Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: سلامی سال کا گیارہواں مہینہ Thu 14 Oct 2010 - 15:23 | |
| سلامی سال کا گیارہواں مہینہ ذوالقعدہ
وجہ تسمیہ:
اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ذُوالقعدہ ہے۔ یہ پہلا مہینہ ہے جس میں جنگ و قتال حرام ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قعود سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی بیٹھنے کے ہیں۔ اور اس مہینہ میں بھی عرب لوگ جنگ و قتال سے بیٹھ جاتے تھے۔ یعنی جنگ سے باز رہتے تھے۔ اس لئے اس کا نام ذُوالقعدہ رکھا گیا۔ ذُوالقعدہ کا مہینہ وہ بزرگ مہینہ ہے ، جس کو حُرمت کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط یعنی بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ان میں سے پہلا حرمت والا مہینہ ذُوالقعدہ ہے۔
ذوالقعدہ کی اہمیت:
ذوالقعدہ کے خصائص میں سے ایک بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عمرے ذوالقعدہ میں ادا ہوئے ، سوائے اس عمرے کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے ملا ہوا تھا پھر بھی آپ نے اس عمرے کا احرام ذوالقعدہ ہی میں باندھا تھا لیکن اس عمرے کی ادائیگی آپ نے ماہِ ذوالحجہ میں اپنے حج کے ساتھ کی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں سب سے پہلا عمرہ عمرہ حدیبیہ کہلاتا ہے جو پورا نہ ہوسکاتھا بلکہ آپ حدیبیہ کے مقام پر حلال ہوکر واپس تشریف لے آئے تھے۔ پھر اس عمرے کی قضاء اگلے سال فرمائی تھی (یہ آپ کا دوسرا عمرہ کہلایا) تیسرا عمرہ ، عمرہ جعرانہ کہلایا جو کہ فتح مکہ کے موقع پر ادا فرمایا ۔ جس وقت حنین کی غنیمتیں تقسیم ہوئی تھیں بعض لوگوں کے نزدیک یہ شوال کے آخر میں ہوا تھا۔ لیکن مشہور قول یہی ہے کہ یہ ذوالقعدہ میں ہوا تھا اور یہی جمہور کا مذہب ہے۔ چوتھا اور آخری عمرہ حجۃ الوداع میں ہوا تھا جیسا کہ اس بارے میں نصوصِ صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور جمہور علماء بھی اسی طرف گئے ہیں۔
اسلاف کی ایک جماعت جن میں ابن عمر رضی اللہ عنہما، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور عطاء رحمۃ اللہ علیہ ہیں روایت کرتے ہیں کہ ذوالقعدہ اور شوال کا عمرہ رمضان المبارک کے مہینے پر فضیلت رکھتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم ا نے ذوالقعدہ میں عمرے ادا فرمائے ہیں جبکہ حج کے مہینوں میں فضیلت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ حاجی پر اپنے حج کی وجہ سے قربانی واجب ہوجاتی ہے اور ھدی (قربانی کا جانور) ایسی چیز ہے جو مناسک حج میں ایک منسک ہے تو حج میں منسک عمرہ اور منسک ھدی دونوں جمع ہوجاتے ہیں ۔
ذوالقعدہ کی ایک اور فضیلت ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ یہی وہ تیس دن تھے جن کا وعدہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایاتھا ۔ لیث نے مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے اس قول: وَوٰعَدْ نَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً ''اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس ٣٠ رات کا''
کے بارے میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد ذوالقعدہ ہے ۔
وَاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ ''اور پورا کیا ان کو اور دس سے''
اس سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ ہے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ ذوالقعدہ کی پہلی تاریخ کو اللہ جل شانہ، نے سیدنا حضرت موسیٰ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کتاب دینے کے لئے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَواعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِِّہ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ o وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہ، رَبُّہ،۔ (پ ٩، سورۃ اعراف،آیات ١٤٢۔١٤٣) اور ہم نے موسیٰ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے تیس ٠ ٣ رات کا وعدہ فرمایا۔ اور ان میں دس ١٠ ا ور بڑھا کر پوری کیں۔تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس رات کا ہوا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے اپنے بھائی (حضرت ہارون علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے کہا کہ میری قوم پر میرے نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کی راہ کو دخل نہ دینا ۔ اور جب (حضرت )موسیٰ(علیہ الصلوٰۃ والسلام) ہمارے وعدے پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا ۔(کنزالایمان)
