حجۃ الوداع کے موقع پرحضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عظیم ترینتاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا، اس مبارک خطبہ میں اسلامی تعلیمات کا مغز وعطر ذکر فرمایا۔
نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ساری انسانیت کو ایک آفاقی پیغام دیا، انسانیحقوق کا ذکر فرمایا، بنی نوع انسان کے تمام اصناف سے متعلق حقوق و فرائضبیان فرمائے اور ساری انسانیت کو ایک ناقابل تبدیل الٰہی قانون عنایتفرماکر عظیم احسان فرمایا۔
حجۃ الوداع کے اس خطبہ کو فقہی، شرعی اور اسلامی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس سے کئی احکام مستنبط ہوتے ہیں۔
خطبۂ حجۃ الوداع عالمی اور بین الاقوامی اعتبار سے بھی بے مثال ہے کہ اسمیں انسانی حقوق کی بابت ایسے اہم اور ضروری ارشادات ہیں جو قانون دان وقانون ساز افراد کے لئے قانون مدون کرنے اور دستور وضع کرنے کے سلسلہ میںبیک وقت مشعل راہ اور منزل مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ مبارک خطبہ درج ذیل ہے :
تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، ہم اس کی حمد کرتے ہیں، اسی سے مددچاہتے ہیں۔ اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اس کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیںاور اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ کی پناہ میںآتے ہیں۔
جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا-
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہوالہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں۔
اے اللہ کے بندو!
میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کا تاکیدی حکم دیتا ہوں، اس کی اطاعت پر اُبھارتا ہوں اور اس چیز سے آغاز کرتا ہوں جو خیر ہو۔
اما بعد!
لوگو! مجھ سے سنو، میں تمہیں بیان کرتا ہوں، کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد اس جگہ میری تم سے ملاقات ہو۔
لوگو! یقینا تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزت تمہارے پاس قابلاحترام ہیں یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے جاملو جیسے تمہارا آج کا دنتمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں حرمت والا ہے-
سنو! کیا میں نے پیغام حق پہنچادیا؟
اے اللہ! تو گواہ رہ۔
جس شخص کے پاس کوئی امانت ہو وہ اس شخص کو ادا کردے جس نے اس کے پاس امانت رکھائی۔
جاہلیت کا سارا سود معاف ہے البتہ اصل مال تمہارا حق ہے-
نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا کہ سود نہیں لینا چاہیے اور پہلا سود جس کو میں کالعدم قرار دیتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔
یقینا جاہلیت کا خون معاف ہے اور پہلا خون جسے میں ساقط کر رہا ہوں (میرےچچاکے بیٹے) ایاس بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے۔
بے شک جاہلیت کے منصب و عہدے گرادئیے جاتے ہیں، سوائے خانہ کعبہ کی رکھوالی اور حجاج کو پانی پلانے کے۔
قتل عمد (بہ ارادہ آلۂ جارحہ سے قتل کرنے) پر قصاص ہے، شبہ عمد وہ ہے جسمیں لاٹھی یا پتھر سے موت واقع ہو، اس میں بطور خون بہا سو اونٹ ہیں، جوشخص اس سے زیادہ کا مطالبہ کرے وہ جاہلیت والوں میں سے ہے۔
لوگو! یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق عطا فرمایا ہے۔ لہٰذا کسی وارث کے حق میں وصیت نہ کی جائے۔
بچہ اسی شخص کی جانب منسوب ہوگا جس کی بیوی سے وہ پیدا ہو اور حرام کاریکرنے والے کے لئے پتھر ہے اور اُن کا حساب و کتاب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔
جس شخص نے اپنی نسبت اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی جانب کی یا کوئی غلاماپنے آقا کے بجائے کسی اور کو اپنا آقا بتائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنتہے۔
قرض قابل ادائیگی ہے-
عاریۃً لی ہوئی چیز واپس کردی جائے!
تحفہ کا بدلہ دیا جائے !
جو شخص کسی کا ضامن ہو ،تاوان وہی ادا کرے!
