امیر اہلسنت امیر دعوت اسلامی پر اٹھنے والے ایک اعتراض کے جواب میں لکھی جانے والی ایک اچھوتی تحریر
حرف ِابتدا
الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃوالسلام علی سید الانبیاء والمرسلین امابعد
شورش مے خانہ انسان سے بالا تر ہے تو
زینت ِ بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو دُر ِگوشِ عروسِ صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو
اقبال
تصویر کا پہلا رخآدمِ خاکی نے جب اپنی منزلِ افلاک کو چھوڑ کر جہانِ بے بنیاد کو اپنا مسکن بنایا تو ساتھ ہی طاغوت نے بھی اپنی خلشِ قلب کو ہوا دینے کے لیے آدم کی ہمراہی لی اوراس بات کی ٹھانی کہ تعلیماتِ صاحب ِحریم دوساجد ِعظیم اکی بیباکانہ سیمابی کروں گا ،اُدھررفتہ رفتہ اَبنائے آدم کی افزائش نے اس عالمِ بے رنگ و بو کو آباد کیا ،اِدھر قصہ ہابیل و قابیل سے طاغوت کی شیطنت کاری کی ابتداہوئی جو کہ انسان کا مقدر کی گئی تھی لیکن صاحبِ حریم نے بھی اس عقدہ ِمشکل کو سلجھانے کے لیے آفاقی تعلیمات کا انتظام کر رکھا تھا ،دیکھتے ہی دیکھتے خطوط ِ عالم ابنائے آدم کی پناہ گزیں ہوئے اور بتقاضائے قضاء ِمبرم انبیاء و رُسل مخلوقِ رب لم یزل کی تعلیمات کے لیے نزول فرماتے رہے آخر وہ وقت بھی آن پہنچا جب اس سلسلہ نزول وحی کو اپنے انجام کو پہنچنا تھا لیکن آج ایک ایسی بازگشت ابنائے آدم کو سنائی دی جس نے ان کو ضابطہ حیات کی تعمیل میں آسانی فراہم کر دی ،وہ بازگشت یہ تھی ''ان العلماء ورثۃ الانبیائ'' بس وقت کا تیز دھارا بڑی سرعت سے اخلاقیات ِابنائے آدم کو بہالے جانے لگا لیکن صاحب ِشریعت اکے جاں نثار علماء و اولیاء نے اس دھارے کی اپنے بازوئے علم و روحانیت سے بنداری کی ، ایک تھکا تو دوسر ا ،دوسر ے کے بعد تیسرا،تیسرے کے بعد چوتھا یکے بعد دیگرے اس دھارے کو تھامے رکھا لیکن تقدیر کو ہمارا امتحان لینا مقصود تھا کہ ان طاغوتی تابدار تخیلات کو کو ن سلجھاتا ہے۔
ایک وقت وہ آیا کہ طاغوت نے اپنا کارِمذموم چند فرشی پسران کے سپرد کیا جو اپنے پدرِاول سے دس قدم آگے تھے اب کیا تھا پہلے تو ملتِ بیضاپر چھپ چھپ کر ہنگامہ آرائی ہوتی تھی مگر اب کھلے بندوں خالق و مخلوق کی عزت و ناموس پر حملے ہونے لگے، چشمِ جہاں اس حامی کو تلاش کرنے لگی جو ان بے ہمت و لاچاربندوںکو منزلِ مراد تک پہنچائے،گردشِ افلاک کا نظارہ دیکھئے کہ جو شِ حق کی ایک تجلی نے عوجِ ثریا سے ایک نجم علم وعرفاں کو ارض مقدس کے سپر د کر دیا بقول شاعر
پھر چراغ ِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ ودمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن
پھر کیا تھا ہوائے چمنِ عالم بدلی اور فصلِ بہارگیتی نے ایک پھول کھلا دیا عشق والے ان کو پیکر ِ عشق ووفاکہتے ہیں اہل صفا ان کو پروانہ شمعِ رسالت کہتے ہیںعقل والے ان کو امام الکلام کہتے ہیں نظر والے ان کو رہبرِبصیرت کہتے ہیں، محبِ رسول و عاملین قرآن وسنت ان کو اما م اہلسنت الشاہ احمد رضاخان ص کہتے ہیں۔
بقو ل علامہ عبدالستار ہمدانی'' احمد رضا ایک وسیع النظر مدبر ،عشق رسو ل اکرم کا پیکر،اپنے وقت کا ممتاز فقیہہ ،علم وعرفان کا بہتاسمندر ،کفر وارتداد سے امتِ مسلمہ کو بچایا،ایمان کی روشنی دی ،کفر کی ظلمت کو چھانٹا،بے دینی کا پردہ چاک کیا ،صراط مستقیم پر امت رسول ا کو گامزن کیا ......جس کے قلم کی نوک سے نکلی ہوئی ہر بات بلکہ ہر لفظ ایسا جامع ،مانع اور موثر تھاکہ جس کا رد کرنامحال تھا،جس کے قاہر دلائل وشواہد پہاڑ سے بھی زیادہ اٹل تھے جو ٹالے نہ ٹل سکتے تھے ،دلائل کے میدان کا وہ شہسوار تھا،قلم کا وہ دھنی تھا،نفاذِدلائل ،سرعت ِکتابت ،زور ِبیان ،طرزِ تحریر،اثباتِ دعویٰ ،اظہار ِحق ، ابطالِ باطل، دفاعِ حق،فصاحت وبلاغت ،علم وادب فضل ودانش،وضاحت و تشریح ،تفتیشِ رموز،انسداد ِضرر، اجتہاد واستنباط،تحقیق وتدقیق،خطابت وکلام،ذہانت و فقاہت،استعداد و جلالتِ علم شعرو سخن ،فن و حکمت وغیرہ میں وہ اپنی مثال آپ تھا''۔
بس اب کیا تھا چہار سوعالم عشاق کی چہل پہل ہونے لگی گھر گھر علم و دانش کے چراغ روشن ہونے لگے رفتہ رفتہ اس چمنستانِ رسالت اکے اس گلِ نو بہار کی بوِخوش پر گستاخانِ رُسل ومرسِل علیھم السلام کی بو ِبد غلبہ پانے لگی ،ہواوہی جس کا ڈر تھاکہ چمنِ عالم میں فصل ِبہارگیتی کاجوپھول کھلاتھااب بہار ہی جاتی رہی تواس فصلِ بہارکے جاتے ہی وہ گلِ بہار بھی چل بسا،اب چہار دہانگ ِعالم میں کفر و ارتداد کا غوغہ مچ گیا ،ابنائے آدم حسرت ویاس سے کسی مصلح کی راہ تکنے لگے جورخنہِ ملتِ اسلامیہ کی پیوند کاری کرتا۔
آگیا آگیا آگیا ...........کون آگیا؟.....وہی جس کا انتظار تھاوہ جو امت ِمسلمہ کی آہ وفغاںکامداواہے ،وہ جس نے کج رو تخیلات کی بیخ کنی کرنی ہے،وہ جس نے عریاں روش کی تعمیر نو کرنی ہے، وہ جس نے سر گزشتِ طاغوت کا قرطاس چاک کر نا ہے ،وہ جس نے امت مظلومہ کو ساغر ِعشق کا جامِ آتشیں پلانا ہے ،وہ جو خیال ِفلک نشیں رکھتا ہے ،وہ جو ذوقِ تکلم سے سر مست ہے ،وہ جو پیرہنِ شرعِ مطہرہ کا زیب ِگلو ہے.....کون ہے ایساماحی شیطنت ذرانام تو بتاؤ ان کا؟