سیدنا حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بنی اسرائیل سے وعدہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے دشمن فرعون کو ہلاک فرمادے تو وہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا تو سیدنا حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے رب سے اس کتاب کے نازل فرمانے کی درخواست کی۔ تو حکم ہوا کہ تیس روزے رکھیں۔ جب آپ وہ روزے پورے کرچکے تو آپ کو اپنے دہن مبارک میں ایک طرح کی بو معلوم ہوئی تو آپ نے مسواک کی۔ ملائکہ نے عرض کیا کہ ہمیں آپ کے دہن مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی آپ نے مسواک کرکے اس کو ختم کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہِ ذی الحجہ میں دس روزے اور رکھیں ۔ اور فرمایا کہ اے موسیٰ! ( علیہ الصلوٰۃ والسلام)کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک خوشبو مشک سے زیادہ اطیب ہے۔
جب سیدنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طور ِ سینامیں حاضر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے بقدر چار فرسنگ ڈھانپ لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتیٰ کہ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیے گئے۔ اور آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا۔ تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ الواح پر قلموں کی آواز سُنی۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا ۔ آپ نے اس کی بار گاہ میں معروضات پیش کئے۔ اس نے اپنا کلامِ کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے ساتھ تھے ۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت موسیٰ علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا وہ انہوں نے کچھ نہ سُنا۔ ( فضائل ایام والشہور ، صفحہ ٤٥٢ بحوالہ تفسیر خازن وغیرہ)
بیتُ اللہ شریف کی بنیاد
اسی مہینہ یعنی ذوالقعدہ شریف کی پانچویں تاریخ کو سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیدنا حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
وَاِذْیَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمَاعِیْلُط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَص وَاَرِنَا مَنَا سِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (پ ١، سورۃ بقرہ،آیات ١٢٧۔١٢٨) اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) اس گھر کی نیویں۔ اور اسماعیل(علیہ الصلوٰۃ والسلام ) یہ کہتے ہوئے ۔ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا ۔ اے رب ہمارے اور کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والا ۔ اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمانبردار اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (کنزالایمان)
پہلی مرتبہ کعبہ معظمہ کی بنیاد سیدنا حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھی تھی اور بعد طوفانِ نوح پھرسیدنا حضرت ابراہیم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمائی۔ یہ تعمیر آپ کے دست اقدس سے ہوئی اور اس کے لئے پتھر اٹھاکر لانے کی خدمت اور سعادت سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میسر ہوئی۔ دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یا رب عزوجل ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔
سیدنا یونس علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف لانا ماہِ ذو القعدہ کی چودہویں تاریخ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا حضرت یونس علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے کہ: وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ o اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِoلا فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ o فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَھُوَ مُلِیْمٌ o فَلَوْ لَا اَنَّہ، کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَo لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ o فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَہُوَ سَقِیْمٌo (پ٢٣، سورۃ صافات،آیات ١٣٩ تا ١٤٥) اور بے شک یونس (علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام )پیغمبروں سے ہیں۔ جب کہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔ تو قرعہ ڈالا تو ڈھکیلے ہوؤں میں ہوا پھر اسے مچھلی نے نگل لیا ۔ اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا تو ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے۔ پھر ہم نے اسے میدان پر ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔ (کنزالایمان)
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور وہب کا قول ہے کہ سیدنا حضرت یونس علی نبیناعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا ۔ اس میں تاخیر ہوئی تو آپ ان سے چھپ کر نکل گئے اور آپ نے دریائی سفرکا قصد فرمایا ۔ کشتی پر سوار ہوئے۔ دریا کے درمیان میں کشتی ٹھہر گئی ۔ اور اس کے ٹھہر نے کا کوئی سبب ِظاہر موجود نہ تھا ۔ ملاحوں نے کہا کہ اس کشتی میں اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے۔ قرعہ ڈالنے سے ظاہر ہوجائے گا۔ قرعہ ڈالا گیا تو آپ ہی کا نام نکلا تو آپ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں تو آپ کو پانی میں ڈال دیا گیا۔ کیوںکہ اس وقت کا دستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں غرق نہ کردیا جائے اس وقت تک کشتی چلتی نہ تھی ۔ بحکمِ الٰہی مچھلی نے آپ کو نگل لیا آپ مچھلی کے پیٹ میں ایک دن یا تین دن یا سات دن یا چالیس دن رہے۔ آپ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکرِ الٰہی کی کثرت کی اور مچھلی کے پیٹ میں ''لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ'' پڑھناشروع کر دیا تو اللہ جل شانہ، نے مچھلی کو حکم دیا تو اس نے سیدنا حضرت یونس علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دریا کے کنارے ڈال دیا ۔
مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے باعث آپ ایسے ضعیف اور نازک ہو گئے تھے جیسا کہ بچہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے ۔ جسم کی کھال نرم ہوگئی تھی۔ بدن پر کوئی بال باقی نہ رہ گیا تھا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے کدو کا درخت اگا دیا ۔ جو آپ پر سایہ کرتا تھا اور مکھیوں سے محفوظ رکھتا تھا ۔ اور بحکمِ الٰہی ایک بکری روزانہ آتی اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دودھ پلا جا تی ۔ یہاں تک کہ جسم مبارک کی جِلد شریف یعنی کھال مضبوط ہو گئی اور اپنے موقع سے بال جمے اور جسم مبارک میں توانائی آئی ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ o یعنی ہم نے اس پر کدو کا درخت اگا دیا۔
یہ کدو کا درخت آپ پر ذوالقعدہ کی سترہویں تاریخ کو اگایا گیا تھا۔ (فضائل الایام والشہور ، صفحہ ٤٥٧، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)
ذوالقعدہ کے روزے:
