں۔ اب اجے پال کے حجاب اٹھ چکے تھے اور اس نے سمجھ لیا تھا کہ سحر بیکار ہے۔ آنکھوں میں اشک ندامت بھر لایا اور معافی چاہی۔ خواجہ صاحب نے معاف فرما دیا اور وہ صدق دل سے مسلمان ہوکر آپ کے حلقہء ارادت میں داخل ہوگیا۔ خواجہ صاحب نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔ اس کے ساتھی بھی مسلمان ہو گئے اور جتنے لوگوں نے یہ واقعہ دیکھا سب اسلام میں داخل ہو گئے۔ اجے پال نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا حضور اپنے مدارج اعلٰی سے آگاہ فرمائیں۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا آنکھیں بند کرو۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس نے دیکھا کہ تمام حجابات اٹھنے لگے۔ عالم برزخ بام ہائے فلک حتٰی کہ عرش اعظم تک کی سیر کرادی۔ جب اس کی طبیعت سیر ہوگئی تو حکم دیا انہیں کھولو۔ آنکھیں کھول کر حضور کے قدموں پر گر پڑا آپ نے شفقت فرما کر اٹھایا اور اتنا کرم فرمایا کہ اس کو اولیاء کاملین کے درجہ تک پہنچا دیا۔ اب ایک اور التجا پیش کی۔ انہوں نے حیات ابدی طلب کی۔ حضور تبسم فرما کر بارگاہ رب العالمین میں عرض گزاری جس پر اُسے شرب قبولیت سے نوازا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ عبداللہ زندہ ہیں اور بھولے بھٹکے مسافروں کو راستہ بتاتے ہیں۔ اجمیر اور گرد و نواح کے لوگ انہیں عبداللہ بیابانی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد سے راجہ آپ کا بے حد دشمن ہو گیا تھا۔ خواجہ صاحب نے شہر میں قیام فرمانے کے بعد پرتھوی راج کو اسلام کی دعوت دی۔ راجہ پرتھوی راج نے قبول نہ کی۔ جب خواجہ صاحب سے اس کے انکار کا ذکر کیا گیا تو آپ کو سخت افسوس ہوا اور مراقبہ کے بعد فرمایا۔ اگر یہ بدبخت ایمان نہ لایا تو میں اس کو اسلام کے لشکر کے حوالے زندہ گرفتار کرادوں گا۔ (سیرالاقطاب، خزینۃ الاصفیاء)
پرتھوی راج کا غریب نواز سے کشمکش
جس وقت حضرت خواجہ اجمیر میں رونق افروز ہوئے تھے راجہ اور اس کے درباریوں کو سخت ناگواری تھی۔ سب چاہتے تھے کہ وہ اجمیر سے چلے جائیں۔ خواجہ صاحب کا ایک مُرید پرتھوی راج کے یہاں ملازم تھا۔ راجہ نے اس کو تکلیف پہنچانا شروع کردیا۔ اس مُرید نے خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ بڑے مُرید نواز تھے۔ آپ نے راجہ سے اس کی سفارش کی۔ راجہ نے خواجہ صاحب کی بات نہ مانی اور بولا۔ یہ شخص یہاں آکر غیب کی باتیں بیان کرتا ہے۔ جب یہ بات خواجہ صاحب کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا۔ “ہم نے پتھورا کو زندہ گرفتار کرکے لشکرِ اسلام کے حوالے کر دیا۔“ (سیرالاولیاء) اور ایسا ہی ہوا بھی جیسا کہ آگے مضمون میں آپ اندازہ فرمائیں گے۔
شھاب الدین غوری کو بشارت
شہاب الدین غوری نے خراسان میں خواب دیکھا کہ ایک بزرگ اس کو تسلی دے رہے ہیں اور اس سے فرما رہے ہیں۔ خدائے تعالٰی نے ہندوستان کی سلطانی تجھے بخشی۔ جلد اس کی طرف متوجہ ہو اور راجہ پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کرکے سزا دے۔ جب شہاب الدین نے علماء و فضلاء سے یہ خواب بیان کیا۔ سب نے تعریف کی اور کہا یہ خواب فتح و کامرانی کا مژدہ ہے۔ (سیرالاقطاب)