ان کو نائبِ امام احمد رضا بریلوی، حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری کہتے ہیں۔کسی نے ان کو حامی سنت ،ماحی بدعت ،مونسِ اہل لغت ،نمونہ اسلاف،معجمہ فیضِ غوث ورضا ،عالم باعمل ،عاشقِ رسولِ مقبول اکہا تو کسی نے سر شارِ عشق و محبت کہا کسی نے فدائے غوث الوریٰ وفدائے مدینہ،فدائے سیدناامام احمد رضا صکہاتو کسی نے ناشر و مبلغ وپاسبان و ترجمانِ رضا کہاتو کسی نے مبلغِ اسلام و سنتِ خیر الانام کہا اورکسی نے مخدومِ اہل سنت،محسنِ ملت ،پیر طریقت کہا تو کسی نے عالِم باعمل ،پیکر ِسنت، نائبِ اعلٰحضرت ،نائبِ غوثِ اعظم،مبلغِ عصر ،عالِم نبیل،فاضلِ جلیل کہا،کسی نے محسنِ دین و ملت کہا، تو کسی نے شیخِ وقت، صاحبِ عشق و محبت کہا،کسی نے مرد ِ قلندر ، پیکر ِ صدق وصفا،مجسمہ خلوص ووفا کہا۔یہ القاب کہکشانِ فلک کے ان مہکتے ستاروں کے عطاکردہ ہیں، جو خود وقت کا کوئی مفتی ہے تو کوئی عالِم دین ، کوئی مدرسِ بے مثل ہے تو کوئی مصنف ِ کتب کثیرہ ہے کوئی خلیفہ اعلٰحضرت ہے تو کوئی جگر گوشہ شارح بخاری ہے ، ان کے اسما بالترتیب ملاحظہ فرمائیں،علامہ شریف الحق امجدی، علامہ فیض احمد اویسی ، علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی ،علامہ مفتی محمد اشفاق ،علامہ مفتی محمد اشرف سیالوی ،علامہ محمد حسن رضا،علامہ ابوداؤد محمد صادق ،علامہ گل احمد عتیقی ،علامہ مفتی ابراہیم ،علامہ عبدالستارسعیدی ،علامہ مفتی محمد خان ،علامہ محمد یا ر،علامہ صدیق ہزاروی،علامہ محمد محب الحق ،علامہ حلیم احمد اشرفی،علامہ رضا المصطفیٰ ،علامہ عظمت علی ،علامہ حافظ محمد رمضان ،علامہ عارف سعیدی ،علامہ صاحبزادہ عبدا لمالک، علامہ خاد م حسین ،علامہ محمد ناصر،علامہ سید نظام علی شاہ ،علامہ مقبو ل احمد،علامہ مفتی شوکت سیالوی ،علامہ شفیق احمد قادری ،علامہ ضیاء الحسن ،علامہ محمد امین ،علامہ گوہرعلی، علامہ احمد یار،علامہ عبدالحمیدچشتی علامہ شیرمحمدرحمھم اللہ ودامت برکاتھم العالیہ ،ان علم کے ماہتابو ںکا امیر اہلسنت کوان القاب سے نوازنا کوئی اچنبے کی بات نہیںہے بلکہ آئندہ آنے والے اوراق سے یہ عیاں ہو جائے گا کہ امیرِ اہلسنت کی عظیم ہستی ایک ایسا گوہرِ نایاب ہے کہ جن کے لیے القاب خود محتاج بیان ہوتے ہیں۔
تصویر کا دوسرا رخآج جب کہ دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلج کی سی کیفیت میں دنیا کے سامنے ہے۔ سائنس و میڈیا کے اس دور میں ہر انسان مادیت وظاہریت میں اپنی فلاح و کامرانی کا متلاشی نظر آتا ہے ۔ دیگر اقوامِ عالَم کی طرح اب مسلم امہ بھی اپنے جزیا ت ِ دین کو ایک سایئنٹیفک نظر یہ انداز سے دیکھتی نظر آتی ہے۔ بنی نوع انساں کی تربیت ِاخلاق کے لیے اللہ مجدہ الکریم نے مختلف ادوار میں اپنے مقرب بندو ں انبیاء و رُسل کے ذریعے رہنمائی فرمائی ،بعد ازیں اصحاب رسو ل ،تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنھم نے اس فریضہ کی تکمیل کے لیے انتھک محنت و کوشش کی مگر معلم کائنات ا کے اس قول زریں' ان العلماء ورثۃ الانبیائ' بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ کے پیش نظراب جبکہ سلسلہ نبوت کانزول نبی آخر الزمان ا پر رک چکا ہے علماء ِ اسلام ہی دین کے وہ وِرثِ نباء ہیں جنہوں نے راہِ صراط سے بھٹکے ہوئے فرزندانِ آدم کو راہِ ہدایت پر گامزن کرتے رہنا ہے۔
چودھویں صدی ہجری جہاںآفتابِ نصفِ نہار لے کر شروع ہوئی جس میںنظریاتِ بنی نوع انساں ایک جدید رنگ لے کر سامنے آئے زعماء اسلام کو جدید اذھان سے نمٹنے کے لیے مختلف طرق سے افہام و تفہیم سے کام لیناپڑا، لیکن دور جدید اس امر کا مقتضی تھا کہ عصرِحاضر کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکمت ِ عملی سے تبلیغ دین کا کام سرانجا م دیا جائے لہٰذا تاریخ نے ایک مرتبہ پھر ورق گردانی کی جس کے نتیجہ میں باب المدینہ کراچی سے ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے اپنی قوم کی طاغوتی طاقتوں سے بازیابی کے لیے وہ آفاقی تعلیمات جن کا معلمِ کائنات انے علماء کو وارث ٹھہرایا تھا تبلیغِ دین کا کام شروع کیا ،دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے چہار دانگ عالم میں عشقِ رسول ا کی ضوفشانی کی اور نفس و شیطان کے دام تذویر سے انسانوں کو باہر نکالا ،آن کی آن اس تحریک کے چرچے عوام سے اب علماء میں بھی ہونے لگے، علماء بہت خوش تھے کہ اجتماعی تبلیغِ دین کی کمی جو ہم ایک عرصہ سے محسوس کر رہے تھے چلو کسی نے تو اس کا م کابیڑا سنبھالالیکن اسی اثناء میں شیطان نے بھی اپنا کام تیز کر دیا ، کیونکہ شیطان کو اپنے مذموم مقاصد ختم ہوتے دکھائی دے رہے تھے لہٰذااس نے لوگوں کے دلوں میں ایسی باتیں ڈالنی شروع کیں جس سے اس کامقصد لوگوںکو اِس عظیم فریضہ سے بازرکھناتھااِس مذموم مقصد کے لیے اور تو اس کو کوئی سوجھی نہ اس نے امیرِتحریک کے بارے میںیہ غوغہ مچایا کہ'' امیر تحریک تو عالِم دین ہی نہیں ہیں''یہ ایک ایسا نظریہ تھاجس کی وجہ سے اُسے اپنی طاغوتی چال کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی تھی کیوں کہ وہ اپنے اس نظریہ کی رو سے یہ باور کروانا چاہ رہاتھا کہ کیونکہ تحریک دعوت اسلامی کو مریدینِ علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری کی وجہ سے عروج ملا تھا اور مسند ارشاد پر فائز ہونے کے لیے عالِم دین ہونا شرط ہے اگر وہ اپنے اس نظریہ میں کامیاب ہوتا ہے تو تمام مریدین کی بیعت ٹوٹ جاتی ہے جس کی بنا پر امت مسلمہ کی عظیم روحانی و تبلیغی تحریک کی بنیاد کمزورہو جاتی ہے ۔لہٰذاسادہ لوح عوام کے علاوہ بعض اکابر بھی ان شکوک و شبہات کا شکار ہوئے ، یہ ابلیس لعین کاوار ایساتھا جس کی بنیاد سراسر جھوٹ پر مبنی تھی ،امیر دعوتِ اسلامی کا ان جلیلُ القدر علماء ِاہلسنت میں شمار ہوتاہے جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی،اب ایساتوہو نہیں سکتاکہ امیرِ تحریک اپنے سر پر کوئی علامتی نشان کندہ کر لیں جس سے دیکھنے والے کو معلوم ہو کہ حضرت موصوف عالم بھی ہیں اور ان کو فلاں علومِ درسیہ و علوم اسلامیہ پر دسترس حاصل ہے اور حضرت نے فلاں معروف درس گاہ سے استفادہ علم کیاہے۔حالانکہ شواہد موجود ہیں کہ جمیع علماء اسلام آپ کو ایک جلیل القدر عالم دین گردانتے ہیں اور آپ نے باقاعدہ علوم اسلامیہ کااستنباط کیاہے اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام ِاہلسنت آپ کو اپنا امیر تسلیم کرتی ہے ۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ دعوت اسلامی اہلسنت کی نمائندہ تبلیغی تحریک ہے اور اگر ایسے نظریات کاباب ابھی سے بند نہ کیا گیا توناگہاںشیطان اپنے طاغوتی مشن میں کامیاب ہو جائے گااور اگر مولٰنامحمدالیاس قادری صاحب کی طرح دیگر علماء اہلسنت کو اِسی طرح ہدف تنقید بنایاجاتارہاتو ہوسکتا ہے صفحہ ہستی میں یارسول اللہ اکی صدا بلند کرنے والے شایدڈھونڈنے سے ہی ملیں ۔
