Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: اعلیٰ حضرت بہ حیثیت مسلم رہ نما Tue 26 Jan 2010 - 10:31 | |
| اعلیٰ حضرت بہ حیثیت مسلم رہ نما حضرت علامہ مولانا محمد حسـن حقـانی وَنَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ (صدق اللہ العظیم)
قارئینِ کرام! قرآنِ کریم کی جو آیت پیش کی گئی، اس میں ربّ العالمین فرماتا ہے: ’’ہم درجات بلند کرتے ہیں جس کے درجات بلند کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ بقول شاعر
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آیتِ کریمہ کے ترجمے اور شعر کے بعد اب میں اپنے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں اُن گنے چُنے اور منفرد اہلِ علم و اہلِ شریعت و طریقت میں سے ہیں جن کے درجات کی بلندی علم و عمل، دونوں میں، اعداد و شمار کے ذریعے پیش نہیں کی جاسکتی اور یہ ممکن بھی کیسے ہو کہ جن کے محبوبِ مکرّم، تاجدارِ دو عالم، مجسّم فداہ امّی و ابی صلی اللہ علیہ و سلم کے درجات و کمالات و فضائل کی انتہا نہیں اور جن کے امامِ طریقت غوث الورا کے علم کی تھاہ نہیں ہے، اُن پر مر مٹنے والا، اُن کی اداؤں کا اَسیر، اُن کے علمِ لاثانی کا فقیر امامِ اہلِ سنّت علم میں، فضل میں، کمالات میں اپنے اسلاف کا بہترین نمونہ ہیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ جس طرح سارے فقہا امامِ اعظم کے سامنے فقہ میں بچے نظر آتے ہیں، ایسے ہی امامِ اہلِ سنّت کے ہم عصر علما علم و فقاہت میں طفلِ مکتب دِکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے علم کی گہرائی کا ایک ہلکا سا خاکہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر 60 سے 65 علوم پر نہ صرف رسائی تھی بلکہ کامل دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایّامِ طفولیت سے لے کر زندگی کی 14سیڑھیاں چڑھنے تک اپنے علم کا اعلان بہ صورتِ فتویٰ کردیا۔
1856ء کی پیدائش، اس میں 14 برس کا اضافہ، 1870ء میں مارہرہ کے سادات کی نگاہوں میں جچ جانے والے عالِم بن چکے تھے اور دیوبند کے مدرسے کی بنیاد 1881ء میں رکھی گئی ہے۔ جب اکابرِ دیوبند طالبِ علم تھے تو اس وقت اعلیٰ حضرت اُستاد تھے۔ یہ اُن کے علم ہی کا ثبوت ہے کہ انہوں نے تن تنہا اُس وقت کی تمام باطل قوتوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ منہ توڑ جواب دیا۔ کیا قاسم نانوتوی، کیا رشید احمد گنگوہی، کیا خلیل احمد، کیا اشرفعلی، کیا محمود الحسن، کیا مرتضیٰ حسن، سب کو شرمندہ اور معاشرے میں ننگا کیا تو دوسری طرف انگریزوں کی مخالفت اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کرنے والوں کی خفیہ سازش کو بے نقاب کیا۔ تحریکِ خلافت جس کے سیاسی سربراہ گاندھی تھے، اُس تحریک کی جڑیں اُکھاڑ کر رکھ دیں تو تحریکِ ترکِ موالات کے ذریعے جو سازش کی جارہی تھی، اُس کے بھی پرخچے امامِ اہلِ سنّت نے اُڑا دیے۔ اعلٰی حضرت نے کیا خوب اس بات کو بیان کیا
بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
عام طور پر جو علوم مدارسِ دینیہ میں پڑھائے جاتے ہیں، وہ 10 سے 12 ہوں گے لیکن امامِ اہلِ سنّت کے لیے یہ تمام علوم پرائمری کلاسز کا درجہ رکھتے تھے۔ ریاضیات، علمِ جفر، تقویم، ہندسہ، اقلیدس اور سائنس وغیرہ، یہ وہ علوم ہیں کہ جن کے جاننے والے چند اور ماہر برائے نام ہوئے ہیں۔
