Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: غامدی کا جوازِ موسیقی Tue 1 Jun 2010 - 9:26 | |
| غامدیکا جوازِ موسیقی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
موسیقی سے متعلق قرآن مجید پچھلے آسمانی صحائف اور احادیث صلی اللہ علیہ وسلم کا تجزیہ کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلام نے اسے مطلقاَحرام قرارنہیں دیاہے ۔تاہم ایسی موسیقی سے منع کیا ہے، جو مشرکانہ ہویااپنے اندر ایسی اخلاقی قباحت رکھتی ہوجولوگوں کے منفی جذبات کو ابھارے اور اس طرح ان کی پاکیزگی پر اثر انداز ہوتی ہو۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موسیقی کی محفلیں اخلاقی باختگی کا بدترین مظہرتھیں نوجوان لونڈیاں شراب میں مغمورمردوں کے سامنے ناچ گانے کا مظاہرہ کرتی تھیں اور انکے جذبات برانگیختہ کردیتی تھیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم جو دین لے کر آئے اس کا اصل مقصد چونکہ انسانوں کو اخلاقی برائیوںسے پاک کرنا تھااس لئے موسیقی کے آلات کو ممنوع قرار دیا اور ناچ گانے کی محفلوں پر پابندی عائدکردی اس موضوع سے متعلق تمام روایات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی پر پابندی علی الاطلاق نہیں تھی بلکہ اس زمانے کے مخصوص حالات میں اور موسیقی کے مخصوص نوعیتوں کے حوالے سے تھی لہذا ہمارے نزدیک موسیقی میں اگر شرک اور غیر اخلاقی عناصرکی آمیزش نہ ہو تو ہر قسم کی موسیقی اپنی ذات میں بلکل جائز ہے۔
نظریہ غامدی پر اصلاحی تجزیہ
محترم ساتھیوں، السلام عیلکم درج بالا عبارت ادا رہ الموردکی ویب سائیٹ سے موسیقی کے متعلق ایک سوال کے جواب میںجاری کی گئی ہے جس کے سرپرست اعلی جناب جاوید احمدغامدی صاحب ہیں اور ٰنھوں نے ہر طرح کی موسیقی جائزقرار دی ہے ،سوائے اسکے جس میں مشرکانہ یا اخلاقی قباحت ہو،آیئے اب ان دلائل کامطالعہ کریں پھرہم ان کا جائزہ لیں گے۔قرآن مجید میںارشاد ہوتا ہے، ''ہم نے پہاڑوں کو اْس (داؤد)کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ صبح کو ا ور شام کو تسبیح کریں اورپرندے جو جمع ہو جاتے ا ور ا س کے زیر فرمان رہتے''(سورہ ص آیت١٩۔١٨)اور ا س کے ہم معنی آیات ''سورہ انبیاء آیت٧٨''ا ور ''سورہ سبا آیت١٠'' میں بیان ہوئی ہیں۔ پچھلے آسمانی صحائف میں بیان ہوا ہے: ''اے خداوند میں تیرے لئے نیا گیت گائوں گا دس تار والی بربط پر میںتیری مدح سرائی کروںگا''(بحوالہ زبور)ایک دوسری جگہ ا س طرح بیان ہوا ''تو ایسا ہوا کہ جب نرسنگے پھونکنے والے ا ور گانے والے مل گئے تاکہ خداوند کی حمد ا ورشکرگزاری میں ا ن سب کی آواز سنائی دے ا ور جب نرسنگوں ا ور جھانجھوں اور موسیقی کے سب سازوں کے ساتھ انھوں نے اپنی آواز بلند کرکے خدا وند کی ستائش کی کہ وہ بھلا ہے''(بحوالہ ایضاَ) اب احادیث میں جو مفہوم بیان ہواہے۔ مفہومِ حدیث۔''عائشہ سے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت انصارکی دولڑکیاں میرے پاس اشعار پڑھ رہی تھیں (ایک روایت میںدف کابجانے کا بھی ذکرہے) جوانصارنے بعاث کے موقعہ پر کہے تھے آپ نے فرمایا یہ گانے والیاں نہیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے ا ور چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا اس کے بعد ا بو بکر صدیق آئے ا ور آپ نے ڈانٹا اور فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ شیطانی حرکت ہو رہی ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے ا ور فرمایاانھیں پڑھنے دوکہ اے ابوبکر ہرقوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری ہے۔(بخاری و مسلم جلداول و دوم کتاب العیدین)یہ حدیث بخاری میں تین جگہ مختلف روایات کے ساتھ بیان ہوئی ہے جسے ہم نے ایک ہی روایت میں جمع کیا ہے۔ مفہومِ حدیث:ربیع بنت معوذنے بیان کیا کہ جس رات میری شادی ہوئی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی صبح کو میرے یہاں تشریف لائے ا ور میرے بسترپر بیٹھے چند بچیاں دف بجا رہی تھیں اور وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں اِنکے خاندان والوں کا ذکر تھا جوبدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے اِنھیں اشعار میں ایک لڑکی نے یہ مصرعہ بھی پڑھا کہ ہم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جوکل ہونے والی بات جانتے ہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ نہ پڑھوجوپہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو۔(بخاری جلد اول کتاب المغازی ،سنن ابودا ؤ د جلد سوم کتاب الادب،ترمذی جلد اول کتاب النکاح) مفہومِ حدیث: محمدبن حاطب حمجی کہتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال اور حرام کو جدا کر دینے والی چیز دف اور آواز ہے۔