مضمون: فضائل و مسائل قربانی
مصنف : مولانا محمد ظہور الاسلام نوری
انتخاب : قرۃالعین
فضائل و مسائل قربانییہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تمام اسلامی تعلیمات و احکامات کا سر چشمہءفیض اور انسان کی جسمانی، مالی، روحانی اصلاح و فلاح کا مآخذ جمیع علومالسامیہ و عربیہ کا مرجع و مرکز مسلمانوں کی ترقی و تمدن کا راز سر بستہعالم کی تاریکی و جہالت کو فنا کر دینے والا آفتاب درخشاں، نوع انسان کوسعادت ابدی اور نجات سرمدی کی منزل مقصود تک پہنچانے والا خدائے پاک کاکلام پاک “ قرآن مجید “ اور اس کے محبوب خاص، نبی مکرم ، شفیع معظم حضوراحمد مجتبٰی محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہیہے۔
لٰہذا قربانی کے فضائل و مسائل قرآنی آیات و احادیث مبارکہ اور مسائل فقہیہ کی روشنی میں ہدیہ ء قارئین ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
خدا وند قدوس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کےواقعہء قربانی کو اپنے کلام پاک میں اس انداز سے بیان فرمایا ہے۔
رب ھب لی من الصالحین ، فبشر نٰہ بغلٰم حلیم ، فلمابلغ معہ السعی قال یبنی انی ارٰی فی المنام انی اذبحک فانظر ما ذا ترٰی ،قال یٰابت افعل ماتؤمر ستجدنی انشاءاللہ من الصابرین، فلما اسلما وتلہللجبین ونا دینٰہ ان یا ابراہیم قد صدقت الرؤیا انا کذٰلک نجزی المحسنین ،ان ھذا الھوا لبلوء المبین وفدینٰہ بذبح عظیم، وترکنا علیہ فی الاٰ خرینسلٰم علٰی ابراہیم ۔ ( القرآن پارہ 23، رکوع 8 ، سورہء صفٰت)
ترجمہ : الٰہی مجھے لائق اولاد دے۔ تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایکعقلمند لڑکے کی ۔ پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا تو۔ کہا۔ اےمیرے بیٹے میں نے خواب دیکھا۔ میں تجھے ذبح کرتا ہوں۔ اب تو دیکھ تیری کیارائے ہے۔ کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے۔ خدا نے چاہاتو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔ تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پرگردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ ۔اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکیوں کا۔ بے شک یہ روشن جانچ تھی اور ہم نے ایکبڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے کر اسے بچا لیا۔ اور ہم نے پچھلوں میں اس کیتعریف باقی رکھی۔ سلام ہو ابراہیم پر۔
( کنزالایمان )مذکورہ بالا آیات مقدسہ کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے صدر الافاضل، فخرالاماثل حضرت علامہ سید نعیم الدین صاحب مراد آبادی علیہ الرحمہ رقم طرازہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بحکم الٰہی سرزمین شام میں ارض مقدسہ کے مقام پرپہنچے تو آپ نے اپنے رب سے دعا کی۔ یعنی تیرے لئے ذبح کا انتظام کر رہاہوں۔ اور انبیاء علیہم السلام کی خواب حق ہوتی ہے۔ اور انکے افعال بحکمالٰہی ہوا کرتے ہیں۔ یہ آپ نے اس لئے کہا کہ فرزند کو ذبح سے وحشت نہ ہواور اطاعت امر الٰہی کیلئے برغبت تیار ہوں۔ چنانچہ اس فرزند ارجمند نےرضائے الٰہی پر فدا ہونے کا کمال شوق سے اظہار کیا۔ یہ واقعہ منٰٰی میںواقع ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرزند کے گلے پر چھری چلائی۔قدرت الٰہی کہ چھری نے کچھ بھی کام نہ کیا۔ اطاعت و فرمانبرداری کمال کوپہنچادی۔ فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر دیا۔ بس اب اتنا کافی ہے۔ اسمیں اختلاف ہے کہ یہ فرزند حضرت اسمٰعیل ہیں یا حضرت اسحٰق علیہما السلاملیکن دلائل کی قوت یہی بتاتی ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل ہی ہیں۔ ( علیہالسلام ) اور فدیہ میں جنت سے بکری بھیجی گئی تھی۔
اب احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہتعالٰی علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیاہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ! اس سے ہم کو ثواب ملے گا۔ فرمایا ہر بالکے بدلے ایک نیکی ہے۔
( احمد، ابن ماجہ )ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا کہ رسول کریمصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے ایام میں ابن آدم کاکوئی عمل خدائے تعالٰی کے نزدیک خون بہانے ( یعنی قربانی کرنے ) سے زیادہپیارا نہیں ۔ اور جانور قیامت کے دن اہنے سینگوں ، بالوں ، کھروں کے ساتھآئے گا۔ اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدائے تعالٰی کے نزدیکمقام مقبول میں پہنچ جاتا ہے۔
( ترمذی، ابن ماجہ )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ آقائے کریم صلی اللہ تعالٰیعلیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب ہر گز نہ آئے۔
( ابن ماجہ ) __________________
حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ" موت دنیا کی اور آخرت کی ہولناکیوں میںسب سے زائد ہولناک ہے یہ آروں کے چیرنے سے، قینچیوں کے کاٹنے سے، ہانڈیوںکے ابالنے سے زائد ہے۔ اگر مردہ زندہ ہوکر موت کی سختی لوگوں کو بتادیتاتو ان کا عیش اور نیند سب کچھ ختم ہوجانا"۔ (ابن ابی الدنیا) شرح الصدورص35)