معرکہء جنگ
ترائن کی پہلی لڑائی 1191ھ میں ہوئی تھی۔ شہاب الدین زخمی ہوا اور شکست کھا کر غزنیں واپس چلا گیا۔ اس شکست کا اسے بڑا قلق تھا۔ اس نے عہد کیا کہ جب تک فتح نہ حاصل کرے گا چین سے نہ بیٹھے گا۔ غزنین پہنچ کر وہ دن رات لشکر جمع کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔ اس شکست کے بعد محل سرائے میں بستر پر سونا ترک کر دیا تھا۔ انتقام کی آگ اس کے سینے میں بھڑک رہی تھی۔ اس نے ایک لشکرِ عظیم جمع کیا اور بغیر کسی کو بتائے ہندوستان کی طرف کوچ کیا۔ چلتے چلتے ملتان میں شہاب الدین نے دربار منعقد کیا۔ سب امیروں اور سرداروں کو بلایا۔ ان کی خطا معاف کی۔ پھر ان سے مخاطب ہوکر کہا۔ “اے مسلمانو ! سال گذشتہ اسلام کے دامن پر جو بدنما داغ لگا اس کا تدارک ہر مسلمان پر واجب ہے۔ سب نے ایک زبان ہوکر شہاب الدین غوری کی آواز پر لبیک کہا اور پوری امداد و معاونت کا وعدہ کیا۔ سب نے تلوارون پر ہاتھ رکھ کر سلطان کو یقین دلایا کہ وہ اپنے ارادے سے ہٹنے والے نہیں۔ شہاب الدین غوری اس عہد و پیمان کے بعد ملتان سے روانہ ہوکر لاہور پہنچا۔ لاہور پہنچ کر اس نے رکن الدین حمزہ کو مع اپنے پیغام کے راجہ پرتھوی راج کے پاس اجمیر روانہ کیا، پیغام یہ تھا۔ “اطاعت قبول کرو ورنہ لڑائی کیلئے تیار ہو جاؤ۔“ راجہ کو اپنی طاقت پر بڑا ناز تھا، بہادری پر گھنمڈ تھا، شجاعت پر ناز تھا، راجپوتوں کی وفاداری اور راجاؤں کی امداد پر کامل اعتقاد تھا۔ اپنی فوج اور اپنے ہاتھیوں پر زعم تھا۔ اسی غرور و پندار کی بنا پر راجہ پرتھوی نے شہاب الدین کو حسبِ ذیل جواب دیا۔ یہ جواب بزبان فارسی تھا۔ یہاں صرف ترجمہ لکھا جاتا ہے۔ “ہماری بے شمار فوج کی تیاری اور اس کا جوش و خروش تم کو معلوم ہوگا۔ ہر روز اطراف ہند سے لشکر برابر پہنچ رہے ہیں۔ اگر اپنے پرتم کو رحم نہیں آتا تو اپنی نامراد فوج ہی پر رحم کھالو اور اپنے آنے سے پشیمان ہوکر لوٹ جاؤ۔ ورنہ اس کے لئے آمادہ و تیار ہو جاؤ کہ تین ہزار سے زائد صف شکن ہاتھی اور بے شمار پیادے اور تیر انداز کل کے روز تمہارے لشکر پر حملہ آور ہونگے اور تم کو میدان جنگ میں فیل مات دی جائے گی۔ ہاتھیوں سے تمہاری فوج کو کچل دیا جائے گا۔ پرتھوی راج کو اپنے فتح و کامرانی کا پورا یقین تھا۔ راجہ اپنے ساتھ تین ہزار ہاتھی، تین لاکھ سوار اور بے شمار پیدل لیکر چلا۔ ڈیڑھ سو راجاؤں کی فوجیں شامل تھیں۔ سلطان شہاب الدین غوری کے ساتھ ایک لاکھ سوار پیدل ہزار کا لشکر تھا۔ دونوں فوجوں نے سرسوتی دریا کے پار مورچے لگائے شہاب الدین نے یہ عقل مندی کی تھی کہ اس نے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک حصّے کا سپہ سالار مقرر کرکے باری باری لڑنے کا حکم دیا۔ راجی پرتھوی راج کی فوج بڑی بہادری سے لڑ رہی تھی۔ بہادر راجپوت انتہائی بہادری سے لڑے۔ معرکہ جنگ وجدل بہت دیر تک ہوتا رہا۔ دوپہر کا وقت ہوا۔ راجہ پرتھوی راج ڈیڑھ سو راجاؤں کو لیکر ایک پیڑ کے نیچے فروکش ہوا۔ سب نے یہ طے کیا کہ اب یا تو فتح یا تو موت۔ ان سب نے تلوار پر ہاتھ رکھ کر قسمیں کھائیں۔ شربت کا ایک ایک پیالہ پیا۔ پان کا بیڑا چبایا۔ تلسی کی پتی زبان پر رکھا۔ کیسر کا ٹیکہ ماتھے پر لگایا اور تازم دم ہوکر میدانِ جنگ میں آئے۔ گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی۔ شہاب الدین کو خواب کی بشارت یاد آئی۔ جس نے اس کی ہمت باندھی۔ اب اس کی سمجھ میں یہ تدبیر آئی کہ اپنے خاص جوانوں کا تازم دم دستہ میدان جنگ میں بھیجا جائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ جانباز جوانوں کا یہ دستہ زندگی کو ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں داخل ہوا۔ راجہ کی فوج لڑتے لڑتے تھک چکی تھی۔ اس کے لئے تازہ دم لشکر سے مقابلہ دشوار تھا۔ کھانڈے راؤ مع اپنے معاونین اور بہت سے راجاؤں کے مارا گیا۔ پرتھوی راج کی فوج میں ہل چل مچ گئی۔ ابھی تھوڑا دن باقی تھا کہ شہاب الدین کی فوج غالب اور راجہ پرتھوی راج کی فوج مغلوب ہوئی۔ ترائن کی یہ لڑائی 589ھ مطابق 1193ء میں فیصلہ کن تھی۔ شہاب الدین کو فتح اور راجہ پرتھوی راج کو شکست ہوئی راجہ پرتھوی راج نے بھاگنا چاہا لیکن وہ دریائے سرقی کے کنارے گرفتار ہوا اور تہ تیغ کیا گیا۔ (تاریخ فرشتہ)
شھاب الدین غوری غریب نواز کی بارگاہ میں
جس وقت شہاب الدین اجمیر میں داخل ہوا شام ہو چکی تھی۔ مغرب کا وقت تھا۔ اتنے میں اس نے اذان کی آواز سنی۔ اذان کی آواز سن کر اسے سخت تعجب ہوا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ ایک فقیر کچھ دنوں سے تشریف لائے ہیں۔ یہ آواز وہیں سے آ رہی ہے۔ شہاب الدین فوراً وہاں پہنچا، جماعت کھڑی ہوئی تھی۔ خواجہ صاحب امامت فرما رہے تھے۔ شہاب الدین بھی جماعت میں شامل ہو گیا۔ نماز ختم ہونے کے بعد شہاب الدین کی نظر خواجہ صاحب پر پڑی۔ یہ دیکھ کر اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جنہوں نے اس کو فتح و ظفر کی بشارت دی تھی۔ شہاب الدین آگے بڑھا اور غریب نواز کے قدموں پر گر پڑا۔ بہت دیر تک روتا رہا پھر مؤدب ہوکر خواجہ صاحب کی بارگاہ میں عرض داشت کی کہ اُسے داخل سلسلہ فرما لیں۔ خواجہ صاحب نےازراہ عنایت اس کی درخواست منظور فرمائی اور اس کو داخل سلسلہ فرمایا۔ کچھ دن اجمیر میں قیام کرکے شہاب الدین دہلی آیا۔ دہلی کے حاکم نے تحائف پیش کئے۔ شہاب الدین غوری قطب الدین ایبک کو دہلی میں اپنا نائب مقرر کرکے ہندوستان سے واپس چلا گیا۔ سید حسین شھدی کی شھادت حضرت سید حسین شہدی حضرت امام زین العابدین کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا لقب “جنگ سوار“ ہے۔ شہاب الدین غوری کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ سلطان قطب الدین ایبک نے آپ کو اجمیر کا گورنر مقرر کیا۔ آپ پر راجپوتوں نے رات کے وقت اچانک تارا گڈھ پر حملہ کر دیا۔ آپ شہید ہوگئے۔ تارا گڈھ پر آپ کا مزار ہے۔ تاریخ شہادت 598ھ یا 592 یا 610ھ ہے۔