بندہ ناچیز کی یہ ادنیٰ سی کاوش میرے اوقات کا ایک قیمتی مصرف ہے جس کو میں نے عوام وخواص کی عدالت میں بعجزونیاز پیش کر دیا ہے تاکہ علماء پر اعتراضات کرنے سے پہلے ذرایہ سوچ لیاکریں کہ علماء اس قوم میں روح محمدی اپھونکنے کاکام کر رہے ہیںہم علماء پر اعتراض کر کے حقیقت میں قلب ِابلیس کوہر دم خوش کر رہے ہیں اور ابلیس لعین اپنے چیلوںکو پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ !
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتانہیں ذرا
روحِ محمدی اس کے بدن سے نکال د و!
علامہ ابن حکیم
سیدمبشررضاسنی قادری
علمعلم ایک ایسا بحرِ بے کنار ہے کہ جس کے غواص کو وہ نایا ب گوہر نصیب ہو تے ہیں جن کی قیمت خود گوہر بار کو بھی معلوم نہیں ہوتی بازارِ خرد کے گوہر شناس پر اس کی قیمت خوب عیاں ہے اور کیوں نہ ہو کہ خالق ِکل خود صفتِ علم سے موصوف ہے بقول شاعر
علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود
گل کی پتی میں نظر آتا ہے راز ِہست و بود
اللہ د علم والوں کی شان میں فرماتا ہے :
''اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ'' اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔
(القرآن ، فاطر ٢٨)
حقیقت تو یہی ہے کہ مالک نے عالمِ رنگ و بو کی تزیین ہی اپنے اپنی صفات کو آشکار کرنے کے لیے کی تو بتقاضائے بشریت ومخلوق ہم پر یہ حق ہے کہ اس خالق کی ہمہ وقت خشیت و بندگی کی جائے اور یہ کار ِبندگی باحسن صرف صاحب ِ علم ہی سر انجام دے سکتے ہیں،یقینا ہر ذی شعور اس امر کا متمنی ہے کہ خالق حقیقی کی ہر دم خشیت کی جائے اور پھر خشیت کا پیمانہ ہمیں خود مخشی الیہ نے دے دیا کہ علم ہی ایک ایسی کلید ہے جس سے قفل ِخشیٰ وورا کھلے گا۔ اب علم کس کو حاصل کرناچاہیے، کیا اس کی کوئی قیودات وپابندیاں ہیں؟ اس کے لیے شارع علیہ التحیہ والثناء اہماری رہنمائی فر ماتے ہیں۔ سرورِلالہ رخاں اارشاد فرماتے ہیں :
''من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین''اللہ تعالیٰ جس کے لیے خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطافرماتاہے۔
(صحیح بخاری ١/١٦ مطبوعہ نور محمد کراچی)
آپ انے دوسری جگہ ارشادفرمایا :
''لا حسد الا فی اثنتین رجل اتاہ اللہ مالافسلطہ علی ھلکتہ فی الحق ورجل اتاہ اللہ الحکمۃ فھو یقضی بھا ویعلمھا'' صرف دو چیزوں پر رشک کرنا مستحسن ہے ،ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہواور وہ اس کو نیکی کے راستہ میں خرچ کرتا ہو ، اور ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے حکمت دی ہو وہ اس کے مطابق فیصلے کرے اور اس کی تعلیم دے ۔
(صحیح بخاری ١/١٧ مطبوعہ نور محمد کراچی)
مذکورہ بالا سطور سے معلوم ہوا کہ علم کا حصو ل ہر کس وناقص کو ضروری ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علم وہی ضروری ہے جس کے لیے جزاء و خیر کی نوید سنائی گئی ہے نہ کہ وہ جو وبال ِ جاں ہو لہٰذا علم کے قبل از حصول اس کا تعین ضروری ہے کہ کہیں بے فائدہ کی تگ ودو میں گمراہی کے راستہ کا مسافر نہ بن جائے ۔حجۃ الکاملین امام الواصلین حضرت ابوالحسن سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش لاہوری صفرماتے ہیں:
''واضح رہے کہ انسان کی عمر مختصر ہے اور علم کی کوئی اتھاہ نہیں ،اس لیے تمام علوم کا حاصل کرنا فرض نہیں ہے ،مثلاً علمِ نجوم ،طب،حساب ،اور عجائبات عالَم کا علم ،البتہ اتنا علم ضروری ہے جتنا شریعت سے متعلق ہو ،مثلاً اتنا علم نجوم جس سے رات کے اوقات کی تعیین کی جاسکے، علم طب اس قدر کہ صحت کی حفاظت کی جاسکے،اسی طرح علم حساب اتنا جس سے وراثت ،ضروری لین دین ،یا عِدت وغیرہ کے مسائل حل ہو سکیں ،الغرض اتنا اور اسی قدر فرض ہے جس سے عمل درست ہو اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو بے فائدہ علم حاصل کرتے ہیں''۔ (کشف المحجوب صفحہ ٨٨)
علم کی تعریفعلم کی تعریف دواعتبار سے کی گئی ہے:
(١)متکلمین وحکماء کے اعتبار سے (٢)شریعت ِ محمدیہ کی جانکاری کے اعتبار سے
متکلمین وحکماء کے نزدیک علم کی تعریف:۔علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی فرماتے ہیں:
''ا لعلم صفۃ یتجلی بھا المذکور لمن قامت ھی بہ۔۔۔۔۔۔۔الخ'' ــعلم ایک ایسی صفت ہے جس کے سبب وہ چیز منکشف اور واضح ہو جاتی ہے جس انسان کے ساتھ وہ صفت قائم ہو۔یعنی وہ چیز ایسی ہو جس کاذکر کیا جاسکے اور اس کو تعبیر کیاجاسکے خواہ وہ چیز موجود ہو یامعدوم ہو،یہ تعریف حواس کے ادراک اور عقل کے ادراک کوشامل ہے ۔خواہ عقل کے ادراکات ،تصورات ہوں یاتصدیقات ،اور تصدیقات خواہ یقینیہ ہوںیاغیریقینیہ،لیکن اس تعریف میں انکشاف کو مکمل انکشاف پر محمول کرناچاہیے جو ظن کو شامل نہیں ہے ،کیوںکہ علم ان کے نزدیک ظن کامقابل ہے ،اور جب اس تعریف میں انکشاف کو انکشاف تام پر محمول کریں گے تو پھر علم کی تعریف سے تصورات اور ظن خارج ہوجائیں گے اورصر ف جزم باقی رہے گا''۔
(شرح عقائد النسفی ص١١مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
شریعت ِ محمدیہ کی جانکاری کے اعتبار سے علم کی تعریف:۔حضور داتا گنج بخش ھجویری صعلم کی تعریف یو ں فرماتے ہیں:
''علم اوصاف ِحمیدہ میں سے ہے اس کی تعریف معلوم چیزوں کااحاطہ اور ان کی وضاحت ہے اس کی بہتر تعریف یہ ہے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعے انسان عالم ہو جاتاہے ''۔
(کشف المحجوب ص٩١مطبوعہ فرید بکسٹال لاہور)
المفرد فی غریب القرآن میں علم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے :
''ا لعلم :ادراک الشئی بحقیقتہ وذلک ضربان احدھما ادراک ذات الشئی والثانی الحکم علی الشئی بوجود شئی ھو موجود لہ او نفی شئی ھو منفی عنہ فالاول ھو المتعدی الی مفعول واحد نحو لا تعلمونھم اللہ یعلمھم وا لثانی المتعدی الی مفعولین نحو قولہ :فان علمتموھن مومنات وقولہ :یوم یجمع اللہ الرسل الی قولہ :لاعلم لنافاشارۃ الی ان عقولھم طاشت والعلم من وجہ ضربان :نظری وعملی فالنظری مااذاعلم فقد کمل نحو العلم بموجودات العالم والعملی مالایتم الابان یعمل کالعلم بالعبادات ومن وجہ آخر ضربان:عقلی وسمعی واعلمتہ وعلمتہ فی الاصل واحد الاان الاعلام اختص بماکان باخبار سریع والتعلیم اختص بمایکون بتکریر وتکثیر حتی یحصل منہ اثرفی نفس''کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا علم ہے اور علم کی دو اقسام (١)کسی چیز کی ذات کا ادراک کرنا(٢)کسی چیز پر وجود ِ شئ کا اسطرح حکم لگانا کہ فلاںچیز موجود ہے یا اسطرح حکم لگانا کہ فلاں چیز موجودنہیں ہے ۔پہلی قسم متعدی بیک مفعول ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 'تم ان کو نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے 'اور دوسری قسم متعدی بدو مفعول ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے'تم ان عورتوں کو مومن جانو 'اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 'جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا'اللہ کے اس قول تک کہ 'ہمیں کسی چیز کا علم نہیں ہے'اور علم کی ایک دوسری تقسیم بھی ہے جسکی دو انواع ہیں (١)نظری (٢)عملی :نظری یہ کہ جب کسی چیز کا علم ہو گیا تو وہ علم مکمل ہو گیا جیسے موجودات کا علم۔عملی یہ ہے کہ جب تک عمل نہ ہو علم مکمل نہ ہو گا جیسا کہ عبادات کا علم ۔اور دوسری نوع عملی کی بھی دو قسمیں ہیں (١)عقلی(٢)سمعی :اعلام(کسی کو علم دینا)اور تعلیم حقیقت میں ایک ہی چیز ہیںفرق صرف یہ ہے کہ اعلام اخبارِ سریعہ کے ساتھ خاص ہے اور تعلیم تکرار و کثرت ِ مباحثہ کے ساتھ خاص ہے یہاں تک کہ اس تکرار و کثرت ِ مباحثہ سے نفس میں اثرپیدا ہو جائے۔
(المفرد فی غریب القرآن ١/ ٣٤٣ )
علم کی اقسامشیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاریصعلم کی اقسام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
''علم دین کی دو اقسام ہیں ایک وہ کہ جس پر قرآن و حدیث کے سمجھنے کا دارو مدار ہے جیسے لغت ، نحو اور صرف وغیرہ کا علم ، دوسرے وہ جو عقیدے ،عمل اور اخلاق سے تعلق رکھتا ہے ان کے علاوہ ایک علم وہ ہے جو نور ہے اِس سے خدائے تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اِس کو علمِ حقیقت کہتے ہیں قرآن و حدیث میں جس علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہ حسب درجہ علم کی ان تمام قسموں کو شامل ہے''۔
(ماخوذ از اشعۃ اللمعات )
اعلحٰضرت فاضل بریلوی صارشاد فرماتے ہیں :
''ہاں آیات و احادیث دیگر کہ فضیلت ِعلماء و ترغیب علم میں وارد ، وہاں ان کے سوا اور علومِ کثیرہ بھی مراد ہیں جن کا تعلم فرض کفایہ یاواجب یا مسنون یامستحب ، اس کے آگے کوئی درجہ فضیلت و تر غیب اور جوان سے خارج ہو ہر گز آیات و احادیث میں مراد نہیں ہو سکتا اوران کاضابطہ یہ ہے کہ وہ علوم جو آدمی کو اس کے دین میں نافع ہوں خواہ اصالۃًجیسے فقہ وحدیث وتصوف بے تخلیط وتفسیر قرآن بے افراط وتفریط خواہ وساطۃً مثلا ً نحو و صرف و معانی و بیان کہ فی حد ذاتہاامر دینی نہیں مگر فہم قرآن وحدیث کے لئے وسیلہ ہیں''۔
(فتاویٰ رضویہ جدید ٢٣/٦٢٦)
خلاصہ بحث یہ ہے کہ وہ علوم جن سے قرآن وحدیث سمجھ میں آجائے اور اس سے مسائلِ فقہیہ واضح ہو جائیں وہ تمام علوم علمِ دین کی اقسام سے ہیں ۔
علم کی تعریف میں علماء کا اختلاف
علم ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں علماء ِاسلاف کا قدیم اختلاف پایا جاتارہا ہے اسی اختلاف کی طرف شارح بخاری بھی گئے ہیں ۔شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی ص فرماتے ہیں :
''صحیح یہ ہے کہ علم اجلیٰ بدیہات سے ہے ہر خاص و عام جانتا ہے کہ علم کیا چیز ہے اسلئے یہ اصطلاحی تعریف سے مستغنی ہے نیز اسکی تعریف بہت زیادہ مشکل ہے ہزار ہاسال غور و خوض بحث و تمحیص کے بعد بھی آج تک منقح نہ ہو سکی ہمارے حضرات ماتریدیہ نے علم کی تعریف یہ کی ہے ،علم ایک ایسا نور ہے جو اللہل نے انسان کے قلب میں پیدا فرمایا ہے کہ اس سے جس چیز کا تعلق ہوتا ہے وہ منکشف ہو جاتی ہے جیسے آنکھ میں دیکھنے کی قوت ہے ۔''
(نزھۃ القاری شرح البخاری ١/٣٤٨)
عالِم چونکہ علم کی صفت سے موصو ف ہوتاہے اس لیے یاد رکھناچاہیے کہ علم دین کی بھی کچھ اقسام ہیں جیسے صرف ،نحو ،بلاغت ،ادب ،فقہ ، اصو ل ِفقہ،تفسیر ،اصول ِتفسیر،حدیث اصول ِحدیث،فلسفہ،منطق ،وغیر فنون کاعلم۔ اب علماءِ اسلاف میں اس چیز کا اختلاف پایاجاتاتھاکہ کن فنون کاماہر عالم کہلاتاہے آئیے ہم کچھ علماء کرام کی تصریحات بیان کرتے ہیں۔
اعلٰحضرت فاضل بریلوی ص فرماتے ہیں:
''علمِ دین فقہ و حدیث ہے منطق و فلسفہ کے جاننے والے علماء نہیں ''۔
(فتاویٰ رضویہ جدید ١٠ /٤٥٥)
اعلٰحضرت فاضل بریلوی ص ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
''بس ہر علم میں اسی قدر دیکھ لینا کافی کہ آیا یہ وہی عظیم دولت نفیس مال ہے جو انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام نے اپنے ترکہ میں چھوڑا جب تک تو بیشک محمود اور فضائل جلیلہ موعودہ کا مصداق ، اور اس کے جاننے و الے کو لقب عالم و مولوی کااستحقاق'' ۔
(فتاویٰ رضویہ جدید٢٣/٦٢٧)
یہ علم کا اختلاف وہی ہے جس کو آ ج تک کوئی نہیں سلجھا سکا جس کی رائے میں جو تعریف اچھی ہوتی ہے وہ اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عالم کی بھی تعریف کرتاہے کیونکہ عالم کی تعریف معلق ہے علم کی تعریف پر جب علم کی تعریف میں ہی اختلاف ہوگا تو عالم کی تعریف کرنے میں دشواری ہوگی ۔
راقم الحروف بحمدہ تعالیٰ صد ہا دلائل اس عنوان کے تحت قائم کر سکتاہے بخوف ِطوالت اب معیارِعلم کے بارے بیان کیا جاتاہے ۔
معیار ِعلمعلم کی تعریف و قیودات جاننے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ شریعت نے کس علم کو علم کہا ہے اور کس کی نفی کی ہے ۔
علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا:
''عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ انہ قال لیس العلم عن کثرۃالحدیث ولکن العلم من کثرۃالخشیۃ''ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ علم کثیر مباحثہ کانام نہیں بلکہ علم اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے کا نام ہے ۔
(تفسیر ابن کثیر ٣/٥٥٥ )
علامہ قرطبیص علم کی تعریف کے بارے رقم طراز ہیں :
''قال احمد بن صالح المصری عن ابن وھب عن مالک قال ان العلم لیس بکثرۃ الروایۃ وانماالعلم نور یجعلہ اللہ فی القلب''احمد بن صالح مصری ،ابن وھب کی روایت سے بیان کرتے ہیں کہ امام مالک فرماتے ہیں علم کثیر روایات کرنے کا نام نہیں اور بیشک علم توایک ایسا نور ہے جس کو اللہ دل میںنقش کرتاہے
(تفسیر قرطبی ١٤/ ٣٤٣ )
حقیقت تو یہ ہے کہ علم چاہے جتنا بھی ہو بے فائدہ و وبالِ جان ہے جب تک یہ کہ علم کے ساتھ عمل ،خشیت الٰہی ،عجز و انکساری وغیر ہ امور لازمہ کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔
فضائلِ علم
فضائل علم پر علماء نے بہت کچھ لکھاہے حصول برکت اور مناسبتِ مو ضوع کے تحت میں بھی چند نصوص سے فضائل علم بیان کرتاہوں ۔
''اللہ لکا ارشاد ہے :
''وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً '' اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے۔
(القرآن ،طہٰ١١٤)
علامہ ابن حجر عسقلانیص فرماتے ہیں:
'' کہ اس آیت کریمہ سے علم کی فضیلت واضح ہوتی ہے اسلئے کہ اللہ مجدہ الکریم نے اپنے پیارے حبیب ِلطیف کو علم کے علاوہ کسی دوسری چیز کی زیادتی کے طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا''۔
(فتح الباری شرح البخاری ١/١٣٠)
مذکورہ بالا روایت سے علم کی فضیلت باخوبی عیاں ہوتی ہے کہ وہ چیز جس کے طلب زیادتی پر خالقِ کل مصر ہوااورگر علم کے علاوہ کسی اور چیز میں فضیلت ہوتی تو اللہ تعالیٰ آپ ا کو اس چیز میںزیادتی کے حصول کی تعلیم فرماتا بہر حال ہم کو بھی چاہیے کہ حصولِ علم کے لیے ہر دم کوشاں رہیں۔
''اِنَّمَایَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ'' اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔
(القرآن ، فاطر ٢٨)
حضرت ابن عباسثسے روایت ہے :
''العلم حیاۃ الاسلام و عماد الدین''علم اسلام کی زندگی اور دین کا ستون ہے۔
(کنز العمال ١٠/٧٦)
زندگی ایک ایسی چیز ہے جس پر کسی امر مطلوب کی اساس ِبقا ہو ، جس طرح کہاجاتاہے کہ 'معاشرہ کی زندگی اور بقابھائی چارگی سے ہے ' اسی طرح اسلام کے بارے بھی کہاگیا کہ اس کی زندگی اور اس کے باقی رہنے کادارومدار علم سے ہی ہے ۔اسی طرح ستون بھی اس کو کہتے ہیں جس پر عمارت کی چھتوں کابوجھ ہوتاہے اور وہ اس کو مضبوط و قائم کیے رکھتاہے ۔ لہٰذا علم کو بھی ستون سے اس لیے تعبیر کیاگیا کہ علم بھی عمارت اسلام کو ستون کی طرح قائم کیے رکھتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے :
''تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من احیائھا'' رات میں ایک گھڑی علم کاپڑھنا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے ۔
(مشکوٰ ۃ ص٣٦مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
خوش قسمت ہیںوہ طالب علم جن کی راتوں کی نیندکتب بینی ،سبق یادکر نے اور سبق کے تکرار کرنے میںگزرتی ہیں وہ اس حدیث پاک کے مصداق ہیں۔طلباء کو اس حدیث سے درس حاصل کرناچاہے کہ بغیر نوافل و اذکار سے صرف علم دین کے لیے تھوڑی دیر جاگنا پوری رات عبادت کرنے کا درجہ رکھتاہے مزید اس حدیث پاک کے بارے پڑھیے ۔
حضرت ملا علی قاری ص تحریر فرماتے ہیں:
'' اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھنٹہ آپس میں علم کی تکرار کرنا ، استاد سے پڑھنا،شاگرد کو پڑھانا ،کتاب تصنیف کرنا یا ان کامطالعہ کرنا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے''۔
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ١/٢٥١)
حضرت ام ہا نی رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے کہ سرکار اقدس انے ارشاد فرمایا :
''العلم میراثی و میراث الانبیاء قبلی ''علم میری میراث ہے اور جو مجھ سے پہلے انبیاء گزرے ہیں ان کی میراث ہے''۔
(کنزالعمال ١/٧٧)
''حضرت انس بن مالک ص بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہاکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:یا رسول اللہا !کون ساعمل سب سے افضل ہے ؟آپ ا نے فرمایا اللہل کاعلم ،اس نے دوبارہ آکر وہی سوال کیا، آپ نے اس کو وہی جواب دیا،اس نے کہایا رسول اللہا !میں نے تو آپ سے صرف عمل کے متعلق سوال کیاہے آپ نے فرمایاعمل کم ہویازیادہ اس کے ساتھ تمہیں علم نفع دے گااور جہل تم کو نفع نہیں دے گاخواہ اس کے ساتھ عمل کم ہو یازیادہ ''۔
(نوادر الاصول ٤ / ١٠١ مطبوعہ دار الجیل بیروت،الجامع الصغیر رقم الحدیث:١٢٤٠،جمع الجوامع رقم الحدیث ٣٦٥٩ ، کنزالعمال رقم الحدیث:٢٨٧٣١)
مولٰناسعیدی اس حدیث کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں اس سے استدلال صحیح ہے۔
(تبیان القرآن ٨/٦١١)
ابو جعفر نے کہا عالم کی موت ابلیس کے نزدیک ستر عابدوں کی موت سے زیادہ محبوب ہے۔
(شعب الایمان ٢/٢٦٧مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
مذکورہ بالا تمام بحث سے واضح ہو ا کہ علم حاصل کرنا بہت درجہ واہمیت رکھتاہے ۔
عالم کی تعریفاعلٰحضرت فاضل بریلوی ص فرماتے ہیں :
