Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: جنات کی حقیقت Mon 21 Dec 2009 - 9:39 | |
| موجودہ دور پر نظر ڈالی جائے تو فتنوں کی بھر مار لگی ہوئی ہے آئے دن ایک نیا فتنہ سامنے آتا ہے اگر تو اللہ عزوجل کی مدد شامل حال ہو تو ٓامان مل جاتی ہے ورنہ ان فتنوں کا شکار ہوکر اپنے ایمان کو بھی کمزور کرتے ہیں دوسروں کو بھی غلط راستہ بتاتے ہیں۔ اللہ عزوجل نے اپنی کامل قدرت سے بے شمار مخلوقات پیدا کی لیکن صرف دوکو عبادت اختیاری دی گئی ایک انسان اور دوسرا جنات ۔ چونکہ جنات ہمیں نظر نہیں آتے اس بنا پر بہت سے غلط عقائد سامنے آتے ہیں۔ کچھ سائنسی ذہنکے حضرات تو ان کے وجود کا ہی انکار کر دیتے ہیں ، کچھ ان کو دیئے گئے تصرفات سے مونھ موڑ لیتے ہیں اور کچھ اس حد تک جاتے ہیں کہ ان ہی کو سب کچھ مانتے ہیں ۔ قرآن و حدیث اور علمائے حق اس بارے میں کیا کہتے ہیں اس کو پرھیے اور اپنے ایمان کو تازگی دی جیئے ۔ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ )پ 27، الذاریات 54( ترجمہ : اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے پیدا کیے کہ میری بندگی کرے۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں عبادت اختیاری جس پر سزا و جزاءمرتب ہو صرف جن کے لیے ہے۔ جنات کی سزا دوزخ ہے اور جزاءدوزخ سے نجات۔ (تفسیر نورالعرفان)۔ جن اللہ عزوجل کی ایک مخلوق ہے جو اپنا وجود رکھتی ہے ۔ جنات کو ایک خاص علم حاصل ہوتا ہے ۔ یہ ایسے عجیب و غریب اور مشکل ترین کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جنہیں کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ (العدیقة الندیة ، ج ۱، ص ۲۸) مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جنات کے وجود سے انکار یا بدی کی قوت کا نام جن یا شیطان رکھنا کفر ہے۔ (بہار شریعت ، ج۱، ص ۸۹) لغت میں جن کا معنی ہے ” ستر اورخفا“ اور جن کو اسی لیے جن کہتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ فرشتوں کو بھی جن کہا کرتے تھے کیونکہ وہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتے تھے۔ (عمدة القاری ، ج10، ص 644) جنات کو کس سے پیدا کیا گیا قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وَالْجَاۤنَّ خَلَقْنٰہُ مِنۡ قَبْلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾)پ14، الحجر۷۲ ( ترجمہ: اور جن کو اس سے پہلے بنایا بے دھوئیں کی آگ سے ۔ ایک اور جگہ ارشار فرمایا وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵﴾)پ27، الرحمن 15 ترجمہ اور جن کو پیدا فرمایا آگ کے لو کے (یعنی لپٹ) سے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور پاک، صاحب لولاک ﷺ نے فرمایاکہ فرشتوں کو نور سے، جنات کو آگ کے شعلہ سے اور سیدنا آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم ، حدیث 2996، ص 1597) آیات ِ قرآنی اور حدیثِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ جنات کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ علامہ جلال الدین السیوطی تفسیر ِ درمنثور میں حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے زمین پر جنات رہتے تھے۔ انہوں نے زمیں پر فساد برپا کیا اور خونریزی کی ۔ جب انہوں نے زمین پر فرشتوں کے لشکر بھیجے جنہوں نے انہیں مارا اور سمندری جزیروں کی طرف بھگا دیا ۔ (الدرمنثور ، ج۲، ص 111) حضرت سیدنا حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس طرح آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں ،اسی طرح ابلیس تمام جنات کا باپ ہے۔ (کتاب العظمتہ ، ح114، ص 429) قرآن مجید ابلیس کے جنات میں سے ہونی کی گواہی اس آیت مبارکہ میں دیتا ہے فَسَجَدُوۡۤا اِلَّآ اِبْلِیۡسَ ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیۡنًا ﴿ۚ۶۱﴾)پ 15، السرا 61( ترجمہ : تو سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے قوم جن سے تھا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چوتھی زمین کے اوپر اور تیسری زمین کے نیچے اتنے جنات ہیں کہ اگر وہ تمہارے سامنے آجائیں تو تمہیں سورج کی روشنی دکھائی نہ دے۔ (کتاب العظمة ، حدیث 1098، ص418) حضرت سیدنا عمرو بکالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب انسان کا ایک بچہ پیداہوتا ہے تو جنات کے یہاں نو (۹) بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ (جامع البیان حدیث ۳۰248، ج۹، ص 85) ۔ ان روایات سے ایک بات تو یہ پتہ چلی کہ جنات کی اولاد ہوتی ہے اور انسانوں کے مقابلے میں نو (۹) گنا ہوتی ہے اور دوسرا یہ سب ابلیس کی اوالاد سے ہیں اور ابلیس جنات میں سے ہے۔ جنات کی خوراک میں ہڈی اور لید کے علاوہ جس کھانے پر بسم اللہ نہ پڑھی جائے، لوبیا (نامی سبزی) جنات کی غذائیں ہیں۔ (عامہ کتب/قوم جنات ،ص22) جنات کہاں رہتے ہیں امام جلال الدین السیوطی لکھتے ہیں کہ جنات اکثر و بیشتر نجاست کی جگہوں پر ہوتے ہیں مثلاً کھجوروں کا جھنڈ ، بیت الخلاء، کچرے کے ڈھیر اور غسل خانوں میں رہتے ہیں (شیطان جن) (لقط المرجان فی احکام الجان ، مساکن الجن، ص 68)۔ اس کے علاوہ جنات ٹیلوں ، وادیوں ، بلوں(سوراخوں ) ویرانوں میں ، اور انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔ چکنائی والے کپڑے اور جھاڑیوں میں جنات رہتے ہیں۔ (عامہ کتب/ قوم جنات ص 24) علامہ بدرالدین محمد دین احمد عینی بخاری شریف کی شہرہ آفاق شرح عمدة القاری میں جنات کی چند اقسام تحریر کرتے ہیں۔ (۱) غول: یہ سب سے خطرناک اور خبیث جن ہے جو کسی سے مانوس نہیں ہوتا ۔ جنگلات میں رہتا ہے مختلف شکلیں بدلتا رہتا ہے اور رات کے وقت دکھائی دیتا ہے اور تنہا سفر کرنے والے مسافر کو عموماً دکھائی دیتا ہے جو اسے اپنے جیسا انسان سمجھ بیٹھتا ہے، یہ اس مسافر کو راستے سے بھٹکاتا ہے ۔(۲)سعلاة: یہ بھی جنگلوں میں رہتا ہے جب کسی انسان کو دیکھتا ہے تو اس کے سامنے ناچنا شروع کردیتا ہے اور اس چوہے بلی کا کھیل کھیلتا ہے ۔ (۳) غدار: یہ مصر کے اطراف اور یمن میں بھی پایا جاتا ہے اسے دیکھتے ہی انسان بے ہوش ہو کر گر جاتاہے ۔ (۴) ولھان: یہ ویران سمندری جزیروں میں رہتا ہے اس کی شکل ایسی ہے جیسے انسان شتر مرغ پر سوار ہوتا ہے جو انسان جزیروں میں جا پڑتے ہیں انہیں کھا لیتا ہے۔ (۵) مشق: یہ انسان کے آدھے قد کے برابر ہوتا ہے ، دیکھنے والے اسے بن مانس سمجھتے ہیں ۔ سفر میں ظاہر ہوتا ہے ۔ (۶) بعض جنات انسانوں سے مانوس ہوتے ہیں اور انہیں تکلیف نہیں پہنچاتے ہیں ۔(۷) بعض جنات کنواری لڑکیوں کو اٹھالے جاتے ہیں۔ (۸) بعض کتے کی شکل کے ہوتے ہیں ۔ (۹) بعض چھپکلی کی شکل میں ہوتے ہیں۔ (عمدة القاری ، ج 10، ص 644/جنات کی حکایات ص 10) جنات کو اللہ عزوجل نے یہ ادراک دیا ہے کہ وہ انسانوں کو دیکھ سکے لیکن انسانوں کو یہ کمال نہیں ملا کہ وہ جنات کو دیکھ پائے ہاں جنات اگر کسی اور شکل میں ظاہر ہو تو پھر اسے دیکھا جاسکتا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جو عادل شخص یہ گمان کرے کہ اس نے جن کی دیکھا ہے (اصل شکل میں ) تو میںاس کی گواہی کو باطل قرار دیتا ہوں۔ علامہ بدرالدین شبلی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بلاشبہ جنات انسانوں اور جانوروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں چنانچہ وہ سانپوں ، بچھووں ، اونٹوں ، بیلوں ، گھوڑوں ، بکریوں ، خچروں ، گدھوں اور پرندوں کی شکلوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ ( اکام المرجان فی احکام الجان،ص 21) جنات کے مذاہب اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ )پ 27، الذاریات 54( ترجمہ : اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے پیدا کیے کہ میری بندگی کریں۔ علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بلاشبہ جنات بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مکلف ہیں۔ (تفسیر الکبیر، ج10، ص 625) اسی طرح علمائے کرم تحریر کرتے ہیں کہ جنات ہر چیز میں نبیﷺ کی شریعت کے مکلف ہیں۔ اخبار وآثار میں وارد ہے کہ مومنین جنات نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں، تلاوت قرآن کرتے ہیں ، علوم دینیہ اور روایات حدیث انسانوں سے حاصل کرتے ہیں اگرچہ انسانوں کو اس کا پتہ نہ چلے۔ (الفتاوٰی الحدیثیة ، ص ۹۹) لیکن یہ تمام باتیں مسلم جنات میں پائی جاتی ہیں جس طرح انسانوں میں کفار موجود ہی اسی طرح جنات میں بھی کفار ہیں۔ اسی طرح اچھے اور برے جنات بھی ہوتے ہیں ۔ جن میں تلاوت کرنے والے جنات ، خوفِ خدا عزوجل کی وجہ سے جاں سے گزرنے والے جنات، تہجد گزارجنات، عمرہ ادائیگی ، کعبہ مشرفہ کا طواف وغیرہ کرنے والے نیک جنات ہوتے ہیں۔ جنات کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں صحابی جن حضرت عثمان بن صالح کا 219ہجری میں انتقال ہوا۔ (الاصابة فی تمیز الصحابیة ، حدیث 5806، ج4، ص 504) یہ تو جنات کا ایک مختصر کا تعارف تھا تاکہ پتہ چلے کہ جنات ہے کیا اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب آج کل کچھ لوگ غلط بات کو پھیلاے اور کمزور اعتقاد کے مالک حضرات ان پر بہت جلد اعتماد کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اس عقیدہ کے مالک ہیں کہ اللہ عزوجل نے جنات کو کوئی تصرف ، کوئی طاقت نہیں دی اور کچھ کا کہنا ہے کہ جنات کو بہت طاقت ملی ہے ۔ اللہ عزوجل نے جنات کو کتنی قوت عطا فرمائی قرآن وحدیث اور کچھ روایات سے اس دماغی خلش کو بھی اپنے دماغوں سے دور کرنے کی کوشش کرے۔ ملکہ سبا” بلقیس“ کا تخت شاہی 80گز لمبا اور 40ہاتھ چوڑا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے قاصد اور تحائف ٹھکرا کر اسے مسلمان ہونے کا حکم بھیجا اور دربار میں حاضری کا کہا۔ آپ علیہ السلام کی خواہش تھی کہ اس سے پہلے اس کا تخت آجائے ۔ آپ نے اپنے درباریوں سے فرمایاترجمہ سلیمان نے فرمایا اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں ایک بڑا خبیث جن بولا میں وہ تخت حضور میں حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بے شک اس پر قوت والا امانت دارہوں)پ ۹۱، النمل ۸۳/۹۳(۔ (عجائب القرآن ، ص 198) بیت المقدس کی تعمیر اور جنات حضرت داﺅد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی تو اس کی تکمیل سے قبل ہی آپ کی وفات کا وقت آپہنچا آپ نے اس کام کی وصیت اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو فرمائی ۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی ایک جماعت کو اس کام پرلگا دیا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی ۔ (عجائب القرآن ، ص 124) اسی دوران آپ کی وفات کا وقت آگیا اوار آپ محراب میں کھڑے ہوگئے لیکن جنات کو پتہ نہ چلے۔ ترجمہ : پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا جنوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی پھر جب سلیمان زمین پر آیا جنوں کی حقیقت کھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے )پ ۲۲، سبا 41( امیر المومینین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دشمنان اسلام کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر اسلام روانہ فرمایا پھر (چند دنوں) بعد ایک شخص مدینہ منورہ آیا اور اس نے اطلاع ی کہ مسلمان دشمنوں پر فتح یاب ہوگئے ۔ یہ خبر مدینہ منورہ میں عام ہوگئی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں علم ہوا تو ارشاد فرمایا کہ یہ ”ابوالہیشم “ جنوں کے خبر رساں ہیں عنقریب انسانوں کا خبر رساں بھی پہنچنے والا ہے ۔ چنانچہ چند دنوں میں وہ بھی پہنچ گیا۔ (لقط المرجان فی احکام الجان، ص 192) علامہ محمود آلوسی لکھتے ہیں کہ جنات اجسامِ ہوائیہ ہیں جن میں بعض یا سب مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مخفی رہتے ہیں اور بسااوقات اپنی اصل شکل کے علاوہ کسی اور شکل میں نظر آتے ہیں لیکن ان کو اصلی صورت میں دیکھنا انبیاءعلیہم السلام اور بعض اولیاءکرام رحم اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔(روح المعانی ، ج 29، ص 130) جنات کا انسان کو قابو کر لینا بہت سے دوست احباب کے نزدیک جنات انسان پر قابض نہیں ہو سکتے ہیں ۔ علامہ محمود آلوسی لکھتے ہیں کہ بعض اجسام میں ایک بدبو داخل ہوتی ہے ۔ اور اس کے مناسب ایک خبیث روح اس پر قابو پالیتی ہے اور انسان پر مکمل جنون طاری ہو جاتا ہے۔ بسااوقات یہ بخارات انسان کے حواس پر غالب ہوکر حواس معطل کردیتے ہیں اور وہ خبیث روح انسان روح کے جسم پر تصرف کرتی ہے او اس کے اعضاءسے کلام کرتی ہے ۔ چیزوں کو پکڑتی ہے اور ڈوڑتی ہے حالانکہ اس شخص کو بالکل پتہ نہیں چلتا اور یہ بات عام مشاہدات سے ہے جس کا انکار کوئی ضدی شخص ہی کر سکتا ہے ۔ (روح المعانی ، ج ۳، ص 28) اعلیٰ حضرت ، امام اہل سنت مولانا احمد رضا خاں رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حاضرات( شریر جنات مختلف روپ میں آکر مسلمانوں کو ستاتے ہیں ۔ بلکہ بسااوقات تو انسانی جسم میں ظاہر ہو کر کسی بزرگ کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور پھر لوگوں کے سوالات کے الٹے سیدھے جوابات دیتے ہیں ، بیماریوں کا علاج بتاتے ہیںوغیرہ ۔ اسی کو فی زمانہ حاضری کا نام دیا جاتا ہے ) کر کے موکلاں جن سے پوچھتے ہیں فلاں مقدمہ میں کیا ہوگا؟ فلاں کام کا انجام کیا ہوگا؟ یہ حرام ہے ۔ (تو اب جن غیب سے نرے جاہل ہیں ان سے آئندہ کی بات پوچھنی عقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان (جنات) کی غیب دانی کا اعتقاد ہوتو کفر ۔ (فتاویٰ افریقہ ، ص 177) کیا جنات انسان کو تکلیف دے سکتے ہیں؟ جنات انسان کو دو طرح سے تکلیف دے سکتے ہیں (۱) اس کے جسم سے باہر رہتے ہوئے (۲) اس کے جسم میں داخل ہو کر ۔ پہلی قسم کی مثال میں دو احادیث مبارکہ پیش خدمت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ شہنشاہِ مدینہ ﷺ ے روایت کرتے ہیں ”ابن آدم کو جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پیدائش کے وقت شیطان اس کو مس کرتا ہے (یعنی چھوتا ہے ) اور شیطان کے مس کرنے سے وہ بچہ چیخ مار کر روتا ہے ماسواءحضرت مریم رضی اللہ عنہا اور ا ن کے بیٹے کے (صحیح بخاری ، حدیث 3431، ج ۲، ص 453)۔حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میری امت طعن اور طاعون سے ہلاک ہوگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ ﷺ طعن کے بارے میں تو ہم نے جان لیا مگر یہ طاعون کیا ہے؟ ارشادر فرمایا: یہ تمہارے دشمن جنات کے نیزوں کی چھبن ہے اس کا مارا ہوا شہید ہے۔ (المسند امام احمد، حدیث 19545، ج ۷،ص 131) دوسری قسم میں جنات کا انسان کے بدن میں داخل ہو نا بھی قرآن و احادیث سے ثابت ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشادہے ترجمہ: قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیا ) پ ۳، البقرہ 275(۔ علامہ محمد بن انصاری قرطبی اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں یہ آیت اس شخص کے انکار کے فساد پر دلیل ہے جو یہ کہتا ہے کہ انسان کو پڑنے والا دورہ جن کی طرف سے نہیں اور گمان کرتا ہے کہ یہ طبیعتوں کا فعل ہے اور شیطان انسان کے نہ تو اندر چلتا ہے اور نہ چھوتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت آقا ﷺ کے پاس اپنے بیٹے کو لائی اور عرض گزار ہوئی کہ یارسول اللہ ﷺ میرے بیٹے کو جنون ِ عارض ہوتا ہے اور یہ ہم کو تنگ کرتا ہے ۔ آپﷺ نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی ۔ اس کے قے کی اور اس کے پیٹ سے سیاہ کتے کے پلے کی طرح کو ئی چیز نکلی ۔ (مسند الدارمی ، حدیث 19، ج ۱، ص 24) حیران کن بات یہ ہے کہ جہاں انسان جنات سے ڈرتا ہے وہاں جنات بھی انسانوں سے ڈرتے ہیں ۔ حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جتنا تم (انسانوں) میں سے کوئی شیطان سے گھبراتا ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے گھبراتا ہے لہذا جب وہ تمہارے سامنے آئے تو اس سے نہ گھبرایا کرو ورنہ تم پر سوار ہوجائے گا البتہ تم اس کے مقابلے کے لیے تیار ہوجایا کرو تو وہ بھاگ جائے گا۔ (لقط المرجان فی احکام الجان ، ص 138) جنات کے شر سے بچنے کے طریقے (۱) اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا (۲) تلاوت قرآن کریم (۳) ذکر اللہ عزوجل کی کثرت (۴) اذان دینا(۵) لاالہ الااللہ وحدہ ¾ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئٍ قدیر (سومرتبہ روزانہ) (۶) جنات اور جادو وغیرہ کے وظائف (۷ ) چکنائی والی چیزیں جلد دھو ڈالنا (۸) گھر میں لیمو رکھنا (۹) سفید مرغ رکھنا (۰۱) تعویزات استعمال کرنا اس پوری مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ جنات کا وجود موجود ہے اس سے انکار کرنے والا کافر ہے۔ انسانوں کی طرح جنات بھی شادی کرتے ہیں ان کے اولاد ہوتی ہے ان کی عمریں طویل ہوتی ہے وہ ایسے کام بھی کر گزرتے ہیں جو عقلِ انسانی سے باہر ہوتے ہیں ۔ انسان کو جسم میں یا اس سے باہر نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ۔ لیکن یہ مستقبل کی خبریں نہیں بتاسکتے ۔ مزید تفصیلات کے لیے مکتبہ المدینہ کی شائع کردہ کتاب ”قوم جنات اور امیر اہل سنت “ کا مطالعہ کرے ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریر لوگوں سے بچائے۔ ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔ طالب دعا: قیصر مصطفی عطاری (بزم رضائے محمد ﷺ | |
|
muhammad khurshid ali Moderator
Posts : 371 Join date : 05.12.2009 Age : 42 Location : Rawalpindi
| Subject: Re: جنات کی حقیقت Wed 23 Dec 2009 - 10:48 | |
| | |
|