علم کا اعلیٰ مقام ایک واقعے سے پتا چلتا ہے جب دوسری بار سفرِ حجاز پر مکہِٴ معظّمہ میں قائم شدہ ایک لائبریری میں گئے تو وہاں ایک عالمِ دین کتابوں سے عبارات نقل کررہے تھے اور دوات ایک کتاب پر رکھی ہوئی تھی۔ اعلیٰ حضرت نے اس دوات کو اُٹھاکر میز پر رکھ دیا۔ اُن صاحب نے میز سے اُٹھاکر پھر کتاب پر رکھ دی۔ اعلیٰ حضرت نے اس دوات کو میز پر رکھ دیا۔ اُن صاحب نے میز سے اُٹھاکر پھر کتاب پر رکھ دی۔ اعلیٰ حضرت نے پھر کتاب سے اُٹھاکر میز پر رکھ دی۔ یہ خاموش مناظرہ چلتا رہا یہاں تک کہ اُن صاحب نے ماتھے پر شکن ڈال کر اس کی وجہ پوچھی تو اعلیٰ حضرت نے اس لائبریری سے ایک کتاب نکالی۔ اس کا صفحہ کھولا اور عبارت سامنے رکھ دی جس کے مطابق روشنائی یقیناً حروفِ قرآنی، حروفِ حدیث اور حروفِ فقہ سب کے لیے کام آتی ہے لیکن جب تک قلم کے ذریعے کاغذ پر نہ آئے اُس وقت تک وہ روشنائی ہی رہتی ہے، اس کو بہ نفس نفیس کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ لیکن جو روشنائی کتاب پر منتقل ہوجائے اگرچہ وہ اُسی دوات سے ہو، وہ مکرّم و معظّم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کتاب پر دوات نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ عبارت دِکھا کر اعلیٰ حضرت نے ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ یہ مسئلہ پچھلے سفر میں، میں نے اِس کتاب میں پڑھا تھا۔
یہ ہے علمی مقام اور باریک بینی اور یہ ہے روشنائی کے مقابلے میں حروف کی عزت و حرمت۔ جس کے نزدیک حرمت کا یہ انداز اور عزّت کا یہ طرز ہو، وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں ادنیٰ سی بدتہذیبی کیسے برداشت کرسکتا ہے۔
یہ کیفیت تعلیم و تکریم کی اپنے اسلاف، اکابر، مشائخ، حتیٰ کہ سادات کے لیے بھی بہت زیادہ تھی۔
اعلیٰ حضرت کے اس طرہٴ امتیاز نے درحقیقت دو قومی نظریے کا آغاز کیا جو بعد میں تحریکِ پاکستان کے لیے جوہر نایاب ثابت ہوا اور آپ کی منفرد راہ نمائی کے صدقے میں تحریکِ پاکستان کے ہراول دستے میں خلفاے اعلیٰ حضرت اور علماے اہلِ سنّت پیش پیش نظر آتے ہیں۔ کیا صدرالافاضل، کیا صدرالشریعہ، کیا محدّثِ اعظم کچھوچھوی، کیا مفتی احمد یار خاں اشرفی، کیا مفتیِ اعظم ہند، کیا ان کے خلفا و مریدین، سب ہی نے یکجا ہوکر 1946ء میں بنارس کی سُنّی کانفرنس میں اپنے اجماعی اقدام کا اعلان کردیا کہ ہندو ایک علیحدہ قوم ہے، مسلم ایک علیحدہ قوم۔ اور تحریکِ پاکستان کے لیے اور اُس کی کامیابی کے لیے یہ اور ایسی دوسری کانفرنسیں سنگِ میل ثابت ہوئیں جن کو علامہ اقباؔل نے سراہا تھا، قائدِ اعظم نے سجایا تھا، علماے اہلِ سنّت نے آراستہ کیا تھا، وہ پاکستان کی شکل میں تاج زرّیں کی طرح پاکستان کی پیشانی پر اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ ان ہی اساطینِ ملّت کی بدولت پاکستان میں لادینی قوتیں، سیکولر جماعتیں، فاسد معتقدات کے حامل اپنی تمام تر مذموم سازشوں کے باوجود اسلامیانِ پاکستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقابلہ میں شکست سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مقاصد کو برقرار رکھنے کے لیے ملک کے وسیع تر مفاد میں جہاں ضرورت ہو، متحدہ قوت کے ساتھ لادینی عناصر اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں کہ اعلیٰ ترین مقاصد کے لیے کبھی کڑوی گولی بھی نگلنا پڑتی ہے۔ ﴿بہ حوالہ: سال نامہ ’’معارفِ رضا‘‘ 2002ء﴾ | |
|