ہر ماہ ایام بیض یعنی قمری مہینہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ میں روزے رکھنا تمام عمر روزہ رکھنے کے برابر شمار کیا جاتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤٩٨)حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص ذوالقعدہ کے مہینہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ کریم اس کے واسطے ہر ساعت میں ایک حج مقبول اور ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ذوالقعدہ کے مہینہ کو بزرگ جانو کیونکہ حرمت والے مہینوں میں یہ پہلا مہینہ ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس مہینہ کے اندر ایک ساعت کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے اور فرمایاکہ اس مہینہ میں پیر کے دن روزہ رکھنا ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے۔ (فضائل الایام والشہورصفحہ ٤٥٧ بحوالہ رسالہ فضائل الشہور)
ذوالقعدہ کے نوافل:
حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی ذوالقعدہ کی پہلی رات میں چار کعات نفل پڑھے اور اس کی ہر رکعت میں الحمد شریفکے بعد ٣٣ دفعہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھے تو اس کے لئے جنت میں اللہ تعالیٰ ہزار مکان یا قوت ِ سرخ کے بنائے گا اور ہر مکان میں جواہر کے تخت ہوں گے۔ اور ہر تخت پر ایک حور بیٹھی ہوگی ، جس کی پیشانی سورج سے زیادہ روشن ہوگی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جو آدمی اس مہینہ کی ہر رات میں دو ٢ رکعات نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ تین بار پڑھے تو اس کو ہر رات میں ایک شہید اور ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
جو کوئی اس مہینہ میں ہر جمعہ کو چار٤ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد اکیس٢١ بارقُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌپڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے واسطے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔
اور فرمایا کہ جو کوئی پنج شنبہ (جمعرات) کے دن اس مہینہ میں سو ١٠٠ رکعات پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریفکے بعد دس ١٠مرتبہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌپڑھے تو اس نے بے انتہا ثواب پایا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٥٧، ٤٥٨ ، بحوالہ رسالہ فضائل الشہور)
ماہِ ذی القعدہ کی چاند رات کو تیس رکعات پندرہ سلام کے ساتھ پڑھے ہر رکعت میں سورہئ فاتحہ کے بعد سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ ایک مرتبہ پڑھے بعد سلام کے عَمَّ یَتَسَا ءَ لُوْنَ ایک مرتبہ پڑھے۔ نویں تاریخ ماہ ذی القعدہ کو ترقی درجات کے واسطے دو رکعات نفل پڑھے اور دونوں میں سورہئ فاتحہ کے بعد سورۃ مزمل پڑھے اور سلام کے بعد تین بار سورہئ یٰسین کا ورد کرے اس مہینے کے آخر میں چاشت کے بعد دورکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں سورۃ القدر تین تین بار پڑھے اور سلام کے بعد گیارہ بار درود شریف اور گیارہ بار سورہئ فاتحہ پڑھ کر سجدہ کرے اور جناب الٰہی میں دعا مانگے تو جو کچھ مانگے گا ملے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (لطائف اشرفی حصہ دوئم، صفحہ ٣٥٢)
ماہ ذوالقعدہ شریف میں رونما ہونے والے اہم واقعات
٭حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، کو ابوا ء بھیجا گیا۔۔۔۔۔۔١ھ ٭رخصتی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔۔۔۔۔۔٢ھ ٭صلح و عمرہ حدیبیہ۔۔۔۔۔۔(حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عمرہ کا احرام باندھا، صلح حدیبیہ، بیعت رضوان نزول آیات سورہ فتح۔ انگلیوں سے پانی جاری ہونے کا معجزہ ٦ ہجری ٭وفات سعد بن خولہ العامری رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔٦ھ ٭غزوہ حنین۔۔۔۔۔۔(جعرانہ سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا مع اصحاب عمرہ ادا کرنا، اور ایک گستاخ کی نسل سے فتنہ وہابیہ کی پیش گوئی فرمانا)٨ھ ٭وفات ام المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا۔۔۔۔۔۔١٦ھ ٭وفات العلا بن الحضرمی۔۔۔۔۔۔٢١ھ ٭فتح فارس و خراسان۔۔۔۔۔۔٢٩ھ ٭وفات ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔٣٢ھ ٭وفات عامر رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔٣٥ھ ٭وفات سہل بن الاحنف ۔۔۔۔۔۔