اے لوگو! اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمام مؤمن بھائی بھائی ہیں۔
کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کا مال حلال نہیں سوائے اس کے کہ وہ خوش دلی سے پیش کرے۔
سنو! کسی خاتون کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے۔
اے لوگو! سال میں کبیسہ گری مہینوں کو آگے پیچھے ہٹا دینا کفر میں اضافہکا باعث ہے، کفار اس کے ذریعہ مزید بھٹکائے جاتے ہیں وہ اس کو ایک سالحلال قرار دیتے ہیں اور دوسرے سال حرام قرار دیتے ہیں تاکہ ان مہینوں کیتعداد پوری کریں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قابل حرمت بنایا ہے۔
اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے اس کو حرام قرار دیتے ہیں-
یقینا زمانہ گھوم کر اس حالت پر آگیا ہے جیسا اُس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا-
بے شک اللہ تعالیٰ کے پاس مہینوں کی تعداد اللہ کی کتاب میں بارہ ہے جس دناُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ۔ اُن میں سے چار مہینے حرمت والےہیں، تین مہینے مسلسل اور ایک تنہا-(1) ذوالقعدۃ-(2) ذوالحجہ ،(3) محرم(4) اور "رجب" جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔
آگاہ ہوجاؤ! کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا؟
اے اللہ! تو گواہ رہ۔
خبردار! تم لوگ میرے بعد گمراہ مت ہوجاؤ کہ آپسی جنگ و جدال، کشت و خون میں مبتلا رہو۔
اے لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
اپنے غلاموں اور باندیوں کا خیال رکھو-
اپنے غلاموں اور باندیوں سے اچھا سلوک کرو۔
انہیں اس میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہ لباس پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔
اگر وہ ایسی ایسی غلطی کریں جسے تم معاف کرنا نہیں چاہتے تو اللہ کے بندو ! اُن کو فروخت کردو اور انہیں تکلیف نہ دو ۔
اے لوگو! تمہارے اوپر تمہاری بیویوں کے حقوق واجب ہیں اور اُن کے ذمہ تمہارے حقوق ہیں-
تمہاری عورتوں کے ذمہ تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس ایسے شخص کو نہبلائیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور یہ بھی اُن کی ذمہ داری ہے کہ کوئی بےحیائی کا عمل نہ کریں ،اگر وہ ایسا کوئی عمل کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہیںاس بات کی اجازت دی ہے کہ تم انہیں خوابگاہوں میں چھوڑ دو اور انہیں ہلکیسی تنبیہ کرو۔ اگر وہ باز آجائیں تو دستور کے مطابق نان نفقہ اور لباس اُنکا حق ہے۔
عورتوں سے متعلق بھلائی کی نصیحت قبول کرو کیونکہ وہ تمہاری پابند اورتمہارے زیر فرماں ہیں۔ وہ خود اپنے لئے کچھ نہیں کرسکتیں، لہٰذا تم عورتوںکے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھحاصل کیا اور کلام الٰہی کے صدقہ وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں۔
اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ اب تمہاری اس سرزمین پر اس کیعبادت کی جائے لیکن وہ اس بات سے خوش ہے کہ اس کے سوا دیگر ایسی چیزوں میںاس کی اطاعت کی جائے جنہیں تم اپنے اعمال میں کمتر اور حقیر سمجھتے ہولہٰذا تم اپنے دین کے بارے میں شیطان سے بچتے رہو۔
دیکھو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ پنج وقتہ نماز ادا کرو-
تمہارے مہینہ (رمضان المبارک) کے روزے رکھو، خوش دلی اور طیب خاطر سے اپنےاموال کی زکوٰۃ دو۔ اپنے رب کے گھر کا حج کرو اور اپنے ائمہ و امراء کیاطاعت کرو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔
خبردار! مجرم خود اپنے جرم کے ارتکاب کا ذمہ دار ہے، جان لو! نہ باپ کےبدلہ بیٹے کا مؤاخذہ کیا جائے گا اور نہ بیٹے کے جرم پر باپ سے باز پرسہوگی۔ میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی کہ جب تک تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہوگے میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے نبیصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت اور اہل بیت کرام کی محبت ۔
اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارے والد ایک ہیں، تم سب آدم (علیہالسلام) سے ہو اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے ہیں، اللہ تعالیٰ کے پاس تممیں بزرگ ترین وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، کسی عربی کو کسیعجمی پر کوئی فضیلت و فوقیت حاصل نہیں بجز تقویٰ کے۔ سنو! کیا میں نےپیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! تو گواہ رہ۔ حاضرین نے عرض کیا: ہاں! (آپ نےپیغام حق پہنچادیا) آپ نے ارشاد فرمایا جو حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب تکیہ پیغام حق پہنچا دے کیونکہ اکثر جس کو بات پہنچائی جائے وہ راست سننےوالے سے زیادہ اس کو یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم شریف ۔ ج1۔ ص397، ترمذی شریف ۔ ج2۔ ص219،کنز العمال ۔ج3۔ 22/ 24، سیرت ابن ہشام ۔ ج1۔ص 76/77)
از:حضرت مولانا مفتی سیدضیاء الدین نقشبندی قادری
نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ ،حیدرآباد دکن
بانی ابولحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر وفاؤنڈرآف :
www.ziaislamic.com