Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: ماہِ رمضان اور سخاوت Thu 12 Aug 2010 - 6:59 | |
| ماہِ رمضان اور سخاوت
میرے پیارے آقا اکے پیارے دیوانو! ماہِ رمضان المبارک کے آتے ہی لوگوں کے دلوں میں جذبۂ سخاوت بیدار ہو جاتا ہے ۔ غریب ہو یا امیر ہر کوئی سخاوت کے جذبے سے سرشار ہو جاتا ہے ۔ وقتِ افطار غریب سے غریب انسان بھی کچھ نہ کچھ مسجد میں لے کر آتا ہے اور افطار کرانے میں خوشی محسوس کرتا ہے ۔ اسی طرح سرمایہ دار بھی ہر طرف نعمت خداوندی کو تقسیم کر کے ثواب کمانے میں مصروف ہوتا ہے اور غریبوں کی جھولیوں کو بھرنے میں لگ جاتا ہے ۔ اللہ عزوجل ماہِ رمضان المبارک کی برکتیں ہر ایک پر بکھیرتا ہے ۔ دیکھئے جو نعمتیں غریب سال بھر چکھ نہیں سکتا وہ نعمتیں غریب کے دسترخوان پر نظر آتی ہیں ۔ آخر یہ برکتیں ماہِ رمضان المبارک میں کیوں کر میسر آتی ہیں ؟ وجہ ظاہر ہے کہ جب اللہ عزوجل کے فرمان پر اس کے بندوں میں سے ۸۰فیصد مسلم بندے عمل پیرا ہوں تو اللہ عزوجل کیوں کر برکتیں نازل نہ فرمائے گا؟ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں اگر امتِ مسلمہ سال بھر احکامِ خداوندی اور فرمانِ رسالت مآب ا کی بجا آوری میں لگ جائے تو سال بھر برکت ہی برکت نظر آئے گی۔ ان شاء اللہ بہت سارے اعمال بندے جزا و سزا سے بے خبر ہو کر یوں ہی کر گزرتے ہیں حالانکہ قرآنِ مقدس ان اعمال کی جزا و سزا کا تصور پیش کرتا ہے ۔ آئیے ہم قرآنِ مقدس کی روشنی میں اللہ کی راہ میں اس کی رضا کی خاطر خرچ کرنے کی فضیلت معلوم کریں تاکہ آج کے بعد جب اللہ کی رضا کی خاطر کوئی چیز خرچ کریں تو مولیٰ کا فرمان پیشِ نظر ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ‘‘ اے ایمان والو! اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو۔ انفاق کیا ہے اللہ عزوجل کی راہ میں جائز کمائی کو خرچ کرنے کو انفاق کہتے ہیں ،
انفاق کی دو قسمیں ہیں ۔ انفاقِ واجبہ، انفاقِ نافلہ۔
انفاقِ واجبہ اس میں زکوٰۃ، عُشْر، صدقۂ فطر اور دیگر ایسے صدقات شامل ہیں جن کا ادا کرنا صاحبِ نساب پر فرض یا واجب ہوتا ہے ۔
انفاقِ نافلہ اس میں صدقاتِ واجبہ کے علاوہ انفاق کی تمام جائز صورتیں شامل ہیں ۔
میرے پیارے آقا ا کے پیارے دیوانو! قرآن مقدس میں انفاق پر بے حد زور دیا گیا ہے اور انفاق کے فضائل مختلف انداز سے بیان کئے گئے نیز بے حساب فوائد کا ذکر بھی کیا گیا ہے تاکہ ایک بندۂ مومن انفاق کے ذریعہ مولیٰ کی رحمتوں کا حقدار بن سکے اور غرباء کی دعائیں لے کر اپنی تقدیر کو سنوار سکے ۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایمان والوں سے اپنی پاکیزہ کمائی میں دوسروں کو بھی شریک کرنے کا حکم دیا جا ر رہا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے یہ خیال ہر ایک کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے کہ کتنا دوسروں پر خرچ کیا جائے ، صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے دلوں میں بھی یہ خیال آیا اور انہوں نے بارگاہِ رسالت مآب ا میں دریافت کر ہی لیا جس کو قرآن مجید بیان کرتا ہے ۔ ’’یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ‘‘ تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ، تم فرماؤ جو فاضل بچے اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم دنیا اور آخرت کے کام سوچ کر کرو۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں انفاق سے متعلق کسی حد کا تعین نہیں کیا گیا بلکہ اپنی ضرورتوں میں جو کچھ زیادہ ہوا اسے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر خرچ کرنا ہے ۔ اب آپ سوچتے ہوں گے کہ بندہ محنت سے خود کمائے اور اسے دوسروں پر خرچ کرے آخر ایسا کیوں ؟ تو اچھی طرح سے یاد رکھیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں میں سے بعض بندوں کو بعض معاملات میں فوقیت عطا فرمائی ہے ۔ مثال کے طور پر علم کی وجہ سے کسی کو جاہل پر فوقیت دی۔ اب صاحبِ علم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے علم سے خود ہی استفادہ نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی جہالت کی تاریکی سے نکالنے کی کوشش کرے ۔ اسی طرح صاحبِ مال کو چاہئے کہ وہ محرومِ معیشت اور ضروریاتِ زندگی سے محروم لوگوں پر اپنی کمائی کو خرچ کرے بلکہ سفید پوش با عزت اپنی غربت و افلاس کو اپنی عزت میں چھپا رکھتے ہیں انہیں تلاش کر کے کہ ان وقار نفس مجروح نہ ہو اس طرح ان پر خرچ کرے تا کہ دل کی گہرائی سے نکلنے والی دعا بابِ اجابت سے ٹکرا کر دوزخ سے دوری کا سبب بن جائے ۔
موجودہ دور میں علاقائی عصبیت اور اقربا پروری کا زور و شور ہے ایسے میں اکثر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ انفاق کہاں سے شروع کیا جائے تو آئیے قرآنِ مقدس کی ایک دوسری آیت میں اس کی تفصیل پڑ ھتے ہیں ’’یسئلونک ماذا ینفقون قل ما انفقتم من خیر فللوالدین و الاقربین و الیتٰمیٰ و المسٰکین و ابن السبیل و ما تفعلوا من خیر فان اللہ بہ علیم‘‘ تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے اور جو بھلائی کرو بے شک اللہ اسے جانتا ہے ۔
میرے پیارے آقا ا کے پیارے دیوانو! مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے حضور ا سے انفاق سے متعلق سوال کئے جانے پر جواب دینے کا حکم فرمایا اور اس میں واضح فرما دیا گیا کہ جو بھی خرچ کرو گے نیکی میں شمار ہو گا۔ البتہ والدین اقربا یتیموں ، مسکینوں ، حاجت مندوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور تم جو کچھ بھی نیکی کرو وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں ۔
یاد رکھیں ! والدین، اہل و عیال وغیرہ پر افطاری اور سحری پر جو خرچ کیا جائے اس کا حساب تک مولیٰ نہیں لے گا۔ خرچ کے سلسلے میں والدین سب پر مقدم ہیں ۔ یادرکھیں ! یہ انفاق نافلہ سے متعلق ہے ۔ اقربا میں اگر غریب محتاج اور نادار ہوں تو ان کو تلاش کر کے دیا جائے کہ ان کا حق قرآن نے دوسرے ضرورت مندوں پر مقدم رکھا اسی طرح یتامیٰ و مساکین اور مسافر جس میں خاص طور پر وہ طلبہ جو حصولِ علم دین کی خاطر اپنا وطن عزیز اور والدین کی شفقتوں کو چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہوتے ہیں ان پر خرچ کیا جائے ۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ سب کچھ دے کر ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر بیٹھا جائے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں واضح لفظوں میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بہتر صدقہ وہی ہے جو ضرورت کے مطابق بچاکر کیا جائے یا غنائے نفس کے ساتھ کیا جائے ۔ کبھی کبھی بندہ یہ تصور کرتا ہے کہ میں جو صدقات دے رہا ہوں وہ ایک غریب کے اور مستحق کے ہاتھوں میں دے رہا ہوں لیکن اگر قرآن کی روشنی میں ہم دیکھیں تو کبھی یہ صدقات دستِ قدرت وصول کرتا نظر آتا ہے اور کبھی دستِ رسول ا اسے وصول کرتے ہیں ۔ ایک آیتِ کریمہ میں اس کی وضاحت قرآن مجید میں فرمائی گئی ’’الم یعلموا ان اللہ ہو یقبل التوبۃ عن عبادہ و یاخذ الصدقات و ان اللہ ہو التواب الرحیم و قل اعملوا فسیری اللہ عملکم و رسولہ و المؤمنون‘‘ کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور صدقے خود اپنے دستِ قدرت میں لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے اور تم فرماؤ کام کرو اب تمہارے کام دیکھے گا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو یہ بتایا کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ تم جو صدقات مستحقین کو دیتے ہو در حقیقت وہ مستحق کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ وہ اللہ عزوجل خود اپنے دستِ قدرت میں وصول کرتا ہے اور اس کے بندوں کے ساتھ کیا جانے والا ہمدردانہ سلوک اس کو اتنا محبوب ہے کہ اس انفاق کی بنیاد پر اللہ عزوجل خطاؤں کو معاف فرما تا ہے اور خرچ کرنے والے پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرماتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ خرچ کرنے والوں کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ مژدۂ جانفزا سناتا ہے کہ اے میرے غریب اور نادار بندوں کی خدمت کرنے والے ، ان کی ضرورتوں اور پریشانیوں کو محسوس کرنے والے کوئی تیرے اس عمل خیر کو دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو سُن تیرا مولیٰ، تیرے رسول اور مومنین عنقریب ضرور دیکھ لیں گے ۔ اندازہ لگائیے ضرورت مندوں کے درد کو محسوس کر کے ان کی پریشان زلفوں کو سنوارنے والا کسی کی نظر میں آئے یا نہ آئے اللہ، اس کے رسول کے نزدیک وہ صاحبِ قدر و منزلت ہوجاتا ہے ۔ سچ کہا ہے کسی شاعر نے
جو تیری نگاہ میں آ گیا وہ بڑ ی پناہ میں آ گیا
ایک مقام پر اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنوں سے صدقات وصول کرنے کا حکم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا’’خذ من اموالہم صدقۃ تطہرہم و تزکیہم بہا و صل علیہم ان صلوٰتک سکن لہم و اللہ سمیع علیم‘‘ اے محبوب ا ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کر دو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو بے شک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے ۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں صرف وصول کرنے کا حکم ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیا گیا بلکہ صدقات وصول کر کے اس کے ذریعہ ان کو پاک کرنے کے لئے بھی فرمایا اور قربان جائیے کہ اس کے آگے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے لئے خود اللہ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کے لئے فرمایا۔ یقینا ایک مومن کے لئے اس سے بڑ ھ کر سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے لئے دعا فرمادیں ۔ بلا شبہہ دعائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کے لئے سامانِ تسکین ہے ۔
آج پوری دنیا کا مسلمان سکون چاہتا ہے ، یقینا سکون، بے قرار امت کی ضرورتوں کی تکمیل اور حاجت مندوں کی حاجت برآری، مریضوں کی تیمار داری، غریبوں کی دستگیری، اقربا پروری اور معاشی بدحالی کی شکار امت کے غموں کے آنسوؤں کو پونچھ کر ان کے دل کو راحت پہنچاکر بھی دولتِ سکون سے مالا مال ہو سکتے ہیں ۔ ہم نے اپنے کانوں کو غریبوں کے نالوں کو سننے اور مجبوروں کی آہ اور بے سہاروں کی چینخ و پکار سننے سے بند کر لیا اور ساز و طرب کی آوازوں میں ایسے گم ہو گئے گویا یہی ہمارے لئے سامانِ تسکین ہے ۔ حاشا و کلا! ایسا ہو ہی نہیں سکتا بلکہ مجبوروں کی مدد نہ کرنا اور بھوکوں کی بھوک نہ مٹانا اور پریشان حال کے درد کو محسوس نہ کرنا یہ تو گناہ ہے ہی لیکن ایک ایسی آیت کے پڑ ھنے کے بعد آپ خود اندازہ لگا سکیں گے کہ بھوکوں کی بھوک کو دور کرنے کے لئے اگر جد و جہد نہ کی جائے تو انجام کتنا بھیانک ہو گا۔ اس ارشادِ ربانی کو پڑ ھو اور لرز جاؤ ’’خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلوہ ثم فی سلسلۃ ذرعہا سبعون ذراعا فاسلکوہ انہ کان لا یومن باللہ العظیم و لایحض علی طعام المسکین‘‘ اسے پکڑ و پھر اسے طوق ڈالو پھر اسے بھڑ کتی آگ میں دھنساؤ پھر ایسی زنجیر میں جس کا ناپ ستر ہاتھ ہے اسے پرو دو بے شک یہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا اور مسکین کو کھانا دینے کی زحمت نہ دیتا تھا۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دلانے کے سبب اور اللہ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے گلے میں طوق، ستر گز لمبی زنجیر اور آگ میں ڈالنے کا قیامت میں مولیٰ فرشتوں کو حکم دے گا۔ اس لئے یاد رکھیں ! خود بھی غریبوں کا خیال رکھیں اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دلاتے رہیں ۔ مذکورہ آیاتِ کریمہ کے ذکر اور ان کی وضاحت سے سخاوت کی ترغیب دلانا ہی مقصود ہے جو ماہِ رمضان المبارک میں بڑ ی آسانی کے ساتھ انجام دے کر اپنے گنا ہوں کو معاف کرا سکتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے تسکین کے حقدار بھی بن سکتے ہیں ۔
آئیے اب چند ارشاداتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پڑ ھتے ہیں اور ماہِ رمضان المبارک میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جود و سخا کے جلوے تصور کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔
کتنا خرچ کیا جائے
میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! آپ آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت پڑ ھ کر سوچتے ہوں گے کہ کتنا خرچ کیا جائے ؟ تو اس کا جواب ’’مما رزقنٰہم‘‘ میں موجود ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا اس میں سے خرچ کرو۔ رزق کا لغوی معنی ہے ’’النصیب و العطایا علی الحسی و المعنوی‘‘ حصہ اور بخشش چاہے حسی ہو یا معنوی۔ (ضیاء القرآن) یعنی کسی کو کچھ دینا وہ عطیہ نظر آتا ہو یا نظر نہ آئے ۔ میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! مال، اولاد، علم، معرفت سب ہی رزق ہیں ۔ اللہ کی رضا کے لئے مال دینا بھی انفاق اور اللہ کی رضا کے لئے اولاد وقف کر دینا بھی انفاق۔ مثلاً بچے کو دینی تعلیم دلانا، حافظِ قرآن بنانا، دعوت الی اللہ کے لئے روانہ کرنا، مخلوقِ خدا کی خدمت پر آمادہ کرنا اور خدمت کرنا۔ المختصر ہر جائز چیز کو اللہ اوراس کے رسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لئے خرچ کرنا خواہ وہ مال کی شکل میں ہو یا اولاد کی شکل میں یا علم کی شکل میں ہو وہ انفاق فی سبیل اللہ میں شامل ہے ۔ جیسا کہ خود رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کل معروف صدقۃ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نیک کام صدقہ ہے ۔ (بخاری و مسلم)
ایک اور مقام پر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق کی طرف رغبت دلاتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر فرمایا ارشاد فرماتے ہیں ’’حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا بے حساب خرچ کرو اللہ تمہیں بے حساب عطا فرمائے گا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز نہ کرو ورنہ اللہ تم پر روک لگا دے گا، جتنی استطاعت ہو صدقہ کرو‘‘ (بخاری و مسلم) ایک اور مقام پر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابنِ آدم خرچ کرو تم پر فراخی کی جائے گی۔ (بخاری و مسلم) سخاوت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا اسے پڑ ھئے اور اپنے ہاتھ سخاوت کے لئے کھول دیجئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے سخی اللہ سے قریب، جنت سے قریب اور لوگوں سے قریب ہے اور دوزخ سے دورہے جب کہ بخیل اللہ سے دور، جنت سے دور اور لوگوں سے دور ہے اور سخی جاہل اللہ کو عابد بخیل سے زیادہ محبوب ہے ۔ (ترمذی)
ایک اور ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑ ھئے اور سخاوت کے فائدے سے مالا مال ہو جائیے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا آگ سے بچو! خواہ کھجور کا ایک ٹکڑ ا بھی خرچ کر کے ۔
یعنی اگر کسی کے پاس راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے زیادہ مال نہ بھی ہو صرف ایک کھجور کا ٹکڑ ا بھی ہو تو اللہ کی راہ میں دینے کو حقیر نہ سمجھے بلکہ اتنا بھی خرچ کر سکتا ہو تو کرے اللہ رب العزت کھجور کے اس ٹکڑ ے کے خرچ کرنے کے عوض اس کو آگ سے بچا لے گا۔ اب آئیے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جود و سخا کے انداز کا مطالعہ کریں ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جود و سخا کا انداز
فیاضی اور سخاوت آپ کا امتیازی وصف ہے جو کچھ آتا راہِ خدا میں قربان فرما دیتے یہاں تک کہ قرآنِ کریم نے فرمایا ’’ولا تبسطہا کل البسط فتقعد ملوما محسورا‘‘ اور نہ ہاتھ پورا کھول دیں کہ پھر بیٹھے رہیں ملامت کئے ہوئے ، تھکے ہوئے ۔
دریائے سخاوت کی تلاطم خیزی کا یہ حال تھا کہ ’’ما سئل النبی ا عن شیء قط فقال لا‘‘ جب کبھی بھی کوئی سوال کیا گیا حضور ا نے ’نہیں ‘ نہیں فرمایا۔ (بخاری شریف) اسی حدیث پاک کی ترجمانی کرتے ہوئے عارف باللہ عاشقِ رسول سیدنا امام احمد رضا فرماتے ہیں ۔
مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے بخیل نہیں پاؤگے ۔ (بخاری شریف)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ سے دو کہساروں کے درمیان بھری ہوئی بے شمار بکریاں طلب کی پس آپ نے اسے عطا کر دیا۔ وہ آدمی اپنی قوم میں آیا اور پکار کر کہنے لگا ’’فواللہ ان محمدا لیعطی عطاء ما یخاف الفقر‘‘ مسلمان ہو جاؤ! خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطا کرتے ہیں کہ فقیری کا خوف ہی نہیں رکھتے ۔ (بخاری و مسلم)
حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک خاتون آپ کے لئے بڑ ی خوبصورت چادر لے کر آئی آپ نے قبول فرمالیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے ایک آدمی کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے پہنا دیں ۔ فرمایا ’’اچھا‘‘ پھر آپ اٹھ کر تشریف لے گئے تو احباب نے اس آدمی کو ملامت کی کہ تم نے ٹھیک نہیں کیا، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر کی ضرورت تھی اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ کبھی زبانِ نبوت پر انکار کا لفظ نہیں آیا۔ وہ صحابی بولے میں چادر کی برکت کا امید وار ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسی میں کفن دیا جاؤں کیوں کہ یہ آپ کے جسم اطہر سے منسوب ہو چکی ہے ۔ (بخاری کتاب الادب)