٣٨ھ ٭وفات لبید رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔٤١ھ ٭سندھ میں اسلامی فوج داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔٤٢ھ ٭اسلامی افواج نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا ۔۔۔۔۔۔٥٠ھ ٭سمر قند پر حملہ ۔۔۔۔۔۔٥٥ھ ٭وفات ربیعۃ الجرشی ۔۔۔۔۔۔٦٤ھ ٭وفات براء بن عاذب رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔٧٢ھ ٭وفات عبداللہ بن عقبہ رضی اللہ عنہ، ۔۔۔۔۔۔٧٤ھ ٭وفات زید بن خالد رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔٧٧ھ ٭وفات واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ،۔۔۔۔۔۔٨٥ھ ٭وفات عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ، ٭فتوحات ِ سندھ ۔۔۔۔۔۔٩٤ھ ٭وفات الاختل ۔۔۔۔۔۔١٠٥ھ ٭وفات سلیمان بن یسار ۔۔۔۔۔۔١٠٧ھ ٭وفات مسلمہ بن عبدالملک ۔۔۔۔۔۔١٢١ھ ٭وفات بکیر بن الاشبح۔۔۔۔۔۔١٢٢ھ ٭وفات ابو اسحق السبعی۔۔۔۔۔۔١٢٧ھ ٭فتنہ ابراہیم بن ہشام ۔۔۔۔۔۔١٢٨ھ ٭عبدالرحمن الداخل اندلس پہنچا۔۔۔۔۔۔١٣٧ھ ٭وفات عمرو بن قیس ۔۔۔۔۔۔١٤٠ھ ٭وفات ابو شبرمہ القاضی۔۔۔۔۔۔١٤٢ھ ٭وفات حمید الطویل۔۔۔۔۔۔١٤٣ھ ٭ابراہیم علوی کا قتل ۔۔۔۔۔۔١٤٥ھ ٭معن بن زائدہ الشیبانی کا قتل ۔۔۔۔۔۔١٥١ھ ٭وفات محمد بن مطرف ۔۔۔۔۔۔١٦٣ھ ٭وفات حسن بن زید الہاشمی ۔۔۔۔۔۔١٦٨ھ ٭خروج حسن الحسنی ۔۔۔۔۔۔١٦٩ھ ٭وفات ابو معش نجیح السندی۔۔۔۔۔۔١٧٠ھ ٭وفات امام محمد والکسائی۔۔۔۔۔۔١٨٩ھ ٭وفات یحییٰ برمکی ۔۔۔۔۔۔١٩٠ھ ٭سمر قند میں بغاوت۔۔۔۔۔۔١٩١ھ ٭وفات معروف کرخی۔۔۔۔۔۔٢٠٠ھ ٭اعلان خلافت المرتضیٰ۔۔۔۔۔۔٢٠١ھ ٭وفات حافظ حسین علی الجعفی۔۔۔۔۔۔٢٠٣ھ ٭وفات فضل بن ربیع۔۔۔۔۔۔٢٠٨ھ ٭وفات ابو عمر و الشیبانی الغوی۔۔۔۔۔۔٢١٠ھ ٭خروج محمد بن القاسم العلوی۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ ٭وفات محمد بن کثیر ۔۔۔۔۔۔٢٢٣ھ ٭وفات ابو دف قاسم ۔۔۔۔۔۔٢٢٥ھ ٭وفات ابو تمام صاحب الحماسہ۔۔۔۔۔۔٢٣١ھ ٭وفات ابو زکریا یحییٰ بن معین۔۔۔۔۔۔٢٣٣ھ ٭وفات علی بن المدینی۔۔۔۔۔۔٢٣٤ھ ٭وفات ذالنون مصری علیہ الرحمۃ ۔۔۔۔۔۔٢٤٥ھ ٭وفات امام عبداللہ الدارمی صاحب المسند۔۔۔۔۔۔٢٥٥ھ ٭وفات یونس ابو بشر العجلی۔۔۔۔۔۔٢٦٧ھ ٭وفات احمد بن طولون بانی دولت طولونیہ مصر۔۔۔۔۔۔٢٦٨ھ ٭وفات ابن ابی حنین ۔۔۔۔۔۔٢٧٧ھ ٭وفات خمارویہ۔۔۔۔۔۔٢٨٢ھ ٭وفات المروزی المحدث۔۔۔۔۔۔٢٩٣ھ ٭وفات المکتفی و خلافت المقتدر۔۔۔۔۔۔٢٩٥ھ ٭مؤرخ مسعودی سندھ آیا۔۔۔۔۔۔٣٠٣ھ ٭وفات ابو زکریا الاعرج۔۔۔۔۔۔٣٠٧ھ ٭وفات عبداللہ بن وہب الدینوری مؤرخ۔۔۔۔۔۔٣٠٨ھ ٭حضرت منصور حلاج کا قتل۔۔۔۔۔۔٣٠٩ھ ٭وفات ابو بکر بن خزیمہ السلمیٰ ۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭قرمطیوں نے مکہ میں قتل عام کیا اور حجر اسود کو نکال کر لے گئے۔۔۔۔۔۔٣١٧ھ ٭وفات مونس الخادم ۔۔۔۔۔۔٣٢١ھ ٭قتل الشغانی و ابن عون ۔۔۔۔۔۔٣٢٢ھ ٭وفات ابو مزاحم الحاقانی ۔۔۔۔۔۔٣٢٥ھ ٭وفات ابو بکر ابن الطمان ۔۔۔۔۔۔٣٣٣ھ ٭وفات القاضی ابن الاشفاتی۔۔۔۔۔۔٣٣٩ھ ٭وفات ابو بکر الاسکانی ۔۔۔۔۔۔٣٥٢ھ ٭وفات ابو لقوارس شجاع الوارق۔۔۔۔۔۔٣٥٣ھ ٭وفات ابو مسلم الذہلی۔۔۔۔۔۔٣٥٥ھ ٭وفات محمد بن اسد الخشی۔۔۔۔۔۔٣٦١ھ ٭معزولی المطیع و خلافت الطایع۔۔۔۔۔۔٣٦٣ھ ٭وفات ابو سہل الصعلوکی ۔۔۔۔۔۔٣٦٩ھ ٭وفات ابو یعقوب البجیری۔۔۔۔۔۔٣٧٠ھ ٭وفات ابن نجیث۔۔۔۔۔۔٣٧٢ھ ٭وفات امام دارِقطنی۔۔۔۔۔۔٣٨٥ھ ٭وفات ابو علی الماتمی الادیب۔۔۔۔۔۔٣٨٨ھ ٭وفات حافظ خلف المغربی ۔۔۔۔۔۔٣٩٣ھ ٭وفات ابو عبداللہ بن مندہ الاصفہانی۔۔۔۔۔۔٣٩٥ھ ٭وفات ابن اللبان الفرضی۔۔۔۔۔۔٤٠٢ھ ٭وفات ابولفرج النہروانی۔۔۔۔۔۔٤٠٤ھ ٭وفات ابو الحسن المحاملی الفقیہہ۔۔۔۔۔۔٤٠٧ھ ٭محمود غزنوی کا حملہ کمجایت پر ۔۔۔۔۔۔٤٠٩ھ ٭خلافت محمد المستکفی۔۔۔۔۔۔٤١٤ھ ٭وفات قاضی عبدالجبار المعتزلی۔۔۔۔۔۔٤١٥ھ ٭وفات ابو الفضل الکاغذی۔۔۔۔۔۔٤٢٣ھ ٭وفات مہیار الدیلمی الشاعر۔۔۔۔۔۔٤٢٨ھ ٭وفات قاضی مہلب بن ابی صفر الامدی۔۔۔۔۔۔٤٣٥ھ ٭وفات امام ابو محمد الجوینی(رکن الاسلام) (امام الحرمین کے والد) ۔۔۔۔۔۔٤٣٨ھ ٭وفات الوزیر ابوالقاسم الاخلیلی شارح المتنبی۔۔۔۔۔۔٤٤١ھ ٭وفات ابو القاسم الثمانینی۔۔۔۔۔۔٤٤٢ھ ٭وفات عبداللہ القادسی۔۔۔۔۔۔٤٤٧ھ ٭مدرسہ نظامیہ بغداد کی ابتدائ۔۔۔۔۔۔٤٥٩ھ ٭وفات ابو الغنائم بن المامون۔۔۔۔۔۔٤٦٥ھ ٭وفات محمود بن نصر ۔۔۔۔۔۔