Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق Fri 4 Jun 2010 - 5:47 | |
| خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ اول جانشین رسول امیر المومنین سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کا نام عبداللہ لقب صدیق اور ابو بکر آپ کی کنیت ہے۔ آپ کے والد کا نام ابو قحافہ اور آپ کی والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی ہے۔ آپ حضور سے تقریباً 2 سال چھوٹے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں حضور کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کے فضائل اور کمالات انبیاء کرام کے بعد تمام اگلے اور پچھلے انسانوں میں سب سے اعلٰی ہیں۔ آپ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ زمانہ جاہلیت میں بھی قوم میں معزز تھے۔ آپ نے زمانہ جاہلیت میں نہ کبھی بُت پرستی کی اور نہ ہی کبھی شراب پی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ تمام اسلامی جہادوں میں شامل رہے اور زندگی کے ہر موڑ پر آپ شہنشاہ کونین کے وزیر اور مشیر بن کر آپ کے رفیق و جان نثار رہے۔ ہجرت کے موقع پر آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیق سفر اور یارِ غار بھی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق کی شانِ اقدس میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں۔ آپ کا ایمان تمام صحابہ میں سب سے کامل تھا۔ آپ کو بچپن ہی سے بُت پرستی سے نفرت تھی۔ آپ کے بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے والد ابو قحافہ (جو بعد میں اسلام لے آئے تھے) آپ کو بُت خانے لے گئے اور بُتوں کو دیکھ کر کہنے لگے بیٹا یہ تمہارے خدا ہیں انہیں سجدہ کرو۔ یہ کہہ کر ان کے والد بُت خانے سے باہر چلے گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق بُت کے قریب گئے اور بُت کو مخاطب کرکے کہنے لگے میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے۔ بُت کچھ نہ بولا۔ پھر کہا میں برہنہ ہوں مجھے کپڑے دے۔ بُت خاموش رہا۔ پھر آپ نے ایک پتھر اٹھایا اور بُت سے کہا میں تجھے پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ بُت چپ رہا۔ آخر آپ نے زور سے اسے پتھر مارا اور وہ بُت اوندھے منہ نیچے آ گرا۔ اسی وقت آپ کے والد بھی بُت خانے میں آ گئے۔ انہوں نے جب بُت کو اوندھے منہ گرے ہوئے دیکھا تو بیٹے سے کہا یہ تم نے کیا کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا وہی کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے والد غصے میں انہیں گھر لے آئے اور ان کی والدہ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق کی والدہ اپنے شوہر سے کہا اس بچے کو کچھ نہ کہو کیونکہ جس رات یہ بچہ ہوا اس وقت میرے پاس کوئی بھی موجود نہ تھا۔ میں نے ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے۔ اے اللہ کی بندی ! تجھے خوشخبری ہو اس بچے کی جس کا نام آسمانوں پر صدیق ہے اور جو محمد کا یار اور رفیق ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام کے بعد حضرت ابو بکر صدیق تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں۔ حضور اکرم کا ارشاد مبارک ہے کہ “حضرت ابو بکر صدیق لوگوں میں سب سے بہتر ہیں علاوہ اس کے کہ وہ نبی نہیں۔“ ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروق نے ارشاد فرمایا کہ حضور اکرم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اُمت میں سب سے افضل ہیں۔ حضرت علی فرماتے ہیں اس اُمت میں رسول اکرم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابو بکر اور عُمر ہیں۔ (تایخ الخلفاء) حضرت ابو بکر صدیق نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ حضور اکرم سے بے انتہا محبت فرماتے تھے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ لوگ اپنے ایمان کو چھپاتے تھے مگر حضرت ابو بکر صدیق اپنے ایمان کو علی الاعلان ظاہر فرماتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 25) حضرت ابو سعید خذری فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم سے سنا کہ قیامت کے دن تین کُرسیاں خالص سونے کی بنا کر رکھی جائیں گی اور ان کی شعاعوں سے لوگوں کی نگاہیں چندھیا جائیں گی۔ ایک کرسی پر حضرت ابراہیم جلوہ فرما ہوں گے دوسری میں بیٹھوں گا اور ایک خالی رہے گی۔ حضرت ابو بکر صدیق کو لایا جائے گا اور اس پر بٹھائیں گے۔ ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ “آج صدیق اللہ کے حبیب اور خلیل کے ساتھ بیٹھا ہے۔“ (شرف النبی امام ابو سعید نیشاپوری صفحہ 279) سبحان اللہ ! روزِ محشر بھی حضرت ابو بکر صدیق کی عظمت اور شان و شوکت کے پھریرے لہرا رہے ہوں گے۔ لوگ ان کے مقام و مرتبے کو دیکھ کر رشک کر رہے ہوں۔ حورانِ جنت ان کی عظمت کے ترانے گا رہی ہوں گی۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا اے ابو بکر سن لو میری اُمت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہوگے۔ (ابوداؤد) ترمذی شریف میں ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے بھی میرے ساتھ احسان کیا تھا میں نے ہر ایک کا احسان اتار دیا علاوہ ابوبکر کے۔ انہوں نے میرے ساتھ ایسا احسان کیا ہے جس کا بدلہ قیامت کے دن ان کو اللہ تعالٰی ہی عطا فرمائے گا۔ (ترمذی شریف) مسلمانو ! حضرت ابو صدیق کا مقام تمام صحابہ میں سب سے افضل ہے کوئی صحابی ان سے بڑھ کر فضیلت والا نہیں۔ یوں تو آپ کے فضائل بے شمار ہیں جن کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں مگر چار خوبیاں آپ میں ایسی ہیں جو کسی بھی صحابی میں نہیں۔ حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کو چار ایسی خوبیوں سے سرفراز فرمایا جن سے کسی کو سرفراز نہیں کیا۔ اول آپ کا نام صدیق رکھا اور کسی دوسرے کا نام صدیق نہیں۔ دوئم آپ حضور اکرم کے ساتھ غارِ ثور میں رہے۔ سوئم آپ حضور اکرم کی ہجرت میں رفیقِ سفر رہے۔ چہارم حضور سرور کونین حضرت محمد نے آپ کو حکم دیا کہ آپ صحابہ کرام کو نماز پڑھائیں تاکہ دوسرے لوگوں کے آپ امام اور وہ آپ کے متقدی بنیں۔
حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت
حضور اکرم کے وصال کے بعد مسلمانوں کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ مسلمانوں کا خلیفہ کسے بنایا جائے۔ بیہقی شریف میں ہے کہ خلافت کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے صحابہ کرام حضرت سعد بن عبادہ کے دولت خانے پر جمع ہوئے اور متفقہ طور پر حضرت ابو بکر صدیق کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کردیا۔ تمام مہاجر و انصار صحابہ نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اس موقع پر منبر پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کے مجمع پر نظر ڈالی تو اس مجمع میں حضور اکرم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر اور چچازاد بھائی حضرت علی نہیں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے ان دونوں صحابہ کو بلوایا اور آپ نے فرمایا کہ آپ حضور کے خاص صحابیوں میں سے ہیں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ مسلمانوں میں اختلاف پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ سُن کر حضرت زبیر نے کہا اے خلیفہء رسل آپ ہرگز فکر نہ کریں اور آپ نے حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت کرلی، حضرت علی نے بھی یہی جواب دیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ (تاریخ الخلفاء) مسلمانو ! سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کی 2 سال 3ماہ تک خلافت رہی۔ آپ نے اپنے دورِ خلافت میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی۔ آپ کا دور اسلامی تاریخ کا سُنہری دور تھا۔ آپ نے اپنے منصب کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا۔ حضور کے وصال کے بعد سے ہی اسلام دشمن یہود و نصارٰی اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح مسلمانوں کا شیرزاہ بکھر جائے۔ وہ اس تاک میں لگے رہے کہ کوئی ایسی کمزوری ہاتھ لگے جو مسلمانوں میں اختلاف کا سبب بن جائے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق کے وصال کے بعد اسلام دشمن قوتوں نے اہلبیت اور حضرت ابوبکر صدیق کے درمیان نفرت پیدا کرنا چاہی اور یہ الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں حضور اکرم کے ترکہ میں چھوڑے ہوئے باغ فدک کو غصب کرلیا اور حضور کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرہ کو نہیں دیا۔ اسلام دشمن قوتوں کا یہ اعتراض مسلمانوں میں انتشار برپا کرنے کے لئے ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ خاتونِ جنّت حضرت بی بی فاطمہ دنیا کے مال و اسباب کو حقیر سمجھتی تھیں۔ اور دنیا کے اسباب کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی۔ وہ تو اپنا سب کچھ راہِ خدا میں لٹا دینے والی تھیں۔ باغ فدک سے متعلق اسلام دشمن قوتوں کے اعتراض کا جواب یہاں صرف اس لئے دیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو گُمراہی سے بچایا جا سکے۔ اسلام دشمن قوتوں کے اس اعتراض کی روشنی میں پہلے یہ جاننا ہوگا کہ “باغ فدک“ کیا ہے تاکہ اس اعتراض کے صحیح اور غلط کا اندازہ ہوسکے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر خیبر کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں کا نام فدک ہے اس گاؤں پر یہودیوں کا قبضہ تھا۔ حضور اکرم خیبر فتح کرنے کے بعد جب لشکر اسلام کے ہمراہ واپس آ رہے تھے تو راستے میں اہل فدک کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے حضور نے محیصہ بن مسعود انصاری صحابی کو تبلیغ کے لئے بھیجا۔ یہودیوں نے صُلح کے طور پر فدک کی آدھی زمین مسلمانوں کو دے دی اس وقت یہ باغ اسلامی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ یہ باغ کھجور کی پیداوار، ٹھنڈے پانی کے چشمے اور اناج وغیرہ کے لئے مشہور تھا۔ حضور اکرم اس کی آمدنی اہل بیت اور مسافروں پر خرچ کرتے ایک حصّہ ازواج مطہرات کے لئے سال میں استعمال کیلئے دیتے اور جو رقم بچ جاتی اسے غریب و ناداروں میں تقسیم فرما دیتے۔ مسلمانو ! بعض اسلام دشمن قوتیں علم سے نا آشنا مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دورِ خلافت میں باغ فدک پر قبضہ کرلیا اور اس طرح حضور اکرم کی میراث کو ان کے وارث اہل بیت کو نہیں دیا۔ حضور کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ نے اپنے والد مکرم کی میراث کا مطالبہ نہیں کیا اور کہنے لگیں کہ فدک تو ہمارا ہے رسول اللہ ہمیں دے کر گئے ہیں لیکن حضرت ابو بکر صدیق نے فدک دینے سے منع کردیا۔ اس طرح خاتونِ جنّت بی بی فاطمہ ان سے شدید ناراض ہوئیں اور جیتے جی ان سے گفتگو نہیں کی اور جب ان کے انتقال کا وقت آیا تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ میرے جنازے میں ابو بکر کو شریک نہ کیا جائے۔ اس طرح ابو بکر نے حضور کی لاڈلی بیٹی کو ناراض کیا اور ان کو اذیّت دی حضور کا تو یہ فرمان ہے کہ فاطمہ کی اذیّت سے مجھے بھی اذیت ہوتی ہے۔ لٰہذا ابو بکر نے بی بی فاطمہ کو ہی ناراض نہیں کیا بلکہ پیغمبر اسلام کو بھی ناراض کر دیا۔ یہ وہ اعتراض ہے جسے اسلام دشمن قوتوں نے اٹھایا تھا جسے آج بھی ان کے آلہ کار اٹھاتے ہیں اور بھولے بھالے مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یاد رکھئے ! انبیاء کرام کی وراثت درہم و دینار اور دنیا کی جائیداد ہرگز نہیں ہوتی بلکہ ان کی میراث شریعت کا علم ہے۔ انبیاء دنیا میں نہ کوئی جائداد چھوڑتے ہیں اور نہ اس کا کسی کو اپنا وارث بناتے ہیں۔ جو کچھ بھی وہ دنیا میں چھوڑتے ہیں سب صدقہ کر جاتے ہیں حضور اکرم نے ارشاد فرمایا۔ ہم گروہ انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہے۔ (ملاحظہ کیجئے مسلم شریف، بخاری شریف، مشکوٰۃ صفحہ 550) حضور اکرم کے انتقال کے بعد حضور کی ازواج مطہرات نے چاہا کہ حضرت عثمان غنی کے ذریعے حضور کے مال سے اپنا حصہ تقسیم کروالیں تو اس موقع پر اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا “کیا حضور اکرم نے یہ نہیں فرمایا ہم کسی کو اپنے مال کا وارث نہیں بناتے ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے۔ (مسلم شریف جلد دوم صفحہ 91) معلوم ہوا کہ حضور اکرم کا چھوڑا ہوا مال اہل خانہ کے لئے جائز نہیں کیونکہ وہ مال صدقہ ہے۔ اگر وہ مال جائز ہوتا تو جب حضرت علی کا دورِ خلافت آیا پھر اس کے بعد حضرت امام حسن کا دروِ خلافت آیا تو باغ فدک ان کے اختیار میں بھی رہا مگر ان میں سے کسی نے بھی حضورِ اکرم کی ازواجِ مطہرات یا حضور کے چچا حضرت عبّاس اور ان کی اولاد کو باغ فدک میں سے حصّہ نہیں دیا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ نبی کے ترکہ میں وراثت نہیں ہوتی اور اہل بیت کے لئے اس کا حصّہ لینا جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت بی بی فاطمہ کو باغِ فدک نہیں دیا۔ کیونکہ ان کے لئے وہ جائز نہیں۔ لٰہذا جو لوگ فدک کے واقعہ کو آڑ بنا کر سیدنا حضرت ابو بکر کو غاصب کہتے ہیں وہ خود غاصب جھوٹے اور صحابی کی شان میں توہین کرنے والے ہیں لٰہذا مسلمانوں کو ایسے باطل اور غلط نظریات رکھنے والے گمراہوں سے دُور رہنا چاہئیے۔ مسلمانو ! علماء فرماتے ہیں کہ حضرت بی بی فاطمہ نے باغ فدک کا جب حضرت ابو بکر صدیق سے مطالبہ کیا تو اس موقع پر سیدنا حضرت ابو بکر صدیق نے حضورِ اکرم کا ایک ارشاد بی بی فاطمہ کو سنایا۔ وہ ارشاد کیا ہے۔ آئیے حضرت امام بخاری سے اس حقیقت کو سنئیے۔ امام بخاری، بخاری شریف میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ۔ حضرت فاطمہ نے حضرت ابو بکر صدیق کے پاس ایک آدمی بھیجا اور حضور کی میراث کا مطالبہ کیا تو جواب میں حضرت ابو بکر صدیق نے کہا اللہ تعالٰی کے رسول حضرت محمد نے فرمایا۔ ہماری مالی وراثت نہیں ہوتی جو مال ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بخدا میں حضور کے صدقات میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا۔ جس طرح وہ عہد نبوت میں تھے ویسے ہی رہیں گے اور میں ان میں ایسا ہی کروں گا جس طرح ان میں حضور کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابو بکر صدیق مذید فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے کہیں زیادہ یہ محبوب ہے کہ میں اللہ تعالٰی کے پیارے رسول حضرت محمد کے رشتے داروں کے ساتھ حُسن سلوک کروں۔ (بخاری شریف جلد اوّل صفحہ 526) مسلمانو ! سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کے مذکور بالا ارشاد پر غور فرمائیے اور ذرا بتائیے کہ حضرت بی بی فاطمہ کے باغ فدک کے مطالبہ پر حضرت ابو بکر صدیق نے جو جواب دیا کیا وہ قابل اعتراض ہے کیا اس جواب میں بے ادبی کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ آپ ذرا اس بات پر بھی غور کیجئے کہ حضرت فاطمہ نے باغ فدک کا مطالبہ کس حیثیت سے کیا۔ اگر کوئی یہ کہے یہ مطالبہ حضور کے انتقال کے بعد بحیثیت وراثت کے کیا تھا تو یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ وراثت تو مُردے کی تقسیم ہوتی ہے۔ کیا حضرت فاطمہ نعوذ باللہ حضور کو مُردہ سمجھتی تھیں ؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ انبیاء بعد انتقال بھی زندہ ہوتے ہیں۔ یاد رکھئے ! ذاتی جائیداد وہ ہے جو کسی کو ورثے میں ملے یا جس نے دن رات محنت مزدوری کرکے اس جائیداد کو خریدا ہو۔ باغ فدک حضورِ اکرم کو نہ تو ورثے میں ملا اور نہ ہی آپ نے مال و دولت جمع کرلے اسے خریدا۔ آپ نے دنیوی دولت جمع نہیں کی بلکہ علم کی دولت لے کر آئے اور علمی وراثت عطا فرما کر دنیا سے تشریف لے گئے۔ علامہ واقدی فرماتے ہیں جب حضرت ابو بکر صدیق کا وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے چند صحابہ کو طلب فرمایا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ عمر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف عرض کرنے لگے میرے خیال میں عمر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جتنا کہ آپ ان کے بارے میں خیال فرماتے ہیں۔ پھر امیر المؤمنین نے حضرت عثمان غنی سے رائے طلب کی۔ حضرت عثمان غنی نے جواب دیا کہ عمر کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا کوئی مثل نہیں۔ پھر آپ نے حضرت سعید بن زید، اسد بن خضیر اور دیگر انصار و مہاجرین صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کو طلب فرمایا اور ان کی رائیں طلب کیں جواب ملا کہ آپ کے بعد حضرت عمر سب سے افضل ہیں اور وہ اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں اس کے بعد کچھ اور صحابہ کرام بھی آئے ان سے بھی رائے لی پھر اس کے بعد ایک وصیّت نامہ تحریر فرمایا۔ مسلمانو ! اپنے بعد میں نے تمہارے اوپر عُمر بن خطاب کو خلیفہ منتخب کیا ہے ان کا حکم ماننا اور فرمانبرداری کرنا۔ پھر اس وصیّت نامہ کو مہر بند کرکے حضرت عثمان غنی کے سُپرد کر دیا جسے وہ لے کر لوگوں میں گئے۔ اور اعلان عام کیا لوگوں نے خوشی خوشی حضرت عُمر فاروق کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔
اعتراض
سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کے بارے میں بعض اسلام دشمن یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ “حضور نے اپنی حیات میں کسی کو خلیفہ نہیں بنایا مگر ابو بکر خود خلیفہ بن گئے اور اپنے بعد عمر کو خلیفہ بنا کر حضور کی کھلی مخالفت کی ہے۔ مسلمانو ! اسلام دشمن قوتوں کا یہ اعتراض لغو اور بلا جواز اور بغض و حسد کی بنیاد پر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حضور اکرم نے سیدنا ابو بکر صدیق کو خلیفہ نامزد نہیں کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور اکرم اس بات کو وحی الٰہی کے ذریعے اچھی طرح جانتے تھے کہ میرے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ہی خلیفہ ہوں گے اور میرے صحابہ بھی انہیں ہی خلیفہ مقرر کریں گے اور ان کی خلافت کا کوئی بھی مخالف نہ ہوگا۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا۔ “اللہ اور مسلمان ابو بکر کے سوا کسی کو قبول نہ کریں گے ایک جگہ اور ارشاد فرمایا میرے بعد ابو بکر خلیفہ ہوں گے۔