Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: رب العٰلمین اپنے حبیب کا دل میلا ہونا غمگین ہونا پسند نہیں صلی اللہ علیک وسلم Mon 27 Sep 2010 - 6:08 | |
| آیت 6۔ (پارہ 1 سورہ بقرہ آیت 119رکوع 14) إِنَّا أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيراً وَنَذِيراً وَلاَ تُسءَلُ عَنْ أَصْحَابِ ٱلْجَحِيمِ
بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری اور ڈر سنانے والا اور آپ سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا۔ اس آیت کریمہ میں حضور علیہ السلام کے بہت سے فضائل اور مراتب کا ذکر ہے۔ اولاً تو اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کو کفار اور منکرین کی حالت دیکھ کر رنج و ملال ہوتا تھا تقاضاء رحمت یہ تھا اور محبوب کی آرزو تھی کہ تمام لوگ ایمان لے آویں اور جنتی بن جاویں اور پروردگار عالم کا منشاء یہ تھا کہ محبوب جو تمہارا بدگو اور دشمن ہو وہ میرے جنت کی بو بھی نہ پاوے کفار کے کفر اور ضد کو دیکھ کر قلب پاک کو صدمہ پہنچتا تھا تسکین خاطر کےلئے یہ آیت پاک نازل فرمائی گئی۔ کہ اے محبوب آپ کا فرض تھا تبلیغ فرمانا وہ آپ نے بخوبی انجام دے دیا۔ اب آپ سے قیامت میں یہ سوال نہ ہوگا کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے۔ آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ایک تو یہ ہی بڑی عظمت ہے۔ کہ رب العٰلمین اپنے حبیب کا دل میلا ہونا غمگین ہونا پسند نہیں فرماتا۔ اب آیت کو دیکھئے پہلا جملہ یہ ہے اِنا اَرسَلنٰک ہم نے آپ کو بھیجا جس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کی تشریف آوری خدائے قدوس کا تحفہ ہے۔ بندوں کےلئے اور سمجھ لو بادشاہی تحفہ تحفوں کا بادشاہ ہوتا ہے۔ تو تمام نعمت الٰہیہ میں یہ نعمت سب سے افضل ہے۔ دوسرے بھیجی ہوتی ہے وہ چیز جو پہلے سے اپنے پاس ہو۔ معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام دنیا میں تشریف آوری سے قبل اپنے رب کے حضور بارگاہ خاص میں حاضر رہے کس قدر حاضر رہے۔ اس کے متعلق ایک روایت تفسیر روح البیان میں زیر آیت لَقَد جَاءَ کُم رَسُولٌ ہے کہ ایک بار حضور علیہ السلام نے حضرت جبرائیل سے دریافت فرمایا کہ تمہاری عمر کس قدر ہے؟ عرض کیا کہ یہ تو میں نہیں بتاسکتا۔ ہاں اتنا جانتا ہوں کہ ایک تارا ستر ہزار سال کے بعد چمکتا تھا وہ تارا میں نے 72 ہزار بار دیکھا ہے۔ ارشاد فرمایا وہ ستارہ ہم ہی تھے جو ذات بارگاہ خاص میں اس قدر حاضر ہو اس کے مراتب کا کیا پوچھنا۔ تل بھی پھول کے پاس صرف ایک رات رہ کر بس جاتے ہیں۔ اور پھول کی سی خوشبو حاصل کرلیتے ہیں۔ تو حضور نبی کریم علیہ السلام کیوں نہ صفات الٰہیہ سے موصوف ہوجاویں۔ شیخ عبدالحق علیہ الرحمۃ نے مدارج کے خطبہ میں فرمایا کہ حضور علیہ السلام خدا کے صفات سے موصوف ہیں۔ مشکٰوۃ باب فضل الذکر میں فرمایا۔ اولیاء اللہ خدا کی قوت سے تصرف کرتے ہیں۔ آگر فرمایا آپ خالی نہیں آئے بلکہ تین چیزیں لے کر آئے، حق باتیں لے کر آئے۔ مومنوں کیلئے خوشخبریاں اور منکرین کے عذاب کی خبر لائے۔ پھر فرمایا کہ اے محبوب دوسروں کی طرح آپ سے یہ سوال نہ ہوگا کہ فلاں ایمان کیوں نہ لایا اور فلاں نے نیک کام کیوں نہ کئے۔ حدیث پاک میں ہے کہ ہر ایک آدمی سے سوال ہوگا کہ تمہاری اولاد تمہاری بیوی۔ تمہارے ماتحت لوگ نوکر چاکر کیوں ہدایت پر نہ آئے۔ مگر آقائے دو جہان سے اس قسم کا کوئی سوال نہ ہوگا۔ نیز دیگر انبیاء کی امتیں قیامت میں عرض کریں گی کہ ہم تک کوئی پیغمبر پہنچا ہی نہیں۔ پیغمبر عرض کریں گے کہ ہم نے تیرے احکام ان تک پہنچادئیے۔ اب حضرات پیغمبر مدعی اور ان کی امت مدعا علیہ اور امت رسول صلے اللہ علیہ وسلم انبیاء کی گواہ، مگر کسی بے دین کسی کافر کی بروز قیامت یہ جرات نہ ہوگی۔ کہ حضور علیہ السلام کے خلاف یہ کہہ سکے اور نہ آپ سے ایسے سوالات ہوں۔ | |
|
muhammad khurshid ali Moderator
Posts : 371 Join date : 05.12.2009 Age : 42 Location : Rawalpindi
| Subject: Re: رب العٰلمین اپنے حبیب کا دل میلا ہونا غمگین ہونا پسند نہیں صلی اللہ علیک وسلم Mon 27 Sep 2010 - 12:00 | |
| | |
|