٤٦٧ھ ٭وفات ابو الحسن البروانی ۔۔۔۔۔۔٤٦٩ھ ٭وفات محمد بن سریح الرعینی۔۔۔۔۔۔٤٧٦ھ ٭وفات شیخ الاطباء سعید۔۔۔۔۔۔٤٩٦ھ ٭وفات مبارک الدباس۔۔۔۔۔۔٥٠٠ھ ٭وفات ابو سعد بن حشیش۔۔۔۔۔۔٥٠٢ھ ٭وفات ابو سعد المطرز۔۔۔۔۔۔٥٠٣ھ ٭وفات اسماعیل بن عبدالغافر فارسی۔۔۔۔۔۔٥٠٤ھ ٭وفات والی حلب الپ ارسلان۔۔۔۔۔۔٥٠٨ھ ٭وفات ابو صادق مرشد۔۔۔۔۔۔٥١٧ھ ٭مجاہد آفسنقر کو باطنیوں نے شہید کیا۔۔۔۔۔۔٥٢٠ھ ٭خلیفہ المسترشد قتل ہوا ۔۔۔۔۔۔١٦ذوالقعدہ ، بروز جمعرات ٥٢١ھ ٭وفات عبدالکریم الحداد۔۔۔۔۔۔٥٢٦ ھ ٭خلیفہ المسترشدکو باطنیوں نے قتل کردیا اور الراشد العباسی خلیفہ ہوا۔۔۔۔۔۔٥٢٩ھ ٭الراشد العباسی کی معزولی اور المقنفی کی خلافت۔۔۔۔۔۔٥٣٠ھ ٭وفات الکاتب محمد بن الخشاب۔۔۔۔۔۔٥٤٠ھ ٭وفات القاضی محلی بن جمیع۔۔۔۔۔۔٥٥٠ھ ٭وفات قاضی عبداللہ بن میمون۔۔۔۔۔۔٥٥١ھ ٭وفات خطیب دمشق انحفر۔۔۔۔۔۔٥٦٢ھ ٭شہاب الدین غوری کا ملتان پر قبضہ۔۔۔۔۔۔٥٧١ھ ٭وفات خلیفہ المستفی و خلافت الناصر العباسی۔۔۔۔۔۔٥٧٥ھ ٭وفات امام مجد الدین۔۔۔۔۔۔٥٩٢ھ ٭حکومت الملک العادل سلطان صلاح الدین الایوبی۔۔۔۔۔۔٥٩٦ھ ٭خود مختاری قطب الدین ایبک۔۔۔۔۔۔٦٠٢ھ ٭وفات ابو یعقوب یوسف السکاکی۔۔۔۔۔۔٦٢٦ھ ٭حکومت علاؤالدین مسعود دہلی۔۔۔۔۔۔٦٣٩ھ ٭وفات خواجہ زرزری بخش۔۔۔۔۔۔٧٠٩ھ ٭فتنہ پرداز ابن تیمیّہ کی موت۔۔۔۔۔۔٧٢٨ھ ٭خلافت ابو اسحق الواثق (اول)۔۔۔۔۔۔٧٣٩ھ ٭وفات شمس الدین ابن العقیب۔۔۔۔۔۔٧٤٥ھ ٭وفات الحافظ شمس الدین الذہبی۔۔۔۔۔۔٧٤٨ھ ٭ہلاکت ابن قیم الجوزیہ۔۔۔۔۔۔٧٥١ھ ٭وفات قطب الدین منور (ہانسی) ۔۔۔۔۔۔٧٥٧ھ ٭وفات جمال الدین النحوی۔۔۔۔۔۔٧٦١ھ ٭قتل خواجہ قوام الدین ۔۔۔۔۔۔٧٦٤ھ ٭وفات سلطان شہاب الدین کشمیری۔۔۔۔۔۔٧٧٧ھ ٭وفات سراج الدین عمر البلقینی۔۔۔۔۔۔٨٠٥ھ ٭وفات شیخ راجو قتال۔۔۔۔۔۔٨٠٦ھ ٭وفات عزیز الدین المظفری۔۔۔۔۔۔٨٢٠ھ ٭وفات شمس الدین ابن الکویک۔۔۔۔۔۔٨٢١ھ ٭وفات سلطان قرایوسف۔۔۔۔۔۔٨٢٣ھ ٭وفات ابن العیاری النحوی۔۔۔۔۔۔٨٢٨ھ ٭وفات شمس الدین الرامینی۔۔۔۔۔۔٨٣٤ھ ٭وفات علامہ عبدالعزیز المقدسی۔۔۔۔۔۔٨٤٦ھ ٭وفات ابن المجدی۔۔۔۔۔۔٨٥٠ھ ٭وفات بہاؤالدین نقشبند۔۔۔۔۔۔٨٥٧ھ ٭وفات برہان الدین ابن القطان۔۔۔۔۔۔٨٩٨ھ ٭وفات القاضی بدر الدین سعدی۔۔۔۔۔۔٩٠٠ھ ٭وفات حسن چلپی۔۔۔۔۔۔٩٠١ھ ٭وفات نورالدین السمہودی۔۔۔۔۔۔٩١١ھ ٭حکومت ابراہیم لودھی ۔۔۔۔۔۔ ٩١٥ھ ٭وفات ابن ہلال النحوی۔۔۔۔۔۔٩٣٣ھ ٭وفات محب الدین قاضی مکہ۔۔۔۔۔۔٩٤٠ھ ٭ہمایوں کا فرار۔۔۔۔۔۔٩٤٦ھ ٭وفات ابراہیم بن حنبلی۔۔۔۔۔۔٩٥٩ھ ٭وفات شیخ مبارک ناگوری۔۔۔۔۔۔١٠٠١ھ ٭وفات عبدالقادر بدایونی مؤرخ سلطنت مغلیہ ۔۔۔۔۔۔١٠٠٤ھ ٭خلافت مصطفی عثمانی (اول)۔۔۔۔۔۔١٠٢٦ھ ٭خلافت مراد رابع۔۔۔۔۔۔١٠٣٢ھ ٭وفات طالب آملی۔۔۔۔۔۔١٠٣٥ھ ٭خلافت ابراہیم عثمانی۔۔۔۔۔۔١٠٤٩ھ ٭وفات فاضل خان وزیر اعظم۔۔۔۔۔۔١٠٧٣ھ ٭وفات اورنگزیب عالمگیر ۔۔۔۔۔۔ ١١١٨ھ ٭حکومت روشن اختر محمد شان۔۔۔۔۔۔١١٣١ھ ٭قتل حسین علی خان (باریہہ) ۔۔۔۔۔۔١١٣٢ھ ٭وفات شاہ مبارک آبرو۔۔۔۔۔۔١١٦١ھ ٭انگلستان نے٦ گریگوری کلینڈر اختیار کیا۔۔۔۔۔۔١١٦٥ھ ٭شہادت سراج الدولہ (بنگال) ١١٧٠ھ ٭وفات غلام علی آزاد بلگرامی۔۔۔۔۔۔١٢٠٠ھ ٭وفات فیض اللہ بانی ریاست پور۔۔۔۔۔۔١٢٠٨ھ ٭شہادت ٹیپو سلطان ۔۔۔۔۔۔ ١٢١٣ھ ٭مکہ پر دوبارہ وہابیوں کا قبضہ١٢٢٠ھ ٭''حُدیدۃ'' کے تنگ درے میں مسعود کے بیٹوں عبداللہ اور فیصل نے طوسون پاشا حاکم دمشق کو شکست دی۔۔۔۔۔۔٢٣ نومبر/١٢٢٦ھ ٭وفات فضل امام خیر آبادی۔۔۔۔۔۔١٢٤٣ھ ٭وفات آتش لکھنوی۔۔۔۔۔۔١٢٦٣ھ ٭میرٹھ میں ہنگامہ/١٢٧٣ھ ٭وفات مرزا اسد اللہ غالب دہلوی۔۔۔۔۔۔١٢٨٥ھ ٭وفات اسیر لکھنوی۔۔۔۔۔۔١٢٩٩ھ ٭وفات شاہ نیاز احمد بریلوی۔۔۔۔۔۔١٣٠٥ھ ٭وفات ابراہیم الاحدب حنفی۔۔۔۔۔۔١٣٠٧ھ ٭وفات علامہ رحمت اللہ کیرانوی (بانی مدرسہ صولتیہ مکۃ)۔۔۔۔۔۔١٣٠٨ھ ٭ہلاکت سر سید احمد خان نیچری۔۔۔۔۔۔١٣١٥ھ ٭وفات عبدالغفور شہباز۔۔۔۔۔۔١٣٢٦ھ ٭ہلاکت ذکاء اللہ دہلوی بدعقیدہ۔۔۔۔۔۔١٣٢٨ھ ٭سعودی سلطان کا حجاز پر مکمل قبضہ۔۔۔۔۔۔١٣٤٢ھ ٭وفات مصطفی کمال پاشا اتا ترک۔۔۔۔۔۔١٣٥٧ھ ٭وفات محمد علی جناح۔۔۔۔۔۔١٣٦٧ھ ٭حیدرآباد پر بھارت کا قبضہ۔۔۔۔۔۔١٣٦٧ھ ٭جلا وطنی شاہ فاروق(مصر)۔۔۔۔۔۔١٣٧١ھ ٭وفات شاہ فاروق مصر۔۔۔۔۔۔١٣٨٤ھ