''ضابطہ یہ ہے کہ وہ علوم جو آدمی کو اوس کے دین میں نافع ہوں خواہ اصالۃ ًجیسے فقہ و حدیث و تصوف بے تخلیط و تفسیر قرآن بے افراط وتفریط خواہ وساطۃ ً مثلاً نحو و صرف و معانی وبیان کہ فی حد ذاتہا امر دینی نہیں مگر فہیم قرآن وحدیث کے لیے وسیلہ ہیں اور فقیر غفر اللہ تعالیٰ اس کے لئے عمدہ معیارعرض کرتاہے مراد متکلم جیسے خود اوس کے کلام سے ظاہر ہوتی ہے دوسرے کے بیان سے نہیں ہو سکتی مصطفی ا جنھوں نے علم و علماء کے فضائل عالیہ وجلائل غالیہ ارشاد فرمائے اونھیں کی حدیث میں وارد ہے کہ علماء وارث انبیاء کے ہیں انبیاء نے درم و دینار ترکہ میں نہ چھوڑے علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے جس نے علم پایا اوس نے بڑاحصہ پایااخرج ابو داؤدوالترمذی وابن ماجہ وبن حصان والبیھقی عن ابی درداء رضی اللہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول فذکر الحدیث فی فضل العلم وفی آخر ان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوادیناراولادرھماوانما ورثوا العلم فمن اخذبحفظ واقربس ہر علم میں اسی قدر دیکھ لینا کافی کہ آیا یہ وہی عظیم دولت نفیس مال ہے جو انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام نے اپنے ترکہ میں چھوڑا جب تو بیشک محموداورفضائل جلیلہ موعودہ کا مصداق اوراس کے جاننے والے کو لقب عالم و مولوی کا استحقاق ورنہ مذموم و بد ہے جیسے فلسفہ و نجوم یا لغو و فضول جیسے قافیہ و عروض یا کوئی دنیا کا کام جیسے نقشہ و مساحت بہر حال اون فضائل کا موردنہیں نہ اوس کے صاحب کو عالم کہہ سکیں ائمہ دین فرماتے ہیں جو علم کلام میں مشغول رہے اوس کا نام دفترعلماء سے محو ہو جائے''۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم ١٠/١٦،١٧)
حضرت علی ص عالم کی تعریف و علامات کے بارے ارشاد فرماتے ہیں :
''ان الفقیہ حق الفقیہ من لم یقنط الناس من رحمۃ اللہ و لم یرخص لھم فی معاصی اللہ تعالیٰ ولم یومنھم من عذاب اللہ ولم یدع القرآن رغبۃ عنہ الی غیر ہ انہ لا خیر فی عبادۃ لا علم فیھا ولاعلم لافقہ ولاقراۃ ولا تدبر فیھا'' سچافقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اللہ تعالیٰ کی معصیت میں لوگوں کو رخصت نہ دے اور نہ ہی لوگوں کو مکمل طور پر اللہ کے عذاب سے امان دے اور قرآن کے (اصولوں)سے اعراض کرتے ہوئے کسی شخص کیلئے قرآن کو نہ چھوڑے کیونکہ ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں علم نہ ہو اورنہ ایسے علم میں بھلائی ہے جس میں فقاہت نہ ہو اور نہ ہی ایسی قراء ۃ ِ قرآن میں بھلائی ہے جس میں غور و فکر نہ ہو۔
(تفسیر قرطبی١٤/ ٣٤٤ )
عالم کی فضیلتعالم ہو ناایک ایسا متاعِ دنیوی واخروی ہے کہ جس کو یہ حاصل ہو تاہے وہ مخلوق عالَم سے ممتاز ہو تا ہے چند فضائل ملاحظہ فرمائیں۔
دارمی نے مکحول سے روایت کیا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا :
''ان فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناھم تلا ھذا الایۃ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ان اللہ وملائکتہ واھل سماواتہ واھل ارضیہ والنون فی البحر یصلون علی الذین یعلمون الناس الخیر''عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میر ی فضیلت تم میں سے ادنا پرپھر آپ انے یہ آیت تلاوت کی 'بے شک اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب ِعلم ہیں'بےشک اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمانوں والے اور زمین والے اور سمند ر کی مچھلیاں اس پررحمت بیجھتے ہیں جس کو وہ لوگوں میں سے بہتر عالم تصو ر کرتے ہیں۔ (تفسیر قرطبی ١٤/٣٤٤ )
''ان العلماء ورثۃ الانبیاء ''بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں علیھم الصلاۃ والسلام ۔
(سنن ابی داود ، ٢/١٥٧)
اعلحضرت فاضل ہندص ارشاد فرماتے ہیں:
''اولیائے کرامث فرماتے ہیں :صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے اس لئے حدیث میں آیا حضو رسید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فقیہ واحد اشد علی الشیطان من ا لف عابد رواہ الترمذی وابن ماجۃ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما (ایک فقیہ شیطان پر ہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا )بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتاہے ،منہ میں لگام ناک میں نکیل ڈال کر جد ھر چاہے کھینچے پھر تاہے ''۔
(فتاویٰ رضویہ جدید ٢١/٥٢٨)
کیاعالم کے لیے سند یافتہ ہونا ضروری ہے ؟
یہ نکتہ محل ِغور ہے کہ کیا عالم ِ دین وہی ہے جس کے پاس ایک کاغذ کا ٹکرا جس کو عام مفہوم میں سند سے تعبیر کرتے ہیں موجود ہو؟اگر ایسا ہی ہے تو آج کے جدید دور میں پرنٹنگ پریس کی سہولت موجود ہے جس کو عالم بننے کا جذبہ جاںگزیںہووہ پریس سے رابطہ کر کے ایک کیا سینکڑوں اسناد ترتیب دے لے ۔ یہ امر اہل نظر پرخوب عیاں ہے کہ میدانِ ِعلم میں سند کی کوئی حیثیت نہیں ہے علم وہ ہے جو دل و دماغ میں ہو اور اس کا احساس اس صاحب کے قول و فعل سے ہوتا ہے ۔
اعلیٰحضرتص سے جب اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا :
''مسئلہ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس باب میں کہ اگر کوئی شخص جس نے سوائے کتب فارسی اور اردو کے جو کہ معمولی درس میں پڑھی ہوں اور اوس نے کس مدرسہ اسلامیہ یا علماء گرامی سے کوئی سند تحصیل علم نہ حاصل کی ہو اگروہ شخص مفتی بنے یا بننے کا دعویٰ کرے اور آیات قرآنی اور احادیث کو پڑھکر اوس کا ترجمہ بیان کرے اور لوگوں کو باورکراوے کہ وہ مولوی ہے تو ایسے شحص کا حکم یافتوی اور اقوال قابل تعمیل ہیں یا نہیں اور ایسے شخص کا کوئی دوسرا شخص حکم نہ مانے تو اسکے لئے شریعت میں کیا حکم ہے۔
الجواب: سند کوئی چیز نہیں بہتیرے سند یافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اون کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتو ں میں نہیں ہوتی۔علم ہونا چاہیے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہاکسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو ۔مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس تدریس میں پورے نہ تھے مگر خدمت علماء کرام میں اکثر حاضر رہتے اور تحقیق مسائل کاشغل اون کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھا ہے کہ وہ مسائل میں آجکل کے صد ہا فارغ التحصیلوں بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہازائد تھے پس اگر شخص مذکورفی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علماء کاملین علم کافی رکھتاہے جو بیان کرتاہے غالباً صحیح ہوتا ہے اوسکی خطا سے اوس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں ''۔
(فتاویٰ رضویہ قدیم١٠/٢٣١)
مفتی جلال الدین امجدی صاحب لکھتے ہیں کہ:
''علم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم بن کر کسی مدرسہ میں اپنا نام لکھائے اور پڑھے جیسا کہ رائج ہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ علمائے اہلسنت سے ملاقات کرکے شریعت کا حکم ان سے معلوم کرے یا معتبر اور مستند کتابوں کے ذریعہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی جانکاری حاصل کرے ''۔
(علم اور علماء از مفتی جلال الدین امجدی ص٢٤)
علماء ِسو ء کی مذمتجہاں پر علم و علماء کے فضائل و برکات ہیں وہاں بے عمل علماء کے لیے شریعت نے بہت سختی اختیار کی ہے ۔
حضور داتاصاحب صغافل علماء کے بارے فرماتے ہیں :
''غافل علماء وہ ہیں جنہوں نے اپنے دل کاقبلہ دنیاکو بنارکھاہے شریعت میں رخصتوں اور آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں بادشاہوں کے حواری و پجاری ہیں اور ان کی سرکار دربار کے طواف کو وظیفہ حیات سمجھتے ہیں مخلوق میں جاہ ومرتبہ ان کے نزدیک معراج ہے فخر وغرور کی بدولت اپنی چالاکی اور عیاری پر فخر کرتے ہیں زبان وبیان میں تکلف و بناوٹ سے کام لیتے ہیں ،اساتذہ اور ائمہ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں بزرگان دین کے بارے میں نہایت ہلکے پن کااظہار کرتے ہیں اگر دونوں جہاں بھی ان کے ترازو کے پلڑے میں رکھ دیئے جائیں تو کچھ بار نہ پاسکیں حسد اور عناد ان کی فطرت اور خمیر بن چکاہے ،الغرض یہ ساری باتیں علم کے دائرے سے باہر ہیں علم تو ایسی نعمت ہے جس سے اس قسم کی تمام جاہلانہ باتیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں''۔
(کشف المحجوب ص١٠٠)
علماء کی تذلیل وتحقیرکرنا کیساہے ؟علماء سوء کی مذمت پڑھنے کے بعد ہم بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے بارے جوبات بات پر علماء کو تعن و تشنیع کرتے نہیں چوکتے اور معاذ اللہ کچھ تو ایسے ہیں جو علماء ِحق کو گالیاں بھی دیتے ہیں ان لوگوں کے لیے شریعت نے حکم ِکفر لگایا ہے اس موضوع پر ہم علماء ِ کرام کی کچھ تصریحات بیان کرتے ہی ۔
اعلٰحضرت فاضل ِبریلوی ص کا ایک فتویٰ حاضرِخدمت ہے جو انشاء اللہ اس عنوان کو کفایت کرے گا۔
''مسئلہ :کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم و فقیہ کو گالی دے یا حقارت کرے تو اس کے اوپر حکم کفر جاری ہو گا یا نہیں اور اکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں کو گالی دیتے اور حقارت اور غیبت کرتے ہیں ۔بینو ا توجروا
الجواب:غیبت تو جاہل کی بھی سو اصور مخصوصہ کے حرام قطعی و گنا ہ کبیرہ ہے قرآن عظیم میں اسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا اور حدیث میں آیا رسول اللہ ا فرماتے ہیں ایا کم و الغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا ان الرجل قدیزنی ویتوب فیتوب اللہ علیہ و ان صاحب ا لغیبۃ لایغفر لہ حتی یغفر لہ صاحبہ غیبت سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے کبھی ایسا ہوتاہے کہ زانی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اوس کی توبہ قبول فرمالیتاہے اور غیبت کرنے والے کی بخشش ہی نہ ہو گی ،جب تک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی ،رواہ ابن ابی الدنیافی ذم الغیبۃ و ابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبداللہ و ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہم یوہیں بلاوجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے ۔رسو ل اللہ افرماتے ہیںبحسب امری من الشران یحقر اخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و عرضہ و مالہ آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے خون آبرومال رواہ مسلم عن ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ اسی طرح کسی مسلمان جاہل کوبھی بے اذن شرع گالی دینا حرام قطعی ہے ۔رسول اللہ ا فرماتے ہیں سباب المسلم فسوق مسلمان کو گالی دینا گنا ہ کبیرہ ہے رواہ البخاری و مسلم والترمذی وا لنسائی وابن ماجہ وا لحاکم عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور فرماتے ہیں اسباب المسلم کا لمشرف علی الہلکۃ مسلمان کو گالی دینے والا اوس کی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑا چاہتاہے رواہ الامام احمد و البزاز عن عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہما بسند جید اور فرماتے ہیں ا من آذی مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذی اللہ جس نے کسی مسلمان کو ایذادی اوس نے مجھے ایذادی او رجس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ کو ایذادی رواہ الطبرانی فی الاوسط عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسند حسن جب عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیںتو علماء کرام کی شان تو ارفع وا علی ہے ۔حدیث میں ہے رسول اللہافرماتے ہیں لایستخف بحقہم الا منافق علماء کے حق کو ہلکا نہ جانے گامگر منافق رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں الا یستخف بحقہم الا منافق بین النفاق اون کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق رواہ ابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہمااورفرماتے ہیں الیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیںرواہ احمد وا لحاکم وا لطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر اگر عالم کو اس لئے براکہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اوسکی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق وفاجر ہے اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اوس کے کفر کا اندیشہ ہے ۔ خلاصہ میں ہے من ابغض عالما من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر منح الروض الازہر میں ہے الظاہر انہ یکفر الخ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم''
