ملفوظات غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
اللہ عزوجل کی اطاعت کرو:
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئیے، اس بات پر یقین رکھنا چاہئیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہئیے بلکہ اس کا ادب کرنا چاہئیے کیونکہ اس کے تمام کام صحیح درست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہئیے۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت سے عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہئیے، اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا۔ بندے کا شجر ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجر ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجر ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہل ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکر ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلٰی مقام عطا فرماتا ہے۔“ اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹاکر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص44)
ایک مومن کو کیسا ہونا چاہئیے ؟
حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا فرمان عالیشان ہے: “محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگادے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹاکر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضل عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کر دے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تو راحت و سکون پائے گا اور اگر تو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اور تجھ سے فضل خداوندی رک جائے گا۔“
تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ، جب تک تو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس، محویت، ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کردے تو تیرے دل میں اللہ تعالٰی کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل، ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کر دے گا۔
مذید فرماتے ہیں: تیرا نفس اور اعضاء غیراللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالٰی کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں۔“ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص 103)
اللہ عزوجل کے ولی کا مقام
شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ارشاد مبارک ہے: “جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ اور دنیا و آخرت کی آرزوؤں سے فنا ہو جاتا ہے تو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالٰی کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔ (فتوح الغیب مع وقلائد الجواہر، المقالہ السادستہ و الخمسون، ص 100)
طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعت مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
وما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا ( پ28، الحشر: 7 )
ترجمہ کنزالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔
کیونکہ سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہئیے، اس طرح تو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہو جائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کئے جائیں گے اللہ عزوجل تیرے حفاظت فرمائے گا، موافقت خداوندی حاصل ہو گی۔
اللہ عزوجل کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہئیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریقت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان دینوی نعمتوں سے تو حضور تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بھی حداد شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ سرکار دو جہاں، رحمت عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: “خوشبودار عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔“ ( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقائق، الفصل الثالث، الحدیث 5261، ج2، ص 258 )
لٰہذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمھم اللہ تعالٰی کو نعمت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکام شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرت انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے۔ (فتوح الغیب، مترجم، ص 72)
رضائے الٰہی عزوجل
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالٰی سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتہء تقدیر نے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالٰی کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لئے قبول ہو جاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔ (فتوح العیوب مع قلائد الجواہر، المقالۃ الثالمنۃ والستون، ص 115)
اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: “اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کردے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے باوجود تو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے ؟“ (حوالہ)
اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے۔“ ( فتوح الغیب، مترجم، ص 80 )
ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو
حضور سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اورموجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء و قدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالٰی سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضامندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالٰی نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظت کی دعا کر، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے، محتاجی و فقرفاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالٰی نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے۔
امیر الؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے، یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتری کس میں ہے۔ یہ بات اللہ تعالٰی کی تدبیر پر رضامندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی۔ (فتوح الغیب، مع قلائد الجواہر، المقالۃ التاسعۃ والستون، ص 117)
محبت کیا ہے ؟
ایک دفعہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ “محبت کیا ہے ؟“ تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محو ہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا انہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے، وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ، ص 229)
توکل کی حقیقت
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے توکل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔“ نیز ارشاد فرمایا کہ “توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور “مذہب معرفت“ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیونکہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والا نقص نہیں نکال سکتا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ۔ ۔ ۔ ۔ ص 232)
توکل اور اخلاص
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “توکل کیا ہے ؟“ تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “توکل کی حقیقت اخلاص کی حقیقت کی طرح ہے اور اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمل، عوض یعنی بدلہ حاصل کرنے کے لئے نہ کرے اور ایسا ہی توکل ہے کہ اپنی ہمت کو جمع کرکے سکون سے اپنے رب عزوجل کی طرف نکل جائے۔“ (المرجع السابق، ص 233)
دنیا کو دل سے نکال دو
حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرر یعنی نقصان نہیں پہنچائے گی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ ۔ ۔ ۔ ۔، ص 233)
شکر کیا ہے ؟
سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اور اسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ۔ ۔ ۔ ص 234)
صبر کی حقیقت
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کردے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ، ص 234)
صدق کیا ہے ؟
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ
(1) ۔ ۔ ۔ اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو۔
(2) ۔ ۔ ۔ اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجا لائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہا ہے اور خود کو بھول جائے۔
(3) ۔ ۔ ۔ احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعت انسانی ہمیشہ حالت حق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کا خوف ہو یا دوست کا ناحق مطالبہ ہو۔“ (المرجع السابق، ص 235)
وفا کیا ہے ؟
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے ؟ تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں ان کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ ۔ ۔ ۔ ص 235)
وجد کیا ہے ؟
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالٰی کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ، ص 236)
خوف کیا ہے ؟
حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “اس کی بہت سی قسمیں ہیں (1) خوف ۔ ۔ ۔ یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے (2) رہبہ ۔ ۔ ۔ یہ عابدین کو ہوتا ہے (3) خشیت ۔ ۔ ۔ یہ علماء کو ہوتی ہے۔“ نیز ارشاد فرمایا: “گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خود عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک حنفی سے ہوتا ہے۔“
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پا جاتے ہیں۔“ (المرجع السابق)
دعاء و التجا: اے اللہ عزوجل ہمیں حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ملفوظات شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے دلوں میں غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت کو مذید پختہ فرما دے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدر عبدالقادر قدرت نما کے واسطے