ذوالقعدہ میں وفات پانے والے صحابہ کرام اور اولیائے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
یکم ذوالقعدہ: ٭حضرت امام محمد ٭حضرت امام احمد طحاوی ٣٢١ھ ٭حضرت بابا قدس کشمیری ٩٨٦ھ ٭حضرت پیر شاہ محمد فاروق رحمانی محبوب رحمانی ٭حضرت خواجہ نور محمد نقشبندی لاہوری ١٣٧٧ھ
٢ ذوالقعدہ: ٭حضرت حماد بن ابو حنیفہ کوفی ١٧٦ھ ٭حضرت شاہ صفی الدین بن اسحق ارد بیلی ٧٨٥ھ ٭حضرت سید سلطان لاہوری ٩٨٩ھ ٭خواجہ عبد الرحمن مجددی قندھاری ثم سندھی ۔۔۔۔۔۔١٣١٥ھ ٭حضرت علامہ امجد علی اعظمی ١٣٦٧ھ ٭حضرت مولانا مفتی محمد عمر نعیمی ١٣٨٥ھ ٭حضرت علامہ محمد عمر اچھروی ١٣٩١ھ
٣ذوالقعدہ: ٭ حضرت مخدوم شیخ صفی الدین ردولوی ٨١٩ھ ٭حضرت شاہ قمیص گیلانی ٩٩٢ھ ٭حضرت بابا محمد مہدی کشمیری ١١٥٠ھ
٤ ذوالقعدہ: ٭حضرت خواجہ محمد زبیر مجددی ١١٥٥ھ ٭مخدوم محمد زمان اول (بانی درگاہ لواری شریف)١١٨٨ھ
٥ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو علی حسن بن محمد دقاق نیشاپوری ٤٠٥ھ ٭حضرت ابو الفضل محمد بغدادی بن غوث الاعظم ٦٠٠ھ ٭حضرت دیوان محمد اشرف ١١٢٢ھ
٦ ذوالقعدہ: ٭حضرت مولانا عبدالرحمن سندھی ثم الکھنوی ١٢٤٥ھ
٧ ذوالقعدہ: ٭ حضرت امام ابراہیم بن احمد(حماد) بن امام ابو حنیفہ ٢٠٦ھ ٭حضرت فخر الدین ابراہیم عراقی سہروردی٧٨٨ھ ٭حضرت شاہ ولی الدین ٨٩٩ھ ٭سید شاہ عبد الکریم بن سید لعل محمد (خلیفہ مخدوم نوح ہالائی )١٠٢٣ھ
٨ ذوالقعدہ: ٭حضرت سیدی ابو الحسن علی دار قطنی بغدادی ٣٨٥ھ ٭حضرت شیخ صدرالدین حاجی چراغ ہند ٧٩٥ھ ٭حضرت دیوان محمد احمد ٨٧٧ھ
٩ ذوالقعدہ: ٭حضرت محمد قطب قلندر جونپوری ٭حضرت شاہ منصور عظیم آبادی
١٠ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو یزید جلال الدین پورانی ٨٦٢ھ ٭حضرت جلال خان عرف شیخ جمالی(مصنف سیرت العارفین) ٩٤٢ھ ٭حضرت شیخ عثمان زندہ پیر صابری ٩٦١ھ
١١ ذوالقعدہ: ٭حضرت عبداللہ متنازن ٣٣١ھ ٭حضرت ابو صالح موسیٰ حنبلی ٤٨٩ھ ٭حضرت علی بن پیرہ رہیتی ٥٦٠ھ ٭حضرت شیخ قطب الدین آنندی ٦٧٧ھ ٭حضرت سید نور محمد بدایونی ١١٣٥ھ ٭حضرت علامہ سید احمد سری کوٹی (مؤسس جامعہ احمدیہ سنیہ چٹاگانگ)١٣٨٠ھ
١٢ ذوالقعدہ: ٭حضرت حسن بن قاسم انداقی ٢٩٩ھ ٭حضرت ابو الحسن علی بن نبدار ٣٥٩ھ ٭حضرت احمد حجی دمشقی ٦٠٧ ٭حضرت شاہ کمال الدین کوفی ٨٩٧ھ ٭حضرت مولانا یعقوب صفی گنائی ١٠٠٣ھ ٭حضرت سید محمد موسیٰ قادری ٩٩٧ھ ٭حضرت خواجہ نظام الدین ولی نگرامی ١١٧٣ھ ٭شاہ نظام الدین اورنگ آبادی ١٢٤٢ھ
١٣ ذوالقعدہ: ٭حضرت شیخ بقائے ٥٥٣ھ ٭حضرت ملا قیام ہند سہروردی ٨١٧ھ ٭حضرت شاہ سلیمان قادری ١٠٦٥ھ ٭حضرت محمد صالح اکبر آبادی ١٠٦٧ھ ٭مولانا عبد الرحیم دہلوی ١٣٠٥ھ ٭حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی ١٣٦٢ھ ٭حضرت علامہ محمد صاحب انوری قادری ١٣٨٩ھ
١٤ ذوالقعدہ: ٭حضرت شیخ محمد عبید بغدادی ٣٤٥ھ ٭حضرت ابو الحسن دراج ٣٢٠ھ ٭حضرت مولوی سعید احمد بغدادی ٣٢١ھ ٭حضرت حکیم شاہ صدر الدین ابو الغنائم ملتانی ٨٣٧ھ ٭حضرت سید محمد مسعود سلطان فانی روح ١٠٩٩ھ ٭حضرت سید مسعود سلطان عرف محمد باقر شاہ لعل ١٠٩٩ھ ٭حضرت شاہ عبدالقادر خالصپوری ١٢٤٠ھ ٭حضرت شاہ دولت منیری ٭حضرت شاہ فضل اللہ کالپوری ١١١١ھ
١٥ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو الحسین محمد بن شمعون ٣٨٦ھ ٭حضرت شاہ عبدالسلام عرف شیخ اَلَّنْ قلندر٩٧٦ھ
١٦ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو عثمان سعید بن سلام مغربی نیشا پوری ٣٧٣ھ ٭ حضرت عبداللہ بن احمد ٣٩٧ھ ٭حضرت شیخ محمد عموی ٤٥٠ھ ٭حضرت محمد عبید بخاری ٤٦٥ھ ٭حضرت شاہ سراج الحق و الدین چشتی فیض آبادی ٧٩٩ھ ٭حضرت بندہ نواز سید محمد گیسو دراز ٨٢٥ھ
١٧ ذوالقعدہ: ٭ حجرت شیخ عبدالطیف داور الملک ٨٨٩ھ ٭حضرت بابا سید امام شاہ بخاری (مسجد حضراء نانک واڑہ ، کراچی )١١٢٠ھ ٭حضرت شاہ غلام حسین چشتی لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ ١٣١٩ھ
١٨ ذوالقعدہ: ٭ حضرت ابو الفضل بن حسن سرخی ٤٠٠ھ ٭حضرت خواجہ عبد الرشید منظور علی پانی پتی (اولاد حضرت بو علی شاہ قلندر، رہنما تحریک پاکستان، مدفون پی ای سی ایچ ایس قبرستان کراچی)١٣٨١ھ
