موجودہ صدی میں ہمارا دینی حال
میرے پیارے آقا کے پیارے دیوانو! اگر ہم عالمی سطح پر قومِ مسلم کے دینی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پہلے سے کافی گراوٹ نظر آتی ہے اور دینی اعتبار سے مسلمانوں میں بے راہ روی، منافرت و کشیدگی کافی بڑ ھتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ پہلے حلال و حرام، جائز اور ناجائز کا مسلمانوں میں کسی حد تک خیال رکھا جاتا تھا لیکن اب اس کا تجزیہ کریں اور مسلمانوں کے اعمال و کردار کا تنقیدی جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز سے حلت و حرمت کی تمیز گویا امت مسلمہ میں کمزور دکھائی دے رہی ہے ، پہلے تجارتی لین دین کے کسی ناجائز طریقہ پر علما سود کا حکم دیتے اور شرعی احکام پیش کرتے تو لوگ اسے ترک کر دیتے ، اب تو یہ عام بلا بنتی جا رہی ہے اور بے شمار مسلمان اس میں گرفتار ہو رہے ہیں ، اسی طرح خیانت کا بھی دور دورہ ہے ، لوگ امانتوں کو بے خوف و خطر ہڑ پ کر جاتے ہیں اور خیانت کی سزا کی انہیں فکر نہیں ہوتی، اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ا کا جذبہ مفقود نظر آتا ہے ، بلکہ نئی نسل کے نوجوانوں کو خلفائے اربعہ کے نام تک نہیں معلوم اور فلم انڈسٹری کے ہیرو ہیروئن کے بارے میں تاریخِ پیدائش سے لے کر ان کی پسند سے ناپسند تک سب کچھ جانتے ہیں ۔العیاذ باللہ
بظاہر مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد زیادہ دکھائی دے لیکن اگر آپ اس کا اثر نمازیوں کی زندگی پر دیکھنا چاہیں تو ندارد۔ حاجیوں اور روزہ داروں کی تعداد میں قدرے اضافہ ضرور ہوا لیکن ان عبادات کے اثرات انسانی زندگی پر کہیں کہیں نظر آتے ہیں ۔ تحریکات کا وجود لیکن اخلاص ناپید۔ الا ماشاء اللہ
رہے دینی معلومات اور دینی تعلیم کے حصول کا شوق تو یہ سب کچھ عیاں ہے ۔۔۔۔یاد رکھیں ! دین ہی ہماری اصل پونجی ہے ، اگر یہ ضائع ہو گئی تو دونوں جہاں برباد اور اگر یہ سلامت تو دونوں جہاں میں ہم سلامت۔ آج دینی سرگرمیوں کی طرف نوجوان پیش قدمی نہیں کرتے ، یہی وجہ ہے کہ دن بدن دین سے بغاوت اور نفرت نئی نسل میں عام ہوتی نظر آتی ہے ۔ الا ماشاء اللہ
گزشتہ سال ہر اعتبار سے ہم سب کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ تم نے قوم کے خورد و نوش اور رہائش وغیرہ کا انتظام تو کیا ہو گا لیکن ان کے دلوں میں دینی شعور اور ملی تڑ پ بیدار کرنے کے بارے میں کوئی فکر نہیں جو کہ دنیاوی زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے ۔ اس لئے کہ دین ہی انسان کو انسان بناتا ہے اور زندگی کی آخری سانس تک دین ہی کے دامن سے وابستہ رہنے کا اللہ عزوجل نے حکم دیا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ دین ہی نے ہم کو عزت دی، شہرت دی، کامیابی دی، مقام دیا اور آج دین سے دوری کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں کہ جو کچھ تھا وہ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے ۔ خبردار! اپنی زندگی کو دین سے دور نہ رکھیں ۔ گزشتہ صدی میں عوام کا حال یہ تھا کہ علمائے کرام اگر کسی معاملہ میں کوئی حکم صادر فرمادیتے تو عوام بے چون و چرا اسے قبول کر لیتی اور اس پر عمل کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتی اور ان کے فیصلہ کو اپنے لئے حرفِ آخر اور کامیابی کی ضمانت تصور کرتی۔ علمائے کرام کی زیارت اور ان کی صحبت سے استفادہ، ان کی مجلس کی حاضری کو رحمت خیال کر کے بچوں کے دلوں میں اللہ و رسول کی محبت اور ذکر و درود کا سچا جذبہ بیدار کرتی، جھوٹ سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا اور صدق ہی ان کی پہچان تھی۔
دھوکہ دہی، فریب کاری کو آج کے دور میں پالیسی اور فن تصور کیا جاتا ہے ، جب کہ گزشتہ صدی میں اسے ایک بدترین عیب سمجھا جاتا، مساجد میں دنیا کی باتیں کرنا گناہ جانتے ، جوا، شراب اور حرام چیزوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے ، بڑ وں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت اور والدین کی اطاعت، پڑ وسیوں کے ساتھ صلہ رحمی ان کا وطیرہ تھا اور ان کی خیر خواہی لازمی گردانتے تھے ، گویا گزشتہ صدیوں میں ہمارا حال کسی حد تک اچھا تھا، لیکن اکیسویں صدی میں ہر سال ہمارا دینی حال نہایت ہی گھناؤنا ہوتا جا رہا ہے ۔ ہمیں دینی تعلیمات اور مذہبی اصول و قوانین کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی فکر ہے ، نہ ہی اسلامی تشخص بر قرار رکھنے کا کوئی شوق۔ احترام، عبادت، پردہ، ذکرو درود، مساجد کا احترام وغیرہ سب مفقود، بلکہ ان کی جگہ اللہ تعالیٰ کی پیہم نافرمانیوں کا ایک تسلسل ہے جو ہر کسی پر واضح اور روشن ہے ۔
آج ہم اپنی بے آبروئی، ذلت و رسوائی اور زوال و پستی کی باتیں کر تے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ غیر قوم ہم کو اسلامی شعار میں حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے ، تو میں کہتا ہوں کہ تاریخ کا مطالعہ کرو، جب تک ہمارا دینی حال اچھا تھا ہر کوئی ہمارا احترام کرتا اور غیروں پر بھی اس کا اثر ہوتا۔ غیر قوم مسجد کے قریب کبھی ڈھول باجا نہیں بجاتی تھی، اگر وقتِ نماز میں مسلمان کہیں نماز پڑ ھتا ہو تو غیر قوم کے لوگ بھی احتیاط سے باتیں کیا کرتے ، ماہِ رمضان المبارک میں غیر قومیں دن کے اجالے میں مسلمانوں کے سامنے کھانے پینے سے احتیاط کرتیں ۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ان کا یہ فعل مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب ہو گا اور اس طرزِ عمل سے ان کے مذہبی امور کی بجا آوری میں خلل واقع ہو گا۔
لیکن ہم شیطان کے مکر و فریب کے شکار ہوئے اور ہم نے خود اپنے دینی احکام کی بجا آوری میں حد درجہ کوتاہی برتی، ہم نے مسجد کا احترام چھوڑ دیا، ہمارے گھر مسجد سے قریب ہوں تو بھی ناچ گانوں کی آواز سے نمازیوں کو تکلیف ہم ہی پہنچاتے ہیں ، بھلا جب مسلمان ہی ایسا کرے گا تو غیر قوموں پر اس کا کیا اثر ہو گا۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری ان ساری چیزوں کی وجہ ہمارا دین سے رشتہ کمزور ہونا ہے ، بلکہ (معاذ اللہ) دین ہی کو اپنی ترقی میں رکاوٹ ہم سمجھنے لگے ، ہم نے ترقی کے نام پر اور باعزت بننے کے لئے پہلے داڑ ھی منڈوائی، پھر مونچھیں رخصت ہوئیں اور بالکل زنانی صورت اختیار کر لی۔ داڑ ھی کے رخصت ہوتے ہی بے غیرتی بڑ ھی، بے شرمی بڑ ھی، تباہی نے دروازے پر دستک دی، ہم سمجھے کہ اب ترقی کریں گے ، ہم نے یہود و نصاریٰ جیسی شکل بنا لی، داڑ ھی منڈانے سے کیا چیز ہاتھ آئی؟ کون سی ترقی ہم نے کر لی؟ سوائے اس کے کہ اہلِ نظر کو یقین ہو گیا کہ اب فرزندانِ اسلام میں اطاعتِ رسول ا کا جذبہ باقی نہیں ہے ، شریعت کا احترام ان کے دلوں سے جاتا رہا۔ جو علی الاعلان اپنے حبیب ا کی سنت کو تراشتا ہو وہ کیسے بہتر اور قابلِ عزت ہو سکتا ہے ؟ داڑ ھی منڈانے سے عزت کیا ملتی خود اپنے رب کی ناراضگی مول لے کر عوام کا اعتماد بھی کھو بیٹھے ۔ ترقی کے بجائے تنزلی ہمارے ہاتھ آئی۔