* خواجہ غریب نواز مُریدوں کے ساتھ سیرو سیاحت میں ایک جنگل سے گزرے۔ وہاں کی ایک جماعت آتش پرستی میں مشغول تھی اور ان کا مجاہدہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ چھ چھ ماہ تک بغیر آب و دانہ رہ جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے مخلوق گمراہ ہو رہی تھی۔ خواجہ صاحب نے ان کی یہ حالت دیکھ کر پوچھا کہ تم لوگ خدا کو چھوڑ کر آگ کیوں پوجتے ہو ؟ بولے اس لئے تاکہ دوزخ کی آگ ہم کو نہ جلائے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔ یہ طریقہ تو آگ سے بچا نہیں سکتا۔ اتنے دنوں سے تم پوجتے ہو ہاتھ ڈال کر دیکھو۔ بولے بیشک آگ جلا دے گی یہ کیسے یقین ہو کہ خدا کے پوجنے والے آگ میں نہیں جلتے۔ آپ ہاتھ ڈال کر دکھائیے۔ آپ نے فوراً اپنی جوتیں کو نکال کر آگ میں ڈال دیا آگ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ اے آگ ! یہ خدا کے کسی مقبول بندے کی جوتی ہے۔ اس کو ذرا بھی آنچ نہ آئے۔ جوتی کا آگ میں پہنچنا تھا کہ آگ فوراً ٹھنڈی ہو گئی۔ اور جوتی صحیح و سلامت رہی۔ یہ دیکھ کر تمام آتش پرستوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ اور دل سے اسلام قبول کرکے حلقہء ارادت میں داخل ہوگئے۔
* خواجہ صاحب نواز شیخ شہاب الدین سہروردی اور شیخ احدالدین کرمانی ایک جگہ رونق افروز تھے۔ ایک نوعُمر لڑکا تیر و کمان ہاتھ میں لے کر نکلا۔ خواجہ صاحب نے اس کو دیکھ کر فرمایا۔ یہ بچہ دہلی کا بادشاہ ہوگا۔ چنانچہ یہی بچہ سلطان شمس الدین التمش کے نام سے دہلی کے تخت پر بیٹھا اور چھبیس سال تک حکومت کی۔ یہ خواجہ صاحب کی نظر تھی جو آئندہ ہونے والے واقعے کا مشاہدہ فرما رہے تھے۔
* ایک عورت گریہ و زاری کرتی ہوئی آپ کے پاس آئی اور بلک بلک کر کہنے لگی کہ شہر کے حاکم نے بلا قصور میرے بچے کو قتل کر دیا ہے آپ فوراً عصا لیکر گئے آپ کے ساتھ خدّام بھی تھے۔ تھوڑی دیرتک بچے کی لاش پر کھڑے رہے۔ پھر بڑھے اور بچے کے جسم پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ اے مقتول ! اگر تو بے گناہ مارا گیا ہے تو اللہ کے حکم سے زندہ ہوگا۔ فوراً بچہ زندہ ہو گیا۔ آپ بتائیں کہ یہ ولی کے اختیار کی بات ہے یا نہیں۔ کیا بالکل مجبور بھی مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔
* جو لوگ اطراف و جوانب سے حج کیلئے تشریف لے جاتے سب آ کر متفقہ بیان کرتے کہ ہم نے سرکار خواجہ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حالانکہ اجمیر شریف آنے کے بعد آپ کو حج کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ولیوں کو اتنا اختیار ہے کہ ایک وقت میں کئی جگہوں پر رونق افروز ہو سکتے ہیں۔
* اناساگر کے قریب تشریف فرما تھے کہ ایک چرواہا گائے کے چند بچوں کو چراتا ہوا نکلا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا ! مجھے تھوڑا سا دودھ پلادے۔ اس نے مذاق سمجھا۔ اس نے کہا۔ بابا ! یہ تو ابھی بچّے ہیں۔ ان میں دودھ کہاں ؟ آپ نے مُسکرا کر ایک بچھّیا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ بھائی اس کا دودھ پیوں گا۔ وہ حیران ہو کر بچھّیا کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا تھن دودھ سے بھر گیا ہے۔ اس نے برتن بھر کر دودھ نکالا جس کو پی کر چالیس آدمی شکم شیر ہو گئے اور وہ چرواہا قدموں پر گر کر غلامی میں داخل ہو گیا۔ اسی طرح آپ کی زندگی میں بے شمار کرامتیں ظاہر ہوئیں۔ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے۔ [center] | |
|