Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: وفا کا سفر Thu 24 Jun 2010 - 9:59 | |
| [size=24]بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت عزیز علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی گزرے ہیں جو قوم نبی اسرائیل کی ہدایت کے لئے دنیا میں بھیجے گئے۔ جب قوم بنی اسرائیل کی بداعمالیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر اللہ کی طرف سے قہر نازل ہوا۔ اچانک ایک کافر بادشاہ جس کا نام بخت نصر تھا بہت بڑی فوج لے کر بیت المقدس پر حملہ آورہوا اور شہر کے ایک لاکھ افراد کو قتل کردیا۔ ایک لاکھ کو گرفتار کرلیا اور باقی ملک شام میں ادھر ادھر بکھر کر روپوش ہوگئے۔ نصر بخت کی فوج نے پورے شہر کو توڑ بھوڑ کر اور اجاڑ کر رکھ دیا۔ حضرت عزیز علیہ السلام بھی گرفتار کر لئے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب حضرت عزیز علیہ السلام رہا ہوکر اور ایک گدھے پر سوار ہوکر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو اپنے اجرے ہوئے ویران شہر کو دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور رونے لگے۔ اس وقت آپ کے پاس ایک برتن کھجور کا ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا۔ آپ اس اجڑے ہوئے شہر کو دیکھ کر سوچنے لگے کہ اس برباد اور اجڑے ہوئے شہر کو اللہ کس طرح آباد فرمائے گا۔ پھر آپ نے درختوں سے کچھ بھل توڑ کر تناول فرمائے اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا اور بچے ہوئے شربت کو برتن میں بھرلیا گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کیلئے موت کی نیند سلادیا اور پورے سوسال تک سوتے رہے۔ اللہ تعالٰی نے درندوں پرندوں جن و انس سب کی آنکھوں س آپ کو اوجھل کردیا تاکہ کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے جب سترہ سال بیت گئے تو اللہ تعالٰی نے ملک فارس کے ایک بادشاہ کو اپنے لشکر کے ہمراہ بیت المقدس کے اس ویرانے میں مسلط کیا۔ اس بادشاہ نے اس شہر کو پہلے سے بہتر طریقے پر آباد کیا۔ نبی اسرائیل کے وہ لوگ جو ادھر ادھر رو پش ہوگئے تھے ان کی اولادیں دوبارہ بیت المقدس میں آکر اباد ہوگئیں۔ سو سال کے بعد جب حضرت عزیز علیہ السلام دوبارہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ آپ کا گدھا مرا پرا ہے۔ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھر چکی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور برتن یں رکھا ہوا انگھور کا شیرہ بالکل درست ہے۔ آپ کی عمر وہی چالیس سال ہے سر اور داڑھی کے بال بالکل کالے ہیں۔ بیت المقدس پہلے سے زیادہ بارونق اورآباد ہے۔ آپ حیرانی کے عالم میں سوچ بچار میں پرے ہوئے تھے کہ حضرت جبرائیل امین وحی کے ذریعے اللہ تعالٰی کا پیغام لے کر آئے ۔ فرمایا ْ ْ تم یہاں کتنے عرصہ رہے ْ ْ آپ نے اندازے سے عرض کی ْ ْ ایک دن یا کچھ کم۔“ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا تم پورے ایک سوسال یہاں رہے۔ اپنے گدھے کو دیکھو وہ مرگیا ہے اس کے اعضاء بکھر گئے ہیں۔ اب ذرا میری قدرت دیکھو کہ آپ کا کھانا جو چند گھنٹوں کے بعد سٹر جاتا ہے جوں کا توں صحیح سلامت ہے۔ دیکھو گدھے کا بکھرا ہوا ڈھانچہ کیسے جڑتا ہے، یکایک ان کی نگاہ کے سامنے گدھے کے اعضاء جمع ہوئے اور اپنے اپنے مقام پر جالگے۔ ہڈیوں پر گوشت چڑھا۔ گوشت پر کھال آئی، کھال پر بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ (ملا حظہ کیجئے سورۃ بقرہ رکوع 35 تفسیر جمل علی الجلالین جلد اول صفحہ 212 تا 215) قرآن مجید کے اس سچے واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ دن و رات، یہ ماہ و سال، یہ زماں و مکاں اور یہ حدود و قیود سب کچھ حکم الٰہی کے تابع ہیں۔ کسی میں یہ مجال نہیں کہ اس کے حکم کی نافرمانی کرے۔ ایک طرف کارخانہ عالم کو روک دیا اور حضرت عزیز علیہ السلام سوسال تک سوتے رہے۔ آپ کی عمر چالیس سال ہی رہی جب کہ دوسری طرف زمانے کی رفتار متحرک تھی۔ چاند اپنی جگہ متحرک تھا، سورج اپنی جگہ، ہر چیز اپنے اپنے حساب سے جاری و ساری رہی۔ معلوم ہوا وقت کی قید ہم انسانوں کےلئے ہے اللہ تعالٰی اس کا محتاج نہیں۔ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے کہ ہزار سال کو بھی لمحوں میں بدل دے اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہو۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد واقعہ معراج کو سمجھنا مشکل نہیں واقعہ معراج بھی اللہ تعالٰی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس واقعہ میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد کو اپنی قدرت کامل کا مشاہدہ کرایا واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔ ماہ رجب کی ستائیسویں رات ہے اللہ تعالٰی فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے۔ اے فرشتو آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو میری حمد و تقدیس کرنا بند کردو آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو بلکہ آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو۔ میری فرمانبرداری کا کلاہ اپنے سر پر باندھ لو۔ اے جبرائیل میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کےلئے موقوف کردے۔ عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کےلئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔ رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے۔ مالک دربان دوزخ سے کہہ دو کہ دوزخ کو تالہ لگادے۔ خلد بریں کی حوروں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہوجائیں اور جنت کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہوجائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں ان سے عذاب ختم کردیا جائے۔ آج کی رات شب معراج کی رات میرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کےلئے تیار ہو جاؤ۔ (ملاحطہ کیجئے معارج البنوۃ علامہ کا شفی رحمۃ اللہ علیہ ) چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل دیا گیا حکم ربی ہوا اے جبرائیل اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔ حکم الٰہی سن کر جبریل امین سواری لینے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے ایسی سواری کا انتخاب کیا جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔“(ملا حظہ ہو تفسیر ہو روح البیان صفحہ
ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پر کیف رات ہے مطلع بالکل صاف ہے فضاؤں میں عجب مستی سی طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پرسکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکایک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلند یوں سے اتر کر حضرت اُم ہانی کے گھر تشریف لاتے ہیں جہاں ماہ نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں۔ آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرما رہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہو جائے گی فکرمند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے۔ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یا جبریل قبل قدمیہ اے جبریل میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے ناز سے مس کردئے۔ یہ منظر بھی کس قدر حسیین ہوگا جب جبریل امین نے فخر کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل کیسے آنا ہوا۔ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ خدائے بزرگ و برترکی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ ان اللہ اشتاق الی لقائک یارسول اللہ یا رسول اللہ! اللہ تعالٰی آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے۔ حضرت تشریف لے چلئے زمین سے لیکر آسمانوں تک ساری گزرگاہوں پر مشتاق دیدکا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ (ملا حظہ ہو معارج النبوۃ علامہ کا شفی رحمۃ اللہ)۔ چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر جبرائیل امین نے آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ْ ْ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر مرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ (بخاری شریف جلد اول صفحہ 548 ) مسلم شریف میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔ (ملاحظہ کیجئے مسلم شریف جلد اول صفحہ 92) حضرت جبرائیل امین فرماتے ہیں کہ قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔ (ملا حظہ کیجئے فتح الباری جلدد 13 صفحہ 410)سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الٰہی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ کے سر پر عمامہ باندھا گیا۔ علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شب معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار پہلے کا تیار کیا ہوا تھا چالیس ہزار ملائکہ اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے ارد گھر کھڑے تھے۔ حضرت جبرائیل نے حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یا قوت کا کمر بند باندھا۔ (ملا حظہ کیجئے معارج النبوۃ صفحہ 401) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا “سینہ سرخ یا قوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت بجلی کوندت تھی، سٹانگیں سبز زمرد، دم مرجان، سر اور اس کی گردن یا قوت سے پیدا کی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یا قوت کے دور، کاب آویزاں تھے اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل امین نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شب معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔ (ملاحظہ کیجئے معارج النبوۃ ص 406) فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا ترجمہ: پاک ہے وہ جو اپنے بندہ خاص کول ے گیا رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک وہ مسجد جس کے ارد گرد ہم نے برکت فرمادی ہے تاکہ ہم اسے دکھائیں اپنی نشانیاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لا مکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا سواری بھی نور تو سوار بھی نور باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں بے آب و گیار ریگستانوں گھنے جنگلوں چٹیل میدانوں سر سبز و شاداب وادیوں پر خطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بے شمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے راستے میں ایک سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسٰی علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کیلئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جسے باب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا جبریل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کر دیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیر ابن کچیر جلد 3 صفحہ 7) آفتاب نبوت حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصٰی میں داخل ہوتے ہیں صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑ چکے ہیں۔ قدسی سلامی دے رہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین اذان دے رہے ہیں۔ تمام انبیاء و رُسل صف در صف کھڑے ہو رہے ہیں جب صفیں درست ہو چکیں تو امام الانبیاء فخر دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سر تسلیم خم کئے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہوتے ہیں عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔ درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے۔ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کی جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ثمہ عرج بی پھر مجھے اُوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں بُراق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آ گیا۔ حضرت جبرائیل امین نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے ؟ جواب دیا جبرائیل ۔ دربان سے پوچھا من معک تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل امین نے کہا حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم۔ دربان نے کہا مرحبا دروازے انہی کیلئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت یحیٰی علیہ السلام نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام نے پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے چھٹے آسمان پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو جنّت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے عُلوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لا رہے ہیں ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالٰی نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہو جائیں جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کر لیں چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہو گئے اور جمال محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کیلئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔ (ملاحظہ کیجئے در منثور جلد6 صفحہ 126) اس مقام پرجبرائیل امین رک گئے اور عرض کرنے لگے یارسول اللہ ہم سب کیلئے ایک جگہ مقرر ہے اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالٰی کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلا کر رکھ دیں گے یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگائیے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہو جائے وہاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ جبرائیل امین نے عرض کی حضور یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پُل صراط پر آپ کی اُمت کیلئے بازو پھیلا سکوں تاکہ حضور کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پُل صراط سے گزر جائے۔ (ملاحظہ کیجئے روح البیان جلد خامس صفحہ 221) حضور تاجدارِ انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھا دئیے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے۔ فاستوی وھو بالافق الاعلی (سورہ نجم7) ترجمہ :۔ پھر اللہ نے قصد فرمایا اور وہ آسمان بریں کے بلند کنارہ پر تھا۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ حضور سرور دو عالم حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الٰہی متوجی نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلٰی یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔ پھر وہ مبارک گھڑی بھی آ گئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حریم الٰہی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالٰی کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محّب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظوں میں بیان کرتا ہوں۔ ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی (سورہ نجم 9۔ 8 ) پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا۔ پھر خوب اتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔ صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰی کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب کو اپنے قرب سے نوازا۔ (روح البیان) جب حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا۔ فاوحی الی عبدہ ما اوحی (سورہ نجم10) ترجمہ:۔ اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔ حضرت امما جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالٰی نے براہِ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔ پھر راز و نیاز کی گفتگو ہوئی۔ اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ تعالٰی نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا۔ اس گفتگو کا علم اللہ تعالٰی اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہی کو ہے۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ ما کذب الفؤاد مارای (سورہ نجم 11) ترجمہ:۔ دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ اس آیت مبارکہ میں حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شبِ معراج آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکاتِ الٰہی دیکھے حتٰی کہ اللہ تعالٰی کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں اپنے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے۔ مازاع البصر وما طفی (سورہ نجم 17) ترجمہ :۔ آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ اس آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا ذکر ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج کی رات اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ دیدار الٰہی سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم تھیں۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی قرآن مجید میں مذید ارشاد فرماتا ہے۔ لقد رای من ایت ربہ الکبری (نجم آیت18 ) ترجمہ :۔ بے شک آپ نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ اس آیت مقدس میں بنایا گیا ہے کہ شبِ معراج کی رات حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالٰی کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلوماتِ غیبیہ کا آپ کو علم حاصل ہو گیا۔ (ملاحظہ کیجئے روح البیان) رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ رایت ربی فی احسن صورۃ فوضع کفہ بین کتفی فواحدت بردھا ۔۔۔۔۔ ترجمہ :۔ میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپان ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا۔ (ملاحظہ کیجئے مشکوٰۃ شریف صفحہ 28 ) ایک موقع پر مذید ارشادِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے۔ رایت ربی بعینی وقلبی (مسلم شریف) ترجمہ :۔ میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا دیدارِ الٰہی کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا۔ فخاطبنی ربی ورایتہ بعینی بصری فاوحی ترجمہ :۔ میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی۔ (ملاحظہ ہو صاوٰی صفحہ328 ) حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ حضرت مکرمہ حضرت انس بن مالک اور حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ شبِ معراج حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالٰی کی ذات کا مشاہدہ فرمایا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلعت، موسٰی علیہ السلام کو کلام اور حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔ حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قائل ہوں حضور نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج اللہ تعالٰی کو دیکھا۔ فخر دو عالم حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج کے موقع پر اللہ تعالٰی نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا تحفہ سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصُیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسرا تحفہ یہ دیا گیا کہ اُمت محمدیہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا تیسرا تحفہ یہ کہ اُمت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الٰہی سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب ہمارے پیارے نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم واپسی کیلئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے دریافت کیا۔ کیا عطا ہوا ؟ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اُمت پر پچاس نماز کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا اے اللہ کے نبی میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے آپ کی اُمت یہ بار نہ اٹھا سکے گی۔ آپ واپس جائیے اور نماز میں کمی کرائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسٰی علیہ السلام نے پھر کم کرانے کیلئے کہا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہِ الٰہی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمانِ عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز کی کمی کی التجاء کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا۔ اے محبوب ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ یہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دن گنا دیا جائیگا میں آپ کی اُمت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظّمہ واپس تشریف لائے۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیر ابن کثیر جلد سوئم صفحہ 32 پیارے مسلمانو! اس واقعہ میں اللہ تعالٰی کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ ساری کائنات جو کہ کارخانہ قدرت ہے، اور اس کارخانہ عالم کا مالک حقیقی اللہ تعالٰی ہے۔ جب اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب پیغمبر کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کیلئے بلوایا تو اس میں کتنا وقت لگا اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔ اللہ تعالٰی جو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے اس رب کائنات نے اس کارخانہ عالم کو یکدم بند کردیا سوائے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور ان چیزوں کے جنہیں حضور نے متحرک پایا۔ تمام کائنات کو ٹہرایا، چاند اپنی جگہ تہر گیا۔ سورج اپنی جگہ رک گیا، حرارت اور ٹھنڈک اپنی جگہ ٹہر گئی حضور صلی للہ علیہ وسلم کے بستر مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی، حجرہ مبارک کی زنجیر ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچتی تھی وہیں رک گئی۔ جو سویا تھا سو تارہ گیا جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا غرض یہ کہ زمانے کی حرکت بند ہوگئی۔ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں رات ایک طویل سفر طے کر کے زمین پر تشریف لائے تو کارخانہ عالم بحکم الہی پھر چلنے لگا۔ ہر شے ازسر نو مراحل کو طے کرنے لگی، چاند سورج اپنی منازل طے کرنے لگے، حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگی غرض یہ کہ جو جو چیزیں سکون میں آگئی تھیں مائل بہ حرکت ہونے لگیں بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی حجرہ مبارک کی زنجیر ہلنے لگی۔ کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ ہی کسی کو احساس تک ہوا۔ (ملا حظہ کیجئیے روح المعانی پ 15، صحفہ 12۔ روح البیان جلد 5 صحفہ 125 ) حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح ہوتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کی قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے لوگ انکار کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں حق بات ضرور کروں گا میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا وہی سچ ہے۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے رؤ سا جمع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ مخبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کو سن کر کفارہ مشرکین ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔ ابو جہل بولا کیا یہ بات آپ پوری قوم کے سامنے کہنے کیلئے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ابو جہل نے کفار مکہ کو بلایا جب تمام قبائل جمع ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ کفار واقعہ سن کر تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالٰی کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے۔ ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے ہیں بتائے اس کو ستون اور دروازے کتنے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ یکایک بیت المقدس کی پوری عمارت میرے سامنے آگئی وہ جو سوال کرتے میں جواب دیتا جاتا تھا مگر پھر بھی انہوں اس واقعہ کو سچا نہ مانا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصٰی کے بارے میں جواب دے چکے تو کفار مکہ حیران ہو کر کہنے لگے مسجد اقصٰی کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بتادیا لیکن ذرا یہ بتائیے کہ مسجد اقصٰی جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ آپ کو راستے میں ملا ہے یا نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی فلاں کے قافلے پر مقام روحاء پر میں گزرا ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا تھا وہ اسے تلاش کر رہے تھے اور انکے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا پانی پی لیا پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گمشدہ اونٹ تلاش کرکے پالان کی طرف واپس آئے تو کہا انہوں نے اس پیالہ میں پانی پایا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بنی فلاں کے قافلے پر بھی گزرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا وہ دونوں سوار گر پڑے ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا جب وہ آئیں تو ان دونوں سے یہ بات پوچھ لینا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔ (زرقانی جلد 6صحفۃ 122) ہر قافلہ کے متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نشانیاں بتائی تھیں جب وہ قافلے واپس آئے اور کفار مکہ نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ایک ایک نشانی کو صحیح تسلیم کیا مگر اس کے باوجود کفار مکہ ایمان نہ لائے۔ (تفسیر مظہری) مگر اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی۔ ابو جہل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور کہنے لگا اے ابو بکر تو نے سنا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا کہے ہیں۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میرےآقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبی کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے اے ابو بکر تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو۔ جواب دیا میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں۔ اسی دن سے حضرت ابو بکر کو دربار نبوت سے صدیق کا لقب ملا۔ سفر معراج کے اسرار و رموزکو سمجھنا انسانوں کیلئے ممکن نہیں۔ اصل حقائق تو اللہ اور اس کا محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہماربے احاطہ علم میں تو صرف یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سفر معراج حضرات محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معجزہ ہے جو اس سے پہلے کسی نبی یارسول کو حاصل نہ ہوسکا۔ یہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ناقابل فراموش اور اہم ترین واقعہ ہے جس میں آپ پر تمام عالمین کے اسرار و رموز اور حقائق کو منکشف کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر جسمانی حالت میں عین حالت بیداری میں کیا۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر جسمانی نہ تھا بلکہ حالت خواب میں یا روحانی طور پر تھا۔ ملا احمد جیون رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص یہ کہے کہ معراج صرف روح کو حاصل ہوئی یا فقط خواب میں معراج ہوئی تو وہ شخص بدعتی، گمراہ کن اور فاسق ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیرات احمد یہ صحفہ 329) بعض حضرات جسمانی معراج کے انکار میں ام المومنین حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کا قول پیش کرتے ہیں کہ وہ روحانی معراج کی قائل تھیں۔ مگر محققین کے نزدیک ان کا یہ قول اس لئے قابل اعتبار نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سفر معراج کے وقت بہت ہی کمسن تھیں اور اس وقت وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں بھی نہیں آئی تھیں۔ (ملاحظہ کیجئے صاوی جلد دوئم صحفہ 235 محترم مسلمانو! جن لوگوں نے سفر معراج کو صرف روحانی یا خواب کا وقعہ سمجھھ رکھا ہے اور جسمانی معراج کا انکار کیا ہے دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو نہیں سمجھا اگر یہ کہا جائے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ ان لوگوں نے واقعہ معراج کو روحانی معراج قراردے کر اللہ تعالٰی کی قدرت پر اعتراض اور قرآنی آیات کا انکار کیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے قران مجید میں واضح طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کرائی۔ اعتراض تو اس صورت میں یہ لوگ کرتے جب خود حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے کہ میں خود اپنے آپ رات کے مختصر حصے میں سفر معراج پر سیر کرنے گیا۔ اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو اس کی اتنی تشہیر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر روحانی نہیں بلکہ جسمانی اور عین حالت بیداری میں تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے لفظ عہدہ ارشاد فرمایا اور عبدروح کا نام نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں کے ملاپ کا نام ہے۔ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح اس کا ذکر ام ہانی رضی اللہ عنہا سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ اس سفر کا ذکر کسی سے نہ کریں ورنہ لوگ اور زیادہ مخالفت کریں گے۔ ذرا سوچئے اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو اس میں مخالفت اور تکذیب کی کونسی بات تھی۔ مگر آپ پڑھ چکے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کو لوگوں پر ظاہر فرمایا تو کفار مکہ نے نہ صرف اس کو جھٹلایا بلکہ خوب مذاق اڑایا بلکہ بعض ضعیف الایمان اس واقعہ کو سن کر مرتد ہوگئے۔ اگر معاملہ خواب کا ہوتا تو اس قدر مخلافت مول لینے کی کیا ضرورت تھی۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت مخالفین میں سے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلےکا وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ملک شام تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے کہ انہی دنوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط لے کر حضرت وحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ ہر قل بادشاہ کے دربار میں آیا۔ ہرقل بادشاہ کے علم میں یہ بات تھی کہ مکہ سے ایک قافلہ تجارت کی غرض سے ملک شام آیا ہوا ہے چنانچہ ہرقل بادشاہ نے ہمارے اس قافلے کو اپنے دربار میں طلب کرلیا۔ میں بھی اس قافلے میں شامل تھا۔ ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ مکہ میں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہاں ایک نے کیا ہے۔ ہرقل نے پوچھا ان کا نسب کیسا ہے ابوسفیان نے جواب دیا وہ ہم میں اعلٰی نسب ہیں۔ ہرقل نے پوچھا ان کے خاندان میں کوئی بادشاہ تھا۔ ابوسفیان بولا نہیں۔ ہرقل نے پوچھا ان کی فرمانبرداری رئیس لوگ کرتے ہیں یا کمزور لوگ۔ ابوسفیان بولا صرف کمزور لوگ پیروی کرتے ہیں۔ ہوقل نے پھر پوچھا، لوگ دن بدن زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ابوسفیان بولا زیادہ ہورہے ہیں۔ ہرقل نے پوچھا دعوٰی نبوت سے پہلے انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہے۔ ابوسفیان بولا نہیں۔ ہرقل نے پوچھا اس نے کبھی وعدہ خلافی کی؟ ابوسفیان بولا آج تک نہیں کی۔ ہرقل نے پوچھا کیا تم نے کبھی ان سے لڑائی کی ہے ابوسفیان نے جواب دیا جی ہاں۔ ہرقل نے سوال کیا وہ تمہیں کیا حکم دیتے ہیں؟ ابوسفیان نے کہا وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹہراؤ۔ بت پرستی ترک کردو۔ نماز پڑھو، سچ بولو، پاک دامنی اختیار کرو، صلح رحمی کرو۔ جب ہرقل بادشاہ ابوسفیان سے سوالات کرچکا تو پھر ابوسفیان کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں نے تم سے ان کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ تم میں اعلٰی نسب ہیں۔ سن لو کہ اللہ کے رسول ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے آباء واجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے تو تم نے کہا نہیں تو سن لو اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو وہ اپنے باپ دادا کے ملک کا مطالبہ کرتا۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس نے کبھی جھوٹ بولا تم نے کہا نہیں لہٰذا سن لو جو لوگوں پر جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ سرمایہ دار اس کی تابعداری کرتے ہیں یا کمزور؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگ پیروی کرتے ہیں سن لو کمزور لوگ ہی رسولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ میں نے تم سے کہا کہ لوگ زیادہ ہورہے ہیں یا کم؟ تم نے کہا کہ زیادہ ہو رہے ہیں تو سنو ایمان کا یہی حال ہے۔ میں نے تم سے پوچھا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے تو تم نے کہا کہ نہیں۔ تو سن لو انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے کہا کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ تم نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ بتوں کی پوجا مت کرو، نماز پڑھو سچائی پاک دامنی کو اختیار کرو، صلح رحمی کرو تو سنو انہوں نے سچ کہا اور سنو وہ عنقریب میری اس سلطنت کے مالک ہوں گے۔ ابوسفیان کا کہنا ہے کہ میری اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی ہرقل بادشاہ کے سامنے بیان کروں تاکہ بادشاہ کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت نہ بڑھے اور میں اس وجہ سے سچ بولتا رہا کہ کہیں لوگ مجھے جھوٹا نہ کہنے لگیں۔ پھر اچانک میرے دل میں سفر معراج کا خیال آگیا کہ کیوں نہ بادشاہ کے سامنے واقعہ معراج کا ذکر کروں تاکہ بادشاہ پر یہ حقیقت بھی کھل جائے کہ پیغمبر اسلام سے اس قسم کی باتیں بھی منسوب ہیں۔ چنانچہ میں نے بادشاہ سے کہا اے بادشاہ سنو ایک دن وہ کہنے لگے کہ معراج کی رات وہ مکے سے چلے اور آپ کی اس مسجد جسے اقصٰی کہتے ہیں میں آئے اور پھر واپس صبح سے پہلے ہی چلے گئے۔ میری یہ بات سن کر مسجد کا پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا فوراً ہی بول اٹھا۔ وہ کہنے لگا یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے۔ ہرقل بادشاہ نے حیران ہوکر سوال کیا آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ پادری نے کہا اے بادشاہ یہ میری عادت تھی کہ جب تک مسجد اقصٰی کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کرلوں رات میں سوتا نہ تھا۔ اس رات جب میں دروازہ بند کرنے کھڑا ہوا سارے دروازے اچھی طرح بند کردئیے۔ مگر مرکزی دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا۔ میں نے ہر چند بہت زور لگایا مگر دروازہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ میں نے آدمی بلائے اور ہم سب نے مل کر زور لگایا مگر سب ناکام رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم دروازہ نہیں بلکہ کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ دروازہ اپنی جگہ سے ہلاتک نہیں۔ آخر کار میں نے بڑھئی بلوائے انہوں نے دروازہ دیکھا کئی ترکیبیں کیں لیکن ناکام رہے کہنے لگے صبح دیکھیں گے۔ جب رات گزر گئی تو صبح میں اس دروازے کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ دروازے کے قریب کونے میں جو پتھر کی چٹان تھی اس میں سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رات کسی نے اس سے جانور باندھا اور وہاں پر اس کے نشانات بھی موجود ہیں میں سمجھ گیا اور اپنی جماعت کو آگاہ کردیا کہ آج کی رات ضرور ہماری یہ مسجد کسی نبی کیلئے کھلی رکھی گئی ہے اور اس نے ضرور یہاں نماز ادا کی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیر ابن کثیر جلد سوم صفحہ 24، دلائل النبوۃ) مسلمانو! غورفرمائیے کہ ایک غیر مسلم کتنے واضح یقین کے ساتھ واقع معراج کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔ اس سے واضح ہوا یہ واقعہ خواب کا نہیں۔ غیر مقلد اہلحدیث مولوی حکیم ابو الصمصام عبدالسلام بستوی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی معراج ہوئی ہے۔ یعنی بدن سمیت بیت اللہ شریف سے بیت المقدس وہاں سے ساتوں آسمان اور جہاں تک خدا کو منظور تھا تشریف لے گئے۔ جنت دوزخ کی سیر کی اور بہت سی عجیب و غریب چیزیں ملاحظہ فرمائیں۔ (ملاحظہ کیجئے اسلامی عقائد صفحہ 43) جن لوگوں نے اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر اس عطیم الشان معجزہ کا انکار کیا ہے دراصل انہوں نے قرآن مجید کے اس ابتدائی جملے پر غور نہیں کیا کہ جس میں فرمایا سبحان الذی کہ تمام عیبوں سے پاک ہے وہ رب جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو۔ یہ واقعہ اس لئے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بخود دعوٰی نہیں کیا کہ میں سیر کرنے گیا بلکہ یہ فرمایا کہ رب نے اپنے بندے کر سیر کرائی۔ جسمانی معراج کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ مشرکین مکہ نے واقعہ معراج کا انکار کیا اور پاگل اونٹوں کی طرح بدکنے لگے اور چلا چلا کر تکذیب و تمسخر اڑانے لگے یہ معراج جسمانی نہ ہوتی، محض خواب کی ہوتی تو اس پر نہ کسی کو تعجب ہوتا اور نہ ہی کوئی مخالفت کر کے انکار کرتا۔ کفار مکہ کا انکار اور تمسخر بھی جسمانی معراج کی ایک روشن دلیل ہے۔ واقعہ معراج سے اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہ السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔ نہ صرف زندہ ہوتے ہیں بلکہ آن واحد میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک تصرف بھی فرماتے ہیں۔ کیونکہ حضرت موسٰی علیہ السلام جہاں قبر میں نماز ادا کر رہے تھے وہاں بیت المقدس میں تمام انبیاء رسل کے ہمراہ بھی تھے اور حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز بھی ادا کی اور پھر آن واحد میں چھٹے آسمان پر بھی پہنچ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال فرمایا اور پچاس نمازوں سے پانچ نمازوں تک امت رسول کی مدد فرمائی۔ اللہ تعالٰی اپنے مقدس کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لاتشعرون (سورۃ البقرہ 154) ترجمہ : اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔ قرآن مجید کی مزکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر میں شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن سے یہ ثابت ہوگئی کہ شہید لوگ زندہ ہیں تو انبیاء کرام علیہم السلام جنکا درجہ شہداء سے بلند اور بالاتر ہے تو ان کی حیات بدرجہ اولی ثابت ہوگی۔ (ملاحظہ ہو فتح الباری شرح صحیح البخاری) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے: ان اللہ حرم علی الارض لا تا کل اجساء الانبیاء فنبی اللہ حی یرزق ترجمہ : بے شک زمین پر اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام کے اجسام کو کھانا حرام کردیا ہے پس اللہ کا ہر نبی زندہ ہے اس کو رزق دیا جاتا ہے۔ (ملاحظ ہو ابن ماجہ صفحہ 119، جلاء الافہام 73، جامع صغیر صفحہ 52 مشکوٰۃ صفحہ 121) حافظ الحدیث امام بدرالدین حنفی رحمۃ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا کہ زمین انبیاء کرام کے جسموں کو نہیں کھاتی اس ارشاد سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ انبیاء کرام زندہ ہیں صرف وہ ہم سے غائب کرلئے گئے ہیں کہ ہم ان کا ادراک نہیں کرسکتے۔ (ملاحظہ کیجئے شرح صحیح البخاری صفحہ 29جلد 2 مطبوعہ بیروت)[fo | |
|