آج اگر ہم سِکھ قوم کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے داڑ ھی اور سر کے بالوں کو منڈوائے بغیرخوب ترقی کی۔ ترقی کے لئے کبھی یہ چیزیں ان کے لئے رکاوٹ نہیں بنیں ، جہاں دیکھو، جس بڑ ے عہدے پر دیکھو، جس ملک میں دیکھو، جس میدان میں دیکھو وہ کامیاب نظر آئیں گے اور اپنے شعار کے ساتھ۔ لیکن آج قومِ مسلم کو دینی شعار اختیار کرنے میں شرم آتی ہے ، داڑ ھی رکھنے میں شرم، نماز پڑ ھنے میں شرم، پردہ کرنے میں شرم، بیٹھ کر کھانے پینے میں شرم، اسلامی لباس اختیار کرنے میں شرم۔ اس قدر ہم نے شرم کیا کہ بے شرمی اور بے حیائی کی ساری حدیں تجاوز کر گئے ۔
میرے پیارے آقا کے پیارے دیوانو! ہمیں جو کام کرنے میں فخر ہونا چاہئے آج ہمیں انہیں کاموں میں شرم محسوس ہو رہی ہے اور جو کام کرنا بے شرمی اور بے غیرتی کی بات تھی آج ان کاموں کو فخر کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ آج ناچ گانے ، فحاشی، فلم بینی، بے غیرتی، بے پردگی، عریانیت، غیر عورتوں سے ملنا، ملانا جو کبھی بھی باعزت مسلمان پسند نہیں کر سکتا، آج ترقی کے نام پر سب کچھ ہو رہا ہے اور مسلمان ایسا کرنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں ، ساتھ ہی دوسروں کو ایسا کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں ۔ اگر شریعتِ مصطفی ا سے روگردانی ترقی ہے تو لعنت ہو ایسی ترقی پر، جان لو کہ شریعت کو چھوڑ کر ترقی کیا ملے گی، بربادی ہی بربادی ہاتھ آئے گی اور ذلت و رسوائی کے سوا اس کا کچھ بھی حاصل نہیں ۔ ذلت و خواری، انحطاط و پستی ، تباہی وبربادی سے ہمارا رشتہ اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ مکمل کوشش کے باوجود بھی ہم اپنے دامن کو بچا نہیں سکتے ، عروج وارتقا، عظمت وشوکت کی راہ پر گامزن ہونا تو دور کی بات ہے ۔ لہٰذا ہمیں غور کرنا چاہئے کہ مزید تباہ ہونا ہے یا پھر ترقی کرنی ہے ؟ اگر ترقی کرنی ہے تو اسلامی شعار کے ساتھ ساتھ علم کے میدان میں ، سائنس کے میدان میں ، تحقیق کے میدان میں ، تجارت کے میدان میں اور سیاست کے میدان میں قوم بڑ ھ کر حصہ لے انشاء اللہ العظیم کبھی بھی یہ قوم زوال پذیر نہیں ہو گی اور ترقی اور کامیابی بھی اس کے ہم رکاب رہے گی، دین کے دامن کو تھامنے کی وجہ سے اللہ عزوجل عظمت و سربلندی اور قدر ومنزلت عطا فرمائے گا۔ ماضی ہمارا اتنا روشن وتابناک ہے کہ ہم ان تابناکیوں کو دیکھیں اوراسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو روئے زمین ، خاص طور پر مدینہ منورہ مومنوں کے لئے فیض رساں اور عروج و ارتقا کی سرزمین بن جائے گا۔
میرے پیارے آقا ا کے پیارے دیوانو! آپ نے گزشتہ صدی میں مسلمانوں کے دینی حالات کے حوالہ سے جانکاری حاصل کی ۔ اب آیئے گزشتہ صدی میں مسلمانوں کے احوال کا دنیوی جائزہ لیں ، گزشتہ صدی میں مسلمانوں کے دنیوی حالات بے پناہ بہتر تھے ، زراعت ان کے قبضے میں تھی، کاشتکاری ان کا کام تھا، مالی اعتبار سے کافی خوش حالی تھی اور ساتھ ہی ساتھ تعلیم کے معاملے میں اور حکومت کے مختلف شعبوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی اچھی تھی لیکن تعلیم کے فقدان اور دین سے رشتہ کمزور ہونے کی وجہ سے دینی و دنیوی اعتبار سے جو مسلمانوں میں زوال آیا وہ نگا ہوں کے سامنے ہے ۔ زراعت، معیشت کے اندر مسلمان اب پہلے کے مقابلے میں کافی کمزور واقع ہوئے ہیں ، مالی اعتبار سے مسلمان غیروں کے بوجھ تلے دبے نظر آتے ہیں ، آج بچوں کی تعلیم کے لئے امت مسلمہ کے پاس دولت نہیں ہے ، رہائش کے لئے صحیح طور پر مکان موجود نہیں ہے اورسرکاری ملازمت کا جہاں تک مسئلہ ہے وہ بھی انتہائی سنگین ہے کہ تعلیمی معیار کمزور ہونے کی وجہ سے اورمذہبی تعصب و تنگ نظری کی وجہ سے آج مسلمان حکومت کے مختلف شعبوں میں خال خال نظر آتے ہیں ۔
آخر یہ زوال کیوں کر شروع ہوا اس کے وجوہات پر غور کریں ۔ مسلمانوں نے ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ترقی کے صرف معمولی وسائل پر اپنی پکڑ مضبوط کی اور عروج و ارتقا کے بیشتر امکانات سے بے پرواہ ہو کر پیش قدمی شروع کی، تعلیم کی جانب تو بالکل توجہ نہیں دی اور نہ ہی اپنے اسلاف کی خدماتِ جلیلہ کو بروئے کار لانے کی کوشش کی۔
تعلیم کی جانب قابلِ قدر توجہ نہ دینے اور دولت و ثروت میں بے جا فضول خرچی کی وجہ سے ان کی بے وقعتی میں اضافہ ہوتا گیا، ناخواندگی کے سبب ان کی پوزیشن دفاعی ہو گئی اور وہ ہر میدان میں غیروں کے آلۂ کار بن گئے اور اپنا دینی و ملی اثر و رسوخ کھو دیا۔ جب کہ پہلے کے مسلمانوں میں یہ جذبۂ بے کراں ضرور کار فرما ہوتا کہ کم از کم وہ اپنے دینی بھائیوں کے لئے ترقی کی راہیں ہموار کریں اور انہیں صاحبِ روزگار، صاحبِ حیثیت بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور وحدت و اجتماعیت کے ساتھ کام کرنے کے لئے آپسی معاہدہ کریں اور شعائر اسلام اور مذہبی شناخت کے تحفظ و بقا کے لئے ممکنہ لائحۂ عمل مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ پوری قومِ مسلم کو اس کی اہمیت و افادیت اور ضرورت و حاجت سے آگاہ کریں ۔ لیکن آج مسلمانوں کے حالات انتہائی سنگین صورت اپنائے نظر آتے ہیں ، عیش و عشرت اور شیطانی حرکت و عمل نے انہیں بے غیرت بنا کر رکھ دیا اور ان کے دلوں سے ایمانی جذبہ نکال کر دنیاوی خواہشات کی آماج گاہ بنا دیا، اس لئے نہ تو ان کی تجارت میں اچھی سرمایہ کاری ہوتی ہے اور باہمی اخوت و بھائی چارگی کے فقدان اور آپسی منافرت و چپقلش کی کالابازاری کے سبب نہ ہی ترقی کرتے نظر آتے ہیں ۔ بدکرداری و بے حیائی کے سارے وسائل پر قابض ہونے کی لالچ میں اپنا سارا سرمایہ، ساری دولت غیروں کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں ۔ یہ امتِ مسلمہ کے لئے انتہائی مشکل ترین مرحلہ ہے ۔
میرے پیارے آقا کے پیارے دیوانو! دین سے دوری کے سبب ہی ہم تنزلی کے شکار بھی ہوئے اور تعلیم کے فقدان کے سبب دولت کے صحیح استعمال کا طریقہ نہ جان سکے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دولت بے ڈھنگی خرچ ہوئی اور سارا سرمایہ دشمنوں کے ہاتھ میں پہنچ گیا اور ہم بے دست و پا ہو گئے ۔ آج مقابلہ آرائی کے اس ماحول میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ قومِ مسلم دنیا کے رکھ رکھاؤ میں تو آگے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مالی اعتبار سے دوسروں سے بہتر بننے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے ۔ آج تجارت کی منڈی میں اگر دیکھا جائے تو ہول سیل (Whole Sale) کی ساری مارکیٹ پر غیروں کا قبضہ ہے ، ساری منڈیوں پر غیروں کا تسلط ہے اور قومِ مسلم ایک مزدور کی حیثیت سے آج اپنی زندگی کی ساعتوں کو گزار رہی ہے ۔
میرے پیارے آقا کے پیارے دیوانو! یہ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے ، جب تک ہم دین سے قریب تھے اللہ عزوجل دولت ہمیں عطا فرماتا تھا اور دولت کے استعمال کا ڈھنگ بھی ہم اچھی طرح جانتے تھے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر اعتبار سے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں ، مالی اعتبار سے خوشحال بنیں اور بینک کا قرض ہو یا سودی قرض ہو سب سے پہلے ان ساری چیزوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ محنت و مشقّت کے ساتھ کام کریں اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے جد و جہد کریں ۔ اگر ہم نے تجارت کے فروغ کے لئے جد و جہد کی اور نام و نمود اور اسراف سے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے اندر یہ لیاقت و صلاحیت پیدا ہو جائے کہ ہم اپنی قوم کے لئے ، اپنے دین کے لئے ، اپنے ملک کے لئے کچھ خدمات انجام دے سکیں اور زمین پر بوجھ بن کر زندگی گزارنے سے اپنی ذات کو محفوظ رکھیں ۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قوم کی فکری قیادت کے لئے افراد کا تعین کریں ، سماج کے اندر پائی جانے والی کج روی کو دور کرنے کی کوشش کریں ، صاحبِ فن کو مظاہرۂ فن کے مواقع فراہم کریں اور بے روزگاروں کو جائز و درست روزگار کی راہ دکھائیں اور ہر طرح سے اپنی معاشی حالت، تعلیمی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں ۔
ان دنیوی حالات کو اگر ہم نے سدھارنے کی کوشش نہیں کی تو اچھی طرح سے یاد رکھیں کہ رسولِ گرامی وقار نے فرمایا کہ مفلسی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے ، افلاس کی وجہ سے لوگ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ آج ضرورت یہ بھی ہے کہ ہم خود بھی معاشی اعتبار سے مستحکم ہوں اور اپنی قوم کو بھی مستحکم کرنے کے لئے جد و جہد کریں ۔
میرے پیارے آقا کے پیارے دیوانو! دنیوی حالات پر ایک مختصر سا تبصرہ میں نے آپ کے سامنے نئے سال کے آغاز سے پہلے پیش کر دیا، اب آئیے چند فارمولے آپ کے سامنے رکھوں ، چند نکاتی پروگرام ماہِ محرم کے چاند سے پہلے آپ پڑ ھ لیں اور سال بھر اس فارمولے پر عمل کی کوشش کریں انشاء اللہ آپ خود دیکھیں گے کہ یہ سال ان فارمولوں پر عمل کرنے کی وجہ سے میرے کریم کے کرم سے اور اس کے پیارے محبوب ا اور سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدقہ و طفیل ضرور کسی حد تک فائدہ لیے نظر آئے گا۔
۱۔نمازِ پنج گانہ کی پابندی کی جائے ، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو کہ سید الشہدا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقتِ آخر بھی سجدہ ترک نہ کیا۔
۲۔تلاوتِ قرآنِ مقدس کے لیے وقت مقرر کیا جائے اور بلا ناغہ ترجمہ و تفسیر کے ساتھ قرآن پڑ ھا جائے ۔
۳۔ملازمت میں ذمہ داری کا احساس، تجارت و کاروبار میں دیانت داری کا مظاہرہ ہو اور ہر طرح کی دھوکہ دہی، فریب کاری، خیانت و وعدہ خلافی سے آپسی معاملات کو پاک و صاف رکھا جائے ۔
۴۔تضییع اوقات سے حد درجہ اجتناب برتیں ، لہو و لعب سے دور رہیں ، وقت نکال کر دینی کتب و رسائل کا مطالعہ کریں ۔
۵۔اچھوں کی صحبت اختیار کریں ، علمائے کرام کے بیانات سے استفادہ کریں ، ہمیشہ نیک و صالح شخص کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں ۔
۶۔ہمیشہ، ہا حال میں سچ بولیں ، دروغ گوئی اور کذب بیانی کے قریب بھی نہ جائیں ۔
۷۔اپنے اچھے کردار و عمل سے ہر وقت قوم و ملت کو فائدہ پہنچانے کی جد و جہد کریں ، ہرگز کوئی ایسا کام نہ کریں یا کوئی بات نہ بولیں جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے یا کسی کی دل شکنی ہو۔ اندازِ گفتگو شائستہ ہو اور ہر کسی کے ساتھ حسنِ سلوک کریں ۔
۸۔حصولِ روزی کے ناجائز طریقۂ کار سے خود بھی دور رہیں اور دوسروں کو دور رہنے کی تلقین کریں ۔
۹۔اپنا کام خود کرنے کی کوشش کریں اور ہرگز دوسروں پر بوجھ نہ بنیں بلکہ غیروں کا ہاتھ بٹائیں اور اپنے بھائیوں کی نصرت و اعانت میں کوتاہی نہ کریں ۔
۱۰۔ہر قسم کے تیز مشروبات و ماکولات اور نشہ آور اشیا سے سختی سے باز رہیں اور حرام و حلال میں تمیز کرنے کا جذبہ پیدا کریں ۔
۱۱۔بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص دھیان دیں ، انہیں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے ضرور آراستہ کریں ، گھر کا ماحول اسلامی بنائیں اور ہرگز خلافِ شرع کام کے قریب نہ پھٹکیں ، بچوں کی مناسب رہنمائی کے لئے خوب خوب وقت نکالیں اور انہیں ہر کام میں وقت کا پابند بنائیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے مثبت اثرات بہت جلد آشکارا ہوں گے ۔
۱۲۔بچوں کے سامنے والدین آپسی نوک جھونک سے مکمل پرہیز کریں اور ہرگز ان کے سامنے ایسا کام نہ کریں جس کا وہ غلط اثر لیں ، کیوں کہ ماں ، باپ ہی ان کے لیے آئیڈیل ہیں ، خود غلط لوگوں کی صحبت اختیار نہ کریں اور اپنے بچوں کو ناکارہ، بے ہودہ لڑ کوں کے ساتھ نہ رہنے دیں ، اگر آپ نے اسے کھلی چھوٹ دی تو بروزِ قیامت ضرور آپ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
۱۳۔اولاد کو چاہئے کہ اپنے ماں ، باپ کی فرمانبرداری اور ان کی اطاعت میں ہرگز کوتاہی نہ کریں اور اپنے قول و فعل سے انہیں ذرہ برابر کوئی تکلیف نہ پہنچائیں ۔
۱۴۔والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص دھیان دیں اور انہیں ہر ایسا قدم اٹھانے سے باز رکھیں جو بے حیائی، بدکرداری کی طرف لے جانے والا ہو۔ شروع ہی سے انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے رہیں اور خود غیر اسلامی طریقۂ کار کو اپنانے سے گریز کریں ۔
یہ چند چیزیں ہیں جو مدینۂ منورہ میں رحمتِ عالمکے صدقے میرے ذہن میں آئیں اور میں نے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ علمائے اہلسنت کی صحبت سے استفادہ کا وقت نکالنے کی کوشش کریں ، انشاء اللہ العظیم حکمت و دانائی کی چند باتیں دلوں کے گلشن کو مہکا دیں گی۔ اسی طریقہ سے سُنّی دعوتِ اسلامی کے اجتماعات میں پابندی سے پہنچنے کی کوشش کریں کہ ذکر الٰہی سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے اور تصور ہی تصور میں ہر ہفتہ مدینہ کی حاضری کی خیرات مل جاتی ہے ۔
ان ساری چیزوں کو سمجھ لینے کے بعد آئیے ۱۴۲۸ھ کا پہلا مہینہ ماہِ محرم شریف کے استقبال کے حوالے سے کچھ جانکاری حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کے لئے بارگاہِ صمدیت میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل ہمیں ماہِ محرم شریف کے استقبال کی کما حقہٗ توفیق عطا فرمائے-