١٩ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو العباس محمد بن عطا بغدادی ٣١١ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی بن محمد مزین ٣٢٧ھ ٭حضرت ابو علی علام ٣٩٨ھ ٭حضرت شیخ ابراہیم چشتی بغدادی ٦٩٨ھ ٭حضرت شیخ حامد قادری ٩٧٨ھ ٭حضرت حافظ سید محمد علی چشتی خیر آبادی ١٢٦٦ھ ٭حضرت مولوی امانت علی چشتی ١٢٨٠ھ ٭حضرت شاہ محمد عبدالغفار (کراپ شریف) ٭حضرت خواجہ محمد صدیق محبوب اللہ ( قاضی پورہ حیدرآباد دکن) ٭پیر سید عبد الستار بادشاہ پشاوری چشتی (رہنما تحریک پاکستان)١٣٧٣ھ
٢٠ ذوالقعدہ: ٭حضرت بلال ابدال دمشقی ١١ھ ٭حضرت شاہ لطف اللہ انبالوی ١١٨٦ھ ٭علامہ عبد الغنی بن عبد العلی حنفی رامپوری ١٣١٦ھ
٢١ ذوالقعدہ: ٭حضرت شیخ محمد سہیل تستری ٤٠٠ھ ٭حضرت مولوی شاہ مراد اللہ تھانیسری ثم الکھنوی ١٢٤٨ھ
٢٢ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو الحسن طاہر بغدادی ٢٤٧ھ ٭حضرت شاہ سبحان سعدی چشتی ٥٩٧ھ ٭حضرت اوحد الدین کرمانی ٦٣٥ھ ٭حضرت سید عبدالرزاق شاہ چراغ لاہوری ١٠٦٨ھ ٭حضرت ملا احمد المعروف بمُلّا جیون (استاذ اورنگزیب عالمگیر و مرتب فتاویٰ عالمگیری ) ١١٣٠ ھ ٭حضرت مولوی محمد مسعود ١١٩٩ھ ٭حضرت غلام فرید سہروردی لاہوری ١٢٧٠ھ ٭حضرت غلام مرتضیٰ نقشبندی (فنا فی الرسول ) ١٣٢٠ھ ٭حضرت صوفی محمد مشتاق چشتی (خلیفہ شاہ سراج الحق گورداسپوری) ١٣٨٤ ھ ٭حضرت خواجہ پیر سید سجاد حسین سیکری نقشبندی چشتی ١٣٧١ھ/١٣ اگست ١٩٥٢ئ
٢٣ ذوالقعدہ: ٭حضرت شیخ ابوالقری مغربی ٥٥٩ھ ٭تاج العلماء حضرت علامہ مفتی محمد عمر نعیمی ١٣٨٦ھ
٢٤ ذوالقعدہ: ٭حضرت شیخ فضل نثار ٥٢١ھ ٭حضرت حسین بن منصور حلاج ٭شیخ یحییٰ بن وجہ اللہ عظیم آبادی١٣٠٢ھ ٭علامہ علی حسن بن ظہور اشرف جائسی کچھوچھوی ١٣٢٨ھ
٢٥ ذوالقعدہ: ٭حضرت خواجہ ضیاء الدین کالپوری ١٢٣٦ھ ٭حضرت صوفی سلامت علی چھتری والا بابا کشمیری لاہوری (مجذوب) ١٣٩٦ھ
٢٦ ذوالقعدہ: ٭حضرت مجد الدین یوسف سندھی ٣٩٨ھ ٭حضرت بندگی شیخ محمد امیٹھوی ٭حضرت شاہ نجیب قلندر ٭امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ١٣٧٠ھ /٣٠ اگست ١٩٥١ء (راہنما تحریک پاکستان) ٭مولانا حکیم عبد الحق امرتسری ١٣٧٠ھ
٢٧ ذوالقعدہ: ٭حضرت سید جلال متقی بغدادی ٭حضرت کمال الدین علامہ ٨٥٦ھ ٭حضرت سعید الدین مغان الوجود فیض آبادی ٨٤٩ھ ٭حضرت بندگی نظام الدین امیٹھوی ٩٧٩ھ ٭حضرت لطف اللہ مخدوم نوح ہالائی (مترجم قرآن بزبان فارسی) ٩٨٨ھ
٢٨ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو القاسم سلیمان بن محمد طبرانی ٣٦٠ھ ٭حضرت ابو الحکیم عبدالسلام اشبیلی ٥٣٦ھ ٭حضرت سید عبدالواسع عرف خیرالدین ٦٠٠ ھ ٭حضرت خواجہ عزیزان علی رامیتنی ٧١٥ھ/٧٢١ھ ٭حضرت شاہ عبدالرزاق امیٹھوی ١٠٠٠ھ ٭حضرت شیخ ابراہیم باجوڑی ١٢٧٦ھ ٭حضرت شاہ محمد پھلواروی ٭حضرت اورنگزیب عالمگیر محی الدین (بارہویں صدی کے مجدد) ٭مولانا حکیم سراج الحق بدایونی بن فیض احمد عثمانی بدایونی (مجاہد آزادی) ١٣٢٢ھ ٭سید احمد شاہ مشہدی قادری (نانک واڑہ کراچی)١٣٢٩ھ ٭علامہ فضل حق حنفی رامپوری ١٣٥٨ھ
٢٩ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو اسحق ابراہیم گازرونی دمشقی ٤٢٢ھ ٭حضرت ابو الحسن جمال الدین ٩٧٨ھ ٭حضرت مولانا نقی علی خان(والد گرامی اعلیٰ حضرت) ٭حضرت خواجہ عبدالرحمن چھوہروی ٭حضرت ابو عبداللہ درامی
٣٠ ذوالقعدہ: ٭حضرت ابو محمد ابن صباغ ٦٠٩ھ ٭حضرت محمد امین منطقی معروف بہ میر بابا دیسی ٨٨٩ھ ٭حضرت شاہ غلام قطب الدین الٰہ آبادی ١١٨٧ھ
(رضی اللہ تعالیٰ عہنم اجمعین) | |
|
muhammad khurshid ali Moderator
Posts : 371 Join date : 05.12.2009 Age : 42 Location : Rawalpindi
| Subject: Re: سلامی سال کا گیارہواں مہینہ Mon 18 Oct 2010 - 9:36 | |
| | |
|
Janti Zever Moderator
Posts : 228 Join date : 01.01.2010 Age : 38 Location : United Kingdom
| Subject: Re: سلامی سال کا گیارہواں مہینہ Wed 20 Oct 2010 - 17:52 | |
| | |
|
Sponsored content
| Subject: Re: سلامی سال کا گیارہواں مہینہ | |
| |
|