نہ رفت ’’لا‘‘ بزبانِ مبارکش ہرگز مگر باشہد ان لا الٰہ الا اللہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو فائدہ دینے میں چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ فیاض تھے ۔ (متفق علیہ) یہ سلسلۂ فیض جاری ہے اور جاری رہے گا۔ خالقِ مطلق عزوجل نے ارشاد فرمایا ’’واما السائل فلا تنہر‘‘ اور کسی سوالی کو جھڑ کنا نہیں ۔ آپ کی ساری عمر اس فرمانِ عالی شان کی مظہر ہو کر رہ گئی جس کو دیا دنیا و ما فیہا سے بے نیاز کر دیا۔ جس کو دنیا دی زمانے کا تاجدار بنا دیا، جس کو دین دیا زمانے کا غوثِ اعظم، مجدد اعظم، ملجأ بے کساں ، خواجۂ خواجگاں اور اعلیٰ حضرت بنا دیا۔ دو جہاں میرے آقا کے در پر مزے لوٹ رہے ہیں ۔ سچ ہے
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا دئے ہیں ، دربے بہا دئے ہیں
مجال ہے جو اس دریائے سخاوت کی جولانیوں میں کمی واقع ہو جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو امیدوں ، آرزوؤں اور امنگوں سے بھی فزوں تر نوازتے ہیں ۔
آگے رہی عطا وہ بقدر طلب تو کیا عادت یہاں امید سے بھی بیشتر کی ہے مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو سائل ہوں سائلوں کو خوشی ’لا نہر‘ کی ہے
آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ سخاوت کا کتنا بڑ ا فائدہ ہے اور اللہ عزوجل اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سخاوت کی کیا اہمیت ہے ۔ یہ تو عام مہینوں میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اب ماہِ رمضان المبارک میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم معمول کیا تھا اور سخاوت کا دریا کتنا جوش مارتا تھا ملاحظہ فرمائیں ۔
ماہِ رمضان المبارک کے ناموں میں ایک نام ’’شہر المواسات‘‘ بھی ہے ۔ یعنی غمخواری کا مہینہ۔ جیسا کہ خطبہ نبویہ امیں گزرا۔ غریبوں کی امداد و اعانت ماہِ رمضان کے کاموں میں ایک نہایت ہی ضروری کام ہے جیسا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا عادت کریمہ اور ارشادِ مبارکہ سے واضح ہے ۔ قاسمِ نعمت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے فرمایا گیا کہ جب رمضان کا مہینہ آ جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر قیدی کو آزاد فرما دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرما دیتے تھے ۔ (مشکوٰۃ)
ایک اور مقام ا رحمتِ عالم ارواحنا فداہ ا کے حوالے سے فرمایا گیا ’’کان رسول اللہ ا اجود الناس بالخیر و کان اجود ما یکون فی رمضان و کان جبریل یلقاہ کل لیلۃ فی رمضان یعرض علیہ النبی ا القرآن فاذا لقیہ کان اجود بالخیر من الریح المرسلۃ‘‘ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت رمضان المبارک میں تمام ایام سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ رمضان میں ہر رات کو حضرت جبریل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے تھے اور آپ ا ان کو قرآن شریف پڑ ھاتے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل ملاقات کرتے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے جو تازگی لاتی ہے ۔ میرے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو ذہن میں رکھتے ہوئے رمضان المبارک میں بھر پور سخاوت کا مظاہرہ کرو اور خبر دار! غریبوں اور ضرورت مندوں پر مال خرچ کر کے ان پر احسان نہ جتاؤ ورنہ یاد رکھو سب کچھ باطل ہو جائے گا، ضائع ہو جائے گا۔ خود اللہ عزوجل نے قرآنِ مقدس میں ایمان والوں کو تاکید فرمائی ’’یٰایہا الذین اٰمنوا لا تبطلوا صدقٰتکم بالمن و الاذیٰ کالذی ینفق مالہ ریاء الناس و لا یومن باللہ و الیوم الاٰخر‘‘ اے ایمان والو! نہ ضائع کرو اپنی خیراتیں احسان جتا کر اور تکلیف پہنچاکر اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! غریبوں اور مستحقوں کی مدد کر کے کچھ سرمایہ دار اُن پر احسان کا اتبا بڑ ا بوجھ رکھ دیتے ہیں کہ وہ بے چارہ اٹھ ہی نہ سکے ۔ قرآن صاحبِ ایمان کو آگاہ فرماتا ہے کہ احسان جتانا یہ ان لوگوں کی عادت ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تم تو مومن ہو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو پھر بندوں پر احسان جتا کر ان کی دل آزاری کرنا یہ تمہارا کام نہیں ہے اور اگر تم نے احسان جتایا تو تمہارا خیرات و صدقات کرنا ضائع اور باطل ٹھہرے گا اس لئے کہ صدقات کی قبولیت کا دارومدار یہ ہے کہ جس کو صدقہ دیا جائے اس پر نہ تو احسان جتایا جائے اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف پہنچائی جائے ۔
یہ تو ظاہری شرط ہے اور باطنی شرط یہ ہے کہ صدقے کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو کہ صدقہ صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لئے ہو نہ کہ اپنی دولت مندی اور سخاوت کے چرچے کے لئے اور نہ بڑ ائی کے لئے اور نہ غریبوں کو غلام بنانے کے لئے ۔ آخر احسان جتانا اللہ کو اس حد تک ناپسند کیوں ہے کہ صدقے کا ثواب ضائع فرما دیتا ہے تو اس کی وجہ اچھی طرح سمجھو تاکہ اپنی نیت ہم درست کر سکیں ۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کی مدد کرتا ہے تو احسان جتا کر اس غلط خیال کا اظہار کرتا ہے کہ وہی اس کمزور کا سہارا بنا۔ اگر وہ مصیبت کے وقت یا ضرورت کے وقت مدد نہ کرتا تو اس کی پریشانی دور نہ ہوتی جب کہ اس کو ذہن میں یہ بات رکھنی چاہئے کہ اللہ عزوجل کا اس پربہت بڑ ا فضل و احسان ہے کہ اس کمزور بندے کی خدمت و مدد کا موقع اسے عطا فرمایا ورنہ وہ جس سے چاہتا مدد کروا دیتا۔ اس لئے کہ حقیقی مددگار و کارساز تو اللہ ہی ہے بندہ تو محتاجِ محض ہے ۔ اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے لینے والا بنانے کے بجائے دینے والا بنایا۔ کمزور پر احسان نہ جتانا چاہئے بلکہ حضور رحمتِ عالم ا کی حدیث پاک سے تو امت کے غربا و کمزور لوگوں کا امیروں پر احسان نظر آتا ہے ۔ قاسمِ نعمت ا کی حدیث ملاحظہ ہو:۔ ۔ ۔ حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خیال کیا کہ انہیں (دولت کی وجہ سے ) دوسروں پر فضیلت ہے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے کمزور لوگوں کی وجہ سے مدد کئے جاتے اور روزی دئے جاتے ہو۔
ایک اور مقام پر رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے کمزور لوگوں کے مقام کو کتنا بلند کیا۔ اللہ اکبر۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ’’ابغونی فی ضعفائکم فانما ترزقون او تنصرون بضعفائکم‘‘ مجھے اپنے کمزوروں میں تلاش کیا کرو، کیوں کہ تم اپنے ضعیفوں کے سبب روزی دئے جاتے ہو یا فرمایا تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے مدد کئے جاتے ہو۔ (ابو داؤد) بندہ کسی بندے پر احسان کرتا ہے تو اس گمان و امید کے ساتھ کہ سائل مجبور و بے بس ہے اور محتاج و ضرورت مند ہے اگر آج میں مدد نہ کروں گا تو اس کے مسائل حل نہ ہوں گے اور اس کے حاشیۂ خیال میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ کل کوئی کام پڑ ا تو میں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکوں گا۔ بالفرض ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر دی گئی اور اللہ عزوجل نے اس کو ترقی و عروج اور سربلندی عطا فرمادی اور دولت سے مالا مال کر دیا تو اب محسن اس کو اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ تجھے معلوم ہے کہ تو کیا تھا؟ اگر اس وقت میں تیری مدد نہ کرتا تو آج تو اس مقام تک نہ پہنچ سکتا لیکن احسان جتانے والا بھول جاتا ہے کہ احسان جتانے والا اللہ عزوجل اور اس کے پیارے محبوب ا کے نزدیک کتنا ناپسند ہے ۔ ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پڑ ھئے اور توبہ کیجئے کہ آئندہ کبھی کسی پر احسان نہ جتائیں گے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا یدخل الجنۃ منان و لا عاق و لا مدمن خمر‘‘ احسان جتانے والا، والدین کا نافرمان اور ہمیشہ شراب پینے والا جنت میں داخل نہیں ہوں گے ۔
میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! آج تک ہم یہ تو جانتے تھے کہ شراب ایک نجس اور ناپاک چیز ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمُّ الخبائث (برائیوں کی جڑ ) فرمایا اور والدین کے حوالے سے بھی ہم جانتے ہیں کہ ان کو اُف کہنا بھی سخت جرم ہے لیکن احسان جتانے کو ہم گناہ نہیں سمجھتے ہیں اور اس گناہ کے مرتکب ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ مذکورہ حدیث شریف نے واضح کر دیا کہ جس طرح والدین کا نافرمان اور شرابی کے لئے جنت کا داخلہ ممنوع ہے اسی طرح احسان جتانے والے کے لئے بھی جنت کا داخلہ ممنوع ہے ۔ اللہ بچائے اور ہم سب کی غلطیوں کو معاف فرمائے ۔
ایک اور حدیث شریف پڑ ھئے اور احسان جتانا کتنا بڑ ا گناہ ہے اندازہ لگایئے ۔حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ثلٰثۃ لا یکلمہم اللہ یوم القیٰمۃ المنان الذی لا یعطی شیئا الا منہ وال منفق سلعتہ بالحلف الفاجر والمسبل ازارہ‘‘ تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا۔ ایک وہ شخص جو ہر نیکی کا احسان جتلاتا ہے ، دوسرا وہ شخص جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرتا ہے ، تیسرا وہ شخص جو تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑ وں کو لٹکا کر چلتا ہے ۔ میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دیوانو! احسان جتانے کے بجائے اللہ عزوجل کا شکر ادا کریں کہ پروردگار نے اپنے بندوں کی خدمت کا موقع عطا فرما کر ثواب حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ یاد رکھیں ! کہ ماہِ رمضان المبارک میں خوب سے خوب غرباء یتیموں اور مسکینوں کی خدمت کریں لیکن سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں میں مستحق تلاش کریں اور ان کی خدمت کر کے دوہرے اجر کے حقدار بنیں ۔ پھر غربا، یتامیٰ مساکین، دینی ادارے وغیرہ میں مدد کر کے ماہِ رمضان المبارک میں رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کریں ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل جذبۂ سخاوت مع الاخلاص عطا فرمائے اور ماہِ رمضان کی برکتوں سے مالا مال فرما کر دوزخ سے بچائے ۔ آمین۔
| |
|
muhammad khurshid ali Moderator
Posts : 371 Join date : 05.12.2009 Age : 42 Location : Rawalpindi
| Subject: Re: ماہِ رمضان اور سخاوت Thu 12 Aug 2010 - 8:24 | |
| | |
|