Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: ربیع الاوّل کی شانِ امتیاز Wed 10 Feb 2010 - 8:49 | |
| ربیع الاوّل کی شانِ امتیاز جس طرح ماہِ رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید کی عظمت و شان کےطفیل دیگر مہینوں پر انفرادیت اور امتیاز عطا فرمایا، اسی طرح ماہ ربیع الاول کےامتیاز اور شان علو کی وجہ بھی اس میں صاحب قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہِ مبارک بلاشبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت کےصدقےسےایک انفرادی حیثیت کےساتھ سال کےجملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔ ہر چیز میں فضیلت کی نوعیت جدا ہے مختلف اشیاءکی بنائِ فضیلت و شرف مختلف ہوتی ہے۔ جس طرح ہر ماہ کی انفرادیت اور فضیلت کی ایک جدا جہت ہےاسی طرح ہر شہر، ہر علاقےاورہر دن کی اپنی اپنی امتیازی صفات اور خصوصیات ہیں۔اللہ تعالیٰ نےمختلف افراد کو افراد پر، بعض ایام کو دسرےایام پر اور ماہ و سال بلکہ ہر ساعت کو دوسری ساعتوں پر جدا جدا اعتبارات اور مختلف نسبتوں سےشرف و امتیاز عطا فرمایا ہے۔ اس اعتبار سےبعض انبیاءعلیھم السلام کو بھی ایک دوسرے پر مختلف حیثیتوں سےفضیلت حاصل ہے۔ مثلا قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا: ”یہ سب رسول (جو ہم نےمبعوث فرمائے) ہم نےان میں سےبعض کو بعض پر فضیلت دی۔“(القرآن، البقرہ،٢:٣٥٢) ماہ رمضان المبارک کی وجہ فضیلت بیان کرتےہوئےفرمایا گیا: ”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قران اتارا گیا ہے۔“(القرآن،البقرہ،٢:٥٨١) اسی ماہِ مبارک میں آنےوالی لیلۃ القدر کو سال بھر کی تمام دوسری راتوں پر فوقیت عطا فرمانےکی وجہ اور فضیلت کا سبب بھی نزولِ قرآن کو قرار دیتےہوئےفرمایا: ”بےشک ہم نےاس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا“ (القرآن، القدر،،٧٩:١) کبھی شہر مکہ کی قسم کھا کر دوسرےمقدس مقامات کےباوجود اسےصرف اس لئےدوسرےشہروں پر فضیلت دی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مقدسہ کا بیشتر حصہ اس شہر میں گزرا، ارشاد فرمایا گیا: ”میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں (اےحبیب مکرم!) اور اس لئےکہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں “ (القرآن ، البلد،٠٩:١،٢) اسی طرح ایمان اور اسلام کےبعد ایک مسلمان کےدوسرے پر شرف و تکریم اور اللہ کےہاں بزرگی کےلئےتقویٰ کی شرط لگائی۔ ارشاد باری تعالٰی ہوا: ”بےشک تم میں سےاللہ تعالیٰ کےہاں وہی باعزت ہےجو تم میں سےزیادہ متقی ہے۔“(القرآن، الحجرات،٩٤:٣١) الغرض قرآن حکیم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نےمختلف مقامات و اشیائِے مقدسہ کی فضیلت اور شرف و تکریم کی وجوہات بھی مختلف بیان فرمائی ہیں۔ نزول قرآن کا سبب ذاتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاکیزہ کلام اور اس کی صفت ہونےکےاعتبار سے پوری کائنات میں اپنی فضیلت و شان میں یکتا ہے، بےشک اس کا نازل ہونا انسانیت کےلئےاللہ کی بہت بڑی نعمت ہےاور اس کا احسان عظیم ہے۔ ہم سب مل کر اس کےایک کلمےکا شکر بھی عمر بھر ادا نہیں کرسکتے۔ اس کےذریعےجہالت و ضلالت میں گھری ہوئی انسانیت کو اللہ تعالیٰ نےوہ نور علم عطا فرمایا جس سےجہالت کی تاریکیاں کافور ہوئیں اور انسان پستیوں سےاٹھ کر شرف و تکریم کی بلندیوں پر متمکن ہوا یہ سب کچھ اگر اپنی جگہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہےتو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ قرآن ہمیں کس کےذریعےعطا ہوا؟ اگر قرآنی علم کےذریعےانسان کو اللہ تعالیٰ نےلا متناہی عظمتیں عطا کی ہیں تو اس ہستی کی اپنی عظمتوں کا کیا عالم ہوگا جس کی دہلیز سےانسانیت کو اس قرآن کی صورت میں اتنا عظیم ذخیرہِ علم و حکمت اور مصدرِ ہدایت میسر آیا۔ وہ ذاتِ اقدس جس کا قلب اطہر اس وحی الٰہی کا ضبط بنا اور سراپا حسن صورت و سیرت خلق قرآن قرار پایا اس کےمقام علو کا ادراک کون کرسکتا ہی؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہےکہ یہ قرآن حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دلکش اداؤں اور آپ کی عادات و خصائل کےذکرِ جمیل کا مجموعہ ہے۔ شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لیلۃ القدر سےبھی افضل ہے جس کےاوصاف جمیلہ کےذکر اورخلق عظیم کو بیان کرنےوالی کتاب کےاترنےسےرمضان کو اتنی فضیلت ملی کہ اس کی صرف ایک رات ہزار مہینوں سےافضل ٹھہری تو اس ماہ مقدس یعنی ربیع الاول کی عظمت و فضیلت کا کیا عالم ہوگا جس کو صاحب کتاب، محبوب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےماہ میلاد ہونےکا شرف حاصل ہے۔ جس رات یہ کلام الٰہی یعنی ذکر خلقِ عظیم اترا، اللہ تعالیٰ نےاس رات کو قیامت تک انسان کےلئے”لیلۃ القدر“ کی صورت میں بلندی درجات اور شرف نزولِ ملائکہ سےنوازا اور بفحوائےفرمان ایزدی ”لَيْلَۃُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ“ اس ایک رات کو ہزار مہینوں پر فائق و برتر قرار دیا گیا تو جس رات صاحب قرآن یعنی مقصود و محبوب کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ورود ہوا اور بزم حسینانِ عالم کےتاجدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےاس زمین و مکاں کو ابدی رحمتوں اور لازوال سعادتوں سےمنور فرمایا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی کتنی قدر و منزلت کیا ہوگی۔ اس کا اندازہ لگانا فہم و شعورِ انسانی کےلئےناممکن ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اس لیے ہے کہ وہ نزول قرآن اور ملائکہ کی رات ہے۔ اور نزول قرآن مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئےہوا، اگر حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ ہوتےتو نہ قرآن ہوتا نہ شب قدر ہوتی اور نہ کوئی اور رات ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں میلاد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صدقہ ہیں۔ سو شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شب قدر سےبھی افضل ہے۔ ہزار مہینوں سےافضل کہہ کر باری تعالیٰ نےشب قدر کی فضیلت کی حد مقرر فرمادی جبکہ شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فضیلت زمان و مکان کےاعتبار سےمطلق ہے۔ ائمہ و محدثین نےراتوں کی فضیلت پر گفتگو کی ہی۔مثلاً لیلۃ القدر، لیلۃ نصف شعبان، لیلۃ یوم العرفہ، لیلۃ یوم الفطر وغیرہ ان میں لیلۃ مولدالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر بھی آیا ہے۔ بہت سےاہل علم و محبت ائمہ و محدثین نےشب میلاد کو شب قدر سےافضل قرار دیا ہے۔ امام قسطلانی، امام زرقانی اور امام نبہانی نےبڑی صراحت کےساتھ بیان کیا ہےکہ سب راتیں فضیلت والی ہیں مگر شب میلادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سےافضل ہے۔ امام قسطلانی اس حوالےسےلکھتےہیں: ” جب ہم نےیہ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رات کےوقت پیدا ہوئےتو سوال یہ ہےکہ شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم افضل ہےیا لیلۃ القدر؟ تو میں اس کےجواب میں کہوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میلاد کی رات تین وجوہ کی بنیاد پر ”لیلۃ القدر“ سےافضل ہے: ١۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی رات وہ رات ہےجس میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہوا جبکہ لیلۃ القدر آپکو عطا کی گئی، لہٰذاوہ رات جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےظہور کا شرف ملا اس رات سےزیاد شرف والی ہوگی جسےاس رات میں تشریف لانےوالی شخصیت کےسبب سےشرف ملا پس اس میں کوئی نزاع نہیں، لہٰذا شبِ میلاد رسولصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”لیلۃ القدر“سےافضل ہوئی۔ (قسطلانی، المواہب الادنیہ، ١:٥٤١) ٢۔ اگر لیلۃ القدر کی عظمت اس بناء پر ہےکہ اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شب ولادت کو یہ شرف حاصل ہےکہ اس میں اللہ تعالیٰ کےمحبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کائنات میں جلوہ فرماہوئے۔ جمہور اہلسنت کےصحیح اور منتخب ترین قول کےمطابق جس وجہ سےشبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شرف سےنوازا گیا وہ ” لیلۃ القدر“ کو شرف سےنوازنےکی وجہ سےکہیں زیادہ افضل و اشرف ہے، لہٰذا شب ولادت افضل ہوگی۔ (زرقائی، شرح المواہب اللدنیہ، ١:٥٥٢) ٣۔ لیلۃ القدر کےباعث امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوفضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سےجمیع موجودات کو فضیلت سےنوازا گیا، حضور نبی اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نےرحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تو اس نعمت کو جمیع کائنات کےلیےعام کر دیا گیا، پس ”شب ولادت“ نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہےلہٰذا اس اعتبار سےیہ لیلۃ القدر سےافضل ہوئی۔ “ (نبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختار ٠١، ٣: ٤٢٤) امام طحاوی بعض شوافع سےنقل کرتےہیں: ”سب سےافضل راتوں میں سےشبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پھر شب قدر پھر شب اسراءو معراج پھر شب عرفہ پھر شب جمعہ پھر شعبان کی پندرہویں شب پھر شب عید ہی۔ “(نبہانی ، جواہر البحار، ٣:٦٢٤(من جواہر السید احمد بن عابد) امام نبہانی اپنی مشہور تصنیف الانوار المحمدیہ میں رقم طراز ہیں: ”اورشبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شب قدر سےافضل ہے۔ “ (نبہانی: الانوار المحمدیۃ:٨٢) جس رات میں فرشتےاتریں اس رات کی فضیلت یہ ہےکہ وہ ہزار مہینوں سےافضل ہےاور خود ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فضیلت یہ ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےمزار اقدس کی زیارت کےلئےستر ہزار فرشتےصبح اور ستر ہزار فرشتےشام کو اترتےہیں مزار اقدس کا طواف کرتےہیں اور بارگاہِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں عرض نیاز کرتےاور چلےجاتےہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہےگااور ان ایک لاکھ چالیس ہزار فرشتوں میں سے جن کی باری ایک بار آتی ہےدوبارہ نہیں آئےگی۔ فرشتےتو دربار مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےخادم اور جاروب بردار ہیں۔ وہ اتریں تو رات ہزار مہینوں سےافضل ہو جائےاور ساری کائنات کی سرکار اترے تو اس کی کوئی فضیلت ہی نہ جانی جائے؟ آقا کی آمد کی رات اور آپ کی آمد کےمہینہ پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان، اور خاص بات یہ ہےکہ شب قدر کی فضیلت فقط اہل ایمان کےلئےہے باقی انسانیت اس سےمحروم رہتی ہے مگر مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد باعثِ فضل و رحمت فقط اہل ایمان ہی کےلئےنہیں مومن اور کافر ساری کائنات کےلئےہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت ساری کائنات کی تمام مخلوقات کےلئےاللہ کا فضل اور اسکی رحمت ہےاس پر خوشی کا اظہار کرنا باعث اجر و ثواب ہی۔ اس مختصر سےتقابل سےمقصود ” لیلۃ القدر“ کی عظمت کا انکار نہیں بلکہ ربیع الاول اور بالخصوص ساعت میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہمیت و تقدس کو واضح کرنا ہی۔ان حقائق کو تسلیم کرنےسےیہ بھی مترشح ہوا کہ قرآن حکیم کی قدر و منزلت کا اعتراف کرنےسےپہلےصاحب قرآن کی قدر و منزلت کو دل کی گہرائیوں سےتسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ استاد کی قدردانی دراصل علم کی قدردانی ہے اس کی مزید وضاحت اس روز مرہ مثال پر غور کرنےسےہو جاتی ہےکہ اگر کوئی علم جیسی نعمت کو حاصل کرتا ہےتو اسےکسی نہ کسی واسطےیا ذریعےکا سہارا لینا پڑےگا اور یہ واسطہ و ذریعہ علم اس کےلئےبلاشبہ اس کا استاد ہےجو اسےعلم سکھاتا ہی۔ گویا اﷲ تعالیٰ نےاستاد کو انسان تک نعمت علم پہنچانےکا ذریعہ بنایا ہی۔ اس حال میں کتنا عجیب ہو گا کہ اگر انسان علم کی قدردانی تو کرےمگر اس استاد کی قدر و منزلت اور شرف و تکریم سےعدم توجہی کا مظاہرہ کرےجس کےواسطےسےاسےعلم کی دولت نصیب ہوئی۔ کوئی شخص استاد جیسی نعمت کو کمتر جانتےہوئےاس کی قدر و منزلت غیر ضروری سمجھےاور علم کی دولت کو بہتر جانتےہوئےاس کی قدر و منزلت کی طرف زیادہ توجہ دےتو اس نےدراصل علم کی ناقدری کی ہےاستاد کی نہیں۔ نعمتِ قرآن کےشکر کی قبولیت بواسطہ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت مسلمہ جب قرآن حکیم کےنزول پر شکر بجا لاتی ہےتو یہ اس کےاہم ترین فرائض، قرآن پر ایمان اور اس سےمحبت کےاہم ترین تقاضوں میں سےہی۔ لیکن نعمت قرآن کا شکر بجا لانا اس وقت تک شکر نہیں بن سکتا اور اﷲ جل مجدہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اس ہستی کی تشریف آوری اور ولادتِ مبارکہ کا شکرانہ ادا نہ کیا جائےجس کی وساطت سےاﷲ تعالیٰ نےاس نعمت قرآن سےدامن انسانیت کو منور کیا۔ اﷲ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری ہےجس نےاپنی نعمتوں کو دل سےیاد رکھ کر ان پر شکر بجا لانےکا حکم صادر فرمایا ہی۔ قرآن حکیم کےکئی مقامات اس پر شاہد عادل ہیں۔ مثلاً یہ فرمایا گیا: ” اور اپنےاوپر (کی گئی) اﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرےکی) دشمن تھےتو اس نےتمہارےدلوں میں الفت پیدا کردی پس تم اس کی نعمت کےباعث آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ “(اٰل عمران، ٣:٣٠١) یہ (بلاشبہ) اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہےکہ اس نےٹوٹےہوئےدلوں کو جوڑ دیا اور باہم خون کےپیاسوں کو ایک دوسرےکا غمخوار بھائی بنا دیا، ان کی نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں اور مروتوں سےبدل دیا۔ لیکن یہ بھی تو سوچئےکہ یہ نعمت حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کےتصدق سےنصیب ہوئی اس نعمت کا مبداءو مرجع بھی حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی ہی۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا اور لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےحلقہ غلامی میں داخل ہونا تھا کہ سب لوگ خواہ اس سےپہلےوہ ایک دوسرےکےدشمن اور خون کےپیاسےتھی، باہم شیر و شکر ہو گئےاور ایک دوسرےکی محبت اور الفت کےاسیر ہو گئی۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اﷲ کی سب سےبڑی نعمت پہلی امتیں اﷲ تعالیٰ کی نعمت پر شکر بجا لاتی تھیں نیز نعمتوں کےشکرانےپر جشن اور عید منانا خود انبیاءکی سنت ہےاور قرآن کی واضح آیات اس پر گواہ ہیں۔ آج تک عیسائی لوگ مائدہ جیسی عام نعمت کےملنےوالےدن کو بطور عید مناتےہیں۔ اس سےکسی کےذہن میں یہ شبہ وارد نہیں ہونا چاہئےکہ یہ تو پھر غیر مسلموں کےساتھ اشتباہ ہو گا کہ وہ جس طرح نعمت کا شکر بجا لاتےہیں ہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہئے، نہیں! بلکہ اس مثال سےمقصود صرف یہ ہےکہ وہ اپنی سابقہ روایات کےمطابق مخصوص دن مناتےچلےآ رہےہیں اور ان کےاس فعل کا ذکر تو قرآن نےکرنا مناسب سمجھا۔ غور طلب بات ہےکہ سابقہ امتوں کو جب معمولی سےنعمت پر شکر بجا لانےکا حکم تھا اور وہ اس کی تعمیل کرتی تھیں تو امت مسلمہ کو کیا ہےکہ وہ اپنےآقاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کےسلسلےمیں خوشی منا کر خدا کی اس عظیم ترین نعمت کا شکریہ ادا نہ کرےجب عام نعمتوں کےحصول پر شکر کرنا واجب ہےتو اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا بدرجہ اولیٰ واجب ٹھہرا کیونکہ کائنات میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارکہ سےبڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں بلکہ کائنات کو وجود ہی اسی نعمت کےتوسط سےملا۔ دنیا و مافیہا اور آخرت کی جملہ نعمتیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےدرِ اقدس کی خیرات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نےحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےعلاوہ کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا کائنات ہست و بود میں خدا تعالیٰ نےبےحد و حساب احسانات فرمائےہیں۔ انسان پر لاتعداد انعامات و مہربانیاں فرمائی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ فرماتا رہےگا کیونکہ وہ رحیم و کریم ہی۔ اﷲ نےہمیں ہزاروں نعمتیں دیں لیکن کبھی کسی پر احسان نہیں جتلایا، اﷲ تعالیٰ نےہمیں کھانےپینےاور سہولتوں سےنوازا لیکن احسان نہیں جتلایا پھر دن رات کا نظام ہمارےلئےمرتب کیا۔ سمندروں، پہاڑوں اور فضاؤں کو ہمارےلئےمسخر فرمایا مگر اس کا احسان بھی نہیں جتلایا۔ اس ذات رؤف و رحیم نےہمیں اپنی پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور احسن تقویم کےسانچےمیں ڈھال کر رشک ملائکہ بنایا لیکن پھر بھی کوئی احسان نہیں جتلایا۔ ہمیں ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں جیسی نعمتوں سےنوازا غرضیکہ انفس و آفاق کی ہزاروں ایسی نعمتیں جو ہمارےحیطہ ادراک سےبھی باہر ہیں، اس نےہمیں عطا فرمائیں لیکن بطور خاص کسی نعمت اور احسان کا ذکر نہیں کیا اس لئےکہ وہ تو اتنا سخی ہےکہ کوئی اسےمانےیا نہ مانےوہ سب کو اپنےکرم سےنوازتا ہےاور کسی پر اپنےاحسانات کو نہیں جتاتا۔ لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ اﷲ تعالیٰ نےجب حریم کبریائی سےاسےبنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سےسرفراز فرمایا تو اس کا ذکر کیا اور کیا بھی اس طرح کہ پوری دنیائےنعم میں صرف اس پر احسان جتلایا اور اظہار بھی عام الفاظ میں نہیں بلکہ مومنین کو اس کا احساس دلایا اور احسان جتلانےسےپہلےدو تاکیدیں بھی لائیں۔ ارشاد فرمایا گیا: ”بےشک اﷲ تعالیٰ نےمسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سےعظمت والا رسول بھیجا۔“(القرآن ، اٰل عمران، ٣:٤٦١) اﷲ رب العزت فرما رہا ہےکہ امت مسلمہ پر میرا یہ بہت بڑا احسان، انعام اور لطف و کرم ہےکہ میں نےاپنےمحبوب کو تمہاری جانوں میں سےتمہارےلئےپیدا کیا۔ محض تمہاری تقدیریں بدلنی، بگڑےہوئےحالات سنوارنےاور شرف و تکریم سےنوازنےکےلئےتاکہ تمہیں ذلت و گمراہی کےگڑھےسےاٹھا کر عظمت و شرف انسانیت سےہمکنار کر دیا جائی۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ میرےکارخانہ قدرت میں اس سےبڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں جب میں نےوہی محبوب تمہیں دےدیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سےوجود میں لایا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سےمالا مال کر دیا تو اب اس پر ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتےہوئےبھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت مصطفوی اسےبھی عام سےنعمت سمجھتےہوئےاس کی قدر و منزلت اور علو مرتب سےبےنیازی کا مظاہرہ کرنےلگےاور خداوند تعالیٰ کےاس احسان عظیم کی ناشکری کا ارتکاب کرتی رہی۔ اس احسان جتلانےمیں بھی امت مسلمہ کی بھلائی کو پیش نظر رکھا گیا نیز قرآن حکیم کےاس واضح حکم سےہر مسلمان کو آگاہ کیا گیا ہےکہ خبردار! اﷲ کےاس عظیم احسان کو کبھی فراموش نہ کرنا اس میں خدا اور اس کےمحبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو (نعوذ باﷲ) کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا نہ اس کی شان میں کوئی فرق پڑ سکتا ہےتم اس کےاس احسان پر شکرانہ ادا کرو یا نہ کرو حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر تو خدائی وعدہ کےمطابق روز افزوں ہی رہےگا۔ ”اےمحبوب! ہر آنےوالی گھڑی تیرےلئےپہلی گھڑی سےبہتر ہی۔“(القرآن، الضحیٰ، ٣٩:٤) اور آپ کا ذکر مبارک ہر آن بلند سےبلند تر ہوتا چلا جائےگا کہ یہ بھی خود خالق کائنات کا ارشاد گرامی ہی: ”اور (اےمحبوب) ہم نےتیری خاطر تیرا ذکر بلند کر دیا ہی۔“(القرآن، الانشراح، ٤٩:٤) اب کوئی حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر کرےگا تو اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہےاور اسی طرح ان کی تشریف آوری پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائےگا تو یہ بھی اس کےاپنےمفاد کی بات ہےنہ وہ کسی پر احسان کر رہا ہےاور نہ ہی کسی کا فائدہ بلکہ اپنا توشہ آخرت بہتر بنا رہا ہی:
و رفعنا لک ذکرک کا ہےسایہ تجھ پر بول بالا ہےترا ذکر ہےاونچا تیرا
فرش والےتیری شوکت کا علو کیا جانیں خسروا عرش پہ اڑتا ہےپھریرا تیرا | |
|