“ (ملاحظہ کیجئے تحفہ اثنا عشریہ) مسلم شریف میں ہے کہ جب حضور اکرم کے وصال کا وقت قریب آیا تو حضور نے حضرت ابو بکر صدیق اور ان کے صاحبزادے کو بلایا کہ خلافت نامہ لکھیں۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی اور مسلمان ابو بکر کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ نہیں بنائیں گے۔ لکھنے کی کیا ضرورت ہے پھر آپ نے ارادہ ترک کر دیا۔ (مسلم شریف) معلوم ہوا کہ حضرت محمد کو اس بات کا علم تھا کہ مسلمانوں کے خلیفہ اوّل سیدنا ابو بکر صدیق ہوں گے اور مسلمان انہیں خلیفہ اوّل تسلیم کریں گے اسی لئے حضور اکرم نے باقاعدہ آپ کو خلیفہ نامزد نہیں کیا۔ سیدنا حضرت عمر فاروق کا خلیفہ دوم مقرر کرنا سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کی فہم و فراست کی وجہ سے تھا۔ آپ نے اپنی فہم و فراست سے اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لئے حضرت عمر کو خلیفہ منتخب فرمایا۔ آپ نے جو فیصلہ کیا بالکل درست تھا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کو عروج اور اسلام دشمن قوتوں کو پسپائی جس قدر حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں آپ کے مقدس ہاتھوں سے ہوئی تاریخ ایسی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق نے وفات سے قبل اپنی صاحبزادی سیدہ طاہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کو یہ وصّیت فرمائی کہ آج تک میرے پاس جو مال تھا وہ آج وارثوں کا مال ہو چکا ہے اور میری اولاد میں تمہارے دو بھائی (عبدالرحمٰن بن ابو بکر اور محمد بن ابو بکر) اور تمہاری دو بہنیں ہیں لٰہذا تم لوگ میرے مال کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق تقسیم کرکے اپنا اپنا حصّہ لے لینا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کہنے لگیں۔ ابّاجان میری تو ایک ہی بہن اسماء ہے۔ یہ میری دوسری بہن کون ہے۔ آپ نے فرمایا۔ میری بیوی بنت خارجہ حاملہ ہیں ان کے شکم میں لڑکی ہے وہ تمہاری دوسری بہن ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے وصال کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جن کا نام اُم کلثوم رکھا گیا۔ (ملاحظہ کیجئے تاریخ الخلفاء صفحہ 57) معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کو وفات سے پہلے ہی اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ آپ اسی مرض میں وفات پائیں گے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ میرا مال آج میرے وارثوں کا ہو چکا ہے۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ ماں کے شکم میں لڑکا ہے یا لڑکی یہ بات غیبی ہے اور غیب کا علم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن جب اللہ اپنے محبوب بندوں کو یہ علم عطا کر دیتا ہے تو وہ عطائے الٰہی سے غیب کا علم بھی جان لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کو موت کا علم بھی تھا اور “ماں کے پیٹ میں“ لڑکی کا بھی علم تھا۔ دونوں باتوں کا تعلق غیبی علم سے ہے۔ جو حضور اکرم کے طفیل اللہ تعالٰی نے انہیں عطا فرمایا۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق نے وفات سے قبل یہ وصّیت بھی فرمائی کہ مجھے حضور اکرم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق دو سال تین ماہ گیارہ دن مسند خلافت پر رونق افروز رہے اور 22 جمادی الاخرٰی 13ھ کو آپ نے انتقال فرمایا۔ آپ کی وصّیت کے مطابق لوگ آپ کا جنازہ لے کر حضور اکرم کے حُجرہ کے پاس پہنچے تو لوگوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابو بکر یارسول اللہ ابو بکر حاضر ہیں۔ یہ عرض کرتے ہی روضہ انور کا بند دروازہ خود بخود کھل گیا اور قبر انور سے آواز آئی۔ حبیب کو حبیب کے دربار میں لے آؤ۔ (تفسیر کبیر صفحہ 478 جلد پنجم) | |
|