(فتاویٰ رضویہ قدیم ١٠/١٤٠)
مذکورہ بالا تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ عالم کی تحقیر و تذلیل کتنا بڑا گناہ ہے او ربسا اوقات یہ گناہ قصداً کرنے سے حد کفر تک پہنچ جاتاہے ،لہٰذا ہمیں بھی غور کر لینا چاہیے کہ کہیں ہم بھی اس کبیرہ گنا ہ میں ملوث تو نہیں ،کبھی ایسابھی ہو تا ہے کہ جب ہم دوستوں میں بیٹھے ہوتے ہیں تو اگر کوئی ہمارا دوست کسی عالم دین کی توہین کر تا ہے تو ہم بھی اس کی ہا ں میں ہا ں ملاتے چلے جاتے ہیں یاد رکھیے کفر یہ کلام پر ہاں کرنا کافر کرد یتا ہے۔
عالم دین سے قطع تعلقی کرنا
ہمارے بعض بد نصیب مسلمان بھائی ایسے بھی ہیں جو شیطان کے بہکاوے میں آ کر علماء سے لا تعلقی کااظہار کر بیٹھتے ہیںکیونکہ شیطان تو پہلے ہی سے اولاد آدم کا دشمن ہے اور اسے معلوم ہے کہ اگر عوامی طبقہ علماء کے قریب آگیاتو یہ بے راہ روی سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور مجھے اپنے مذموم مقصدمیں کامیابی نصیب نہیں ہوگی ۔ یادرکھیئے عالم دین سے محض اپنے ذاتی ونفسانی بغض کی وجہ سے لاتعلق ہونا بہت بڑے گناہوں کاباب کھولنے والا ہے ۔
اسی مسئلہ کے بارے اعلٰحضرت فاضل بریلوی صسے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
''مسئلہ ٥١:ایک عالم نے اپنے متعدد وعظوں میں سود خوری ،شراب فروشی ، شراب نوشی ، بیع لحم خنزیر ، اکل غیر مذبوح مرغ ،زناکاری ،لواطت واغلام کی حرمت قرآن و حدیث سے بیان کی اور میراث کے مسئلے میں محمد ن لاء (شریعت محمدی)کو چھوڑ کر ہندو لاء (ہندو دھرم)قبول کرنے کو کفر ِ صریح بتلایا جس جماعت میں یہ باتیں تھیں بجائے اس کے کہ ان باتوں کو ترک کردیتے اور توبہ واستغفار کرتے اور خدا ل و رسول ا کے حکم کے آگے سر جھکادیتے خلاف اس کے ضد اور نفسانیت میں آن کر اپنی جماعت کواکٹھا کر کے اتفاق کر لیا کہ جماعت کا کوئی فرد اپنے ہاں اس عالم کے وعظ کی مجلس منعقدنہ کر ے اور اگرکیا تو جماعت سے خارج کر دیا جائیگا ،آیا اس صورت میں شرعاًاس جماعت کا کیا حکم ہے اور دوسرے مسلمانوں کو شرعاً اس جماعت سے قطع تعلق کرناچاہیے یانہیں ؟بدلائل شرعیہ جواب لکھ کر عند اللہ ماجورہوں۔
الجواب:اس صورت میں جماعت سخت ظالم اور عذاب شدید کی اور اس آیت کریمہ کی مصداق ہے ،واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ جھنم اورجب اس سے کہاجائے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرئیے تو اسے گناہ،مزید ضد (اورطیش)پر آمادہ کرے اورابھارے ،پس (بد نصیب)کے لئے دوزخ ہی کافی ہے۔ (القرآن٢،٢٠٦)اگروہ لوگ توبہ نہ کریں تو مسلمانوں کو ان سے قطع تعلق چاہیے ورنہ بحکم احادیث کثیرہ وہ بھی ان کے ساتھ شریک عذاب ہونگے اوشک ان یعمھم اللہ بعقاب منہ (قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیںاس کے عذاب میں شامل اورشریک فرمائے)واللہ تعالیٰ اعلم''
(فتاویٰ رضویہ جدید، ٢٤/١٧٣،١٧٤)
عالِم دین کوہلکا جانناعالم دین کو ہلکاجاننے والے کے بارے میںسرکارِدوعالم اکی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں
المعجم الکبیر میں ہے :
''لایستخف بحقھم الامنافق''عالم کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق ۔
(المعجم الکبیر،حدیث٧٨١٩،٨/٢٣٨)
کنزالعمال میں ہے :
لایستخف بحقھم الامنافق بین النفاق رواہ ابو الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما'' ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق اسے ابو الشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری صسے روایت کیا۔
(کنزالعمال بحوالہ ابی الشیخ رقم الحدیث٤٣٨١١،١٦/٣٢)
مسند امام احمد بن حنبل صمیں ہے:
''لیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ رواہ احمد و الحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ''ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گامگر کھلا منافق اسے ابو الشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ص سے روایت کیا۔
(مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبادہ ابن صامت ٥/٣٢٣)
خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے :
''من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر''جو کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت رکھتا ہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے ۔
(خلاصۃ الفتاویٰ،کتاب الفاظ الکفر الفصل الثانی ٤/٣٨٨)
منح الروض میں ہے : ''الظاھر انہ یکفر'' ظاہر یہ ہے کہ وہ کافر ہو جائے گا۔
(منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی العلم والعلماء صفحہ١٧٣)
اپنے آپ کو عالم یا مولوی کہنا
اعلٰحضرت فاضل بریلوی ص ارشاد فرماتے ہیں:
''اپنے آپ کو بے ضرورت شرعی مولوی صاحب لکھنابھی گناہ و مخالف حکم قرآن عظیم ہے قال اللہ تعالیٰ ھواعلم بکم اذانشاکم من الارض واذانتم اجنۃ فی بطون امھٰتکم فلاتزکواانفسکم ھواعلم بمن اتقیٰ اللہ تمھیں خوب جانتا ہے جب اوس نے تمھیں زمین سے اوٹھان دی اورجب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں چھپے تھے تو اپنی جانوں کو آپ اچھا نہ کہو خداخوب جانتاہے جو پرہیز گار ہے اورفرماتا ہے الم ترالی الذین یزکون انفسھم بل اللہ یزکی من یشاء کیا تونے نہ دیکھا اون لوگوں کو جوآپ اپنی جان کو ستھرابتاتے ہیں بلکہ خدا ستھرا کرتا ہے جسے چاہے ۔حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں من قال انا عالم فھوجاھل جواپنے آپ کو عالم کہے وہ جاہل ہے رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما بسند حسن ہاں اگرکوئی شخص حقیقت میں عالم دین ہو اور لوگ اوس کے فضل سے ناواقف اور یہ اس سچی نیت سے کہ وہ آگاہ ہو کر فیض لیں ہدایت پائیں اپنا عالم ہونا ظاہر کرے تومضائقہ نہیں جیسے سیدنا یوسف علیٰ نبیناالکریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا تھا انی حفیظ علیم ۔''
(فتاویٰ رضویہ قدیم١٠/٩٥،٩٦ )