(ترمذی جلد اول کتاب النکاح)آیئے اب ا ن دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ادا رہ المورد اس بارے میں غلط فہمی کا شکار ہے کہ جوبات زبور میں بیان ہوئی ہے سورہ ص کی آیات اُس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیںجبکہ سورہ ص میںجوآیات بیان ہوئی ہیںاس میں (یُسَبِّحْنَ) کے ا لفاظ آئے ہیں جس کے معنی(تسبیع)حمدوثناء بیان کرنے کے ہیں اورپچھلے صحائف میں جو آلاتِ موسیقی کاتذکرہ ہوا ہے اس کی بنیادپرموسیقی کے لئے جواز نکالنا جائز نہیں کیونکہ پچھلے صحائف میں تحریف ہوچکی ہے اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تمام سابقہ شریعت منسوخ ہو چکی ہیں جس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:آیت ترجمہ''(مسلمانوں)تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر عقل وعلم والے ہوتے ہوئے پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں''(سورہ البقرہ آیت٧٥)ایک اور جگہ ارشاد فرمایا''بربادی ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور دنیا کماتے ہیں بربادی ہے جو انھوں نے لکھا اور جو انھوں نے کمائی کی''(سورہ البقرہ آیت٧٩)اور حضرت عبیداللہ بن عبداللہ حضرت ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:کیسے تم ا ہل کتاب سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھتے ہو حالا نکہ تمھاری کتاب جوکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ، زیادہ نئی ہے؟ تم اس کو خالص حالت میں پڑھتے ہو اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کی گئی۔ جبکہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل ڈالا ہے اور اس کو تبدیل کردیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھی ہے اور اس کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ اس کہ بدلے میں کچھ قیمت حاصل کرسکیں ۔خبردار! جو علم (قرآن و سنت ) تمہارے پاس آیا ہے وہ تمہیں اہل کتاب سے سوال کرنے سے منع کرتا ہے ۔ نہیں، اللہ کی قسم ہم نے اہل کتاب میں سے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو تم میں سے اس (قرآن و سنت )کے بارے میں سوال کرے جو کہ تم پر نازل کیا گیا ہے'' ۔ اب اس کے بعد قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:''جب ہم نے تمام انبیاء سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمھیں کتاب و حکمت دوں پھر تمھارے پاس وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئےجو تمھارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمھارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضرور ی ہے تم اس کے اقراری ہو اوراس پر ذمہ لے رہے ہو سب نے کہا ہمیں اقرار ہے تو اب تم گواہ رہو اور میں خود بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں ''(سورہ ال عمران آیت٨١) اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس اورحضرت علی کاقول نقل ہوا ہے کہ ان آیات میں اللہ نے تمام انبیاء سے جس رسول کے بارے میں عہد لیا ہے وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک ہے (تفسیر ابن کثیر) اور ان کی بعثت کے بعد سابقہ شریعت منسوخ ہوچکی ہیں اور اس آیت کی تشریح میں جو حدیث آئی ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے ۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے :مفہوم حدیث: ''حضرت جابر سے روایت ہے ،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم یہود سے بہت ساری ایسی باتیںسنتے ہیں جو کہ ہمیں اچھی لگتی ہیں ۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ، اگر ہم ان میں سے بعض باتوں کو لکھ لیں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم بھی اہل یہود کی طرح ہلاک ہونا چاہتے ہو ! میں تمھارے پاس ایسی واضح اور روشن آیات لیکر آیا ہوں کہ حضرت موسٰی بھی زندہ ہوتے توان کے لیے بھی میری اتباع کے سواہ کوئی چارہ نہیں تھا ''۔(مشکوة ْ،مسند احمد،تفسیر ابن کثیر) اب اس کے بعد تمام سابقہ شریعت کامنسوخ قرآن وصحیع احادیث کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے اور اب قرآن مجیدپر عمل کرنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا ہی لازم ہے جیسا احادیث سے واضح ہوتا ہے، اس لئے سابقہ صحائف سے کسی قسم کا حکم نکالنا بڑی جسارت کی بات ہے۔ اب ان احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جس سے المورد موسیقی کے جواز کے قائل ہیں اگر ہم ان احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احادیث میں جو لڑکیاں اشعار پڑھ رہی تھیں وہ کوئی پروفیشنل گلوکارائیں نہیں تھیں نہ وہ کوئی عشق و محبت کے قصیدے پڑھ رہیں تھیں یا محبوب کی تعریفوں کے پل باندھ رہیں تھیں بلکہ وہ شھیدوں کی شان میں اشعار پڑھ رہیں تھیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان اشعار کا پڑھنا ایک خاص موقع کے لیے جائز کیا ہے (غامدی صاحب پسِ منظر کے بڑے قائل ہیں مگراس معاملہ میں انھوںنے اپنے اس اصول کو بالاِطاق رکھ دیا اور ان روایات سے اپنا مفہوم نکال لیا)مگر جیسا کہ الفاظ سے واضح ہوتا ہے ''ہر قوم کی عید ہوتی ہے یہ ہماری عید ہے ''اور جو دف بجانے کی اجازت شادی کے حوالے سے ملتی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک اعلان کی چیز ہے جس سے شادی کا اعلان کرنا مقصود ہے نہ کہ اس میں بھی عشق و محبت کے کوئی گانے گائے جائیں شادی کے موقع پر بھی جو اشعار بچییوں نے پڑھے تھے وہ بدر کے شہیدوں پر تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیںوہ(صوت)کے ہیں جس کے معنی آوازکے ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس میں گانا گانے کے الفاظ نہیں ہیں اس کے بعد اگر ہم خلفاء راشدین کے ادوار کا جائزلیں تو وہ دورجو اسلام کاسنہرہ دور مانا جاتا ہے کیا اس دورمیں صحابہ کرام نے ایسی محفلوں کا انقا د کیا جس میں کوئی اخلاقی قباحت نہ ہو صحابہ کرام حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے تو ان میں کسی اخلاقی قباحت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتاپھر کیوں انھوں نے موسیقی کی یہ محفلیں منعقد نہیں کیں جس کی آج غامدی صاحب اجازت دے رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صحا بہ کرام ان آیات کو اچھی طرح پہچانتے تھے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئیں جس میں آ لات موسیقی خریدنے پر اللہ کی طرف سے عذاب کی وعید اتری ہے ۔ اب اس آیت کا مطالعہ کریں : ترجمہ آیت:''اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غافل کرنے والی چیزیں خریدتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو گمراہ کریں اور اسے ہنسی ومذاق بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے اور جب اس کے سامنے ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتے ہوئے اس طرف منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا نہیں گویا اس کے دونوں کانوں پر بوجھ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دردناک عذاب کی خبر سنادیں''(سورہ لقمان آیت٦،٧)اس آیت میں لفظ (لھوالحدیث)کا مطلب گانابجانا اور آلات طرب وغیرہ ہیں جیسا کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن مسعودبیان کرتے ہیں ''اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس آیت میں لہوالحدیث سے مراد گانا بجانا ہے یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی''اور ابن عباس سے بھی اسی طرح منقو ل ہے(ابن ابی شیبہ،تفسیر ابن کثیرِ،مستدرک حاکم ،بہقی)بعض لوگ یہ اعتراض کر سکتے ہیں یہ تشریح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تو نہیں فرمائی مگرحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعودکے بارے میں یہ فرمایا کہ قرآن چار لوگوں سے سیکھو ان میں عبداللہ بن مسعودبھی ہیں۔(بخاری جلد سوئم کتاب الفضائل،مسلم جلد پنجم کتاب الفضائل)اب احادیث کا مطالعہ کریں: مفہومِ حدیث'' ابن عباس حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ نے تم پر شراب اور جوا اور طبلہ حرام کیا اور فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔(ابودائودکتاب الاشربہ،مسند احمدکتاب الاشربہ،بہقی،طبرانی،) مفہومِ حدیث :عبدالرحمن بن عوف حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں مجھے دو بری آوازوںسے روکا گیا ہے خوشی کے وقت بانسری کی آواز مصیبت کے وقت رونے کی آواز(یعنی نوحہ کرنا)(ترمذی،حاکم،ابی یعلٰی) مفہومِ حدیث :''البتہ ضرور میری امت کے لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام بدل دیںگے (جیسے وہسکی وغیرہ) ان کے سروں پر گلوکارائیں اور آلات طرب بجائے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض افراد کو بندر اور سور بنادے گا ۔''( ابن ماجہ جلدسوئم ، بیھقی،مسند احمد)ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ:''میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوںگے جو زنا ، ریشم ، شراب اور باجے حلال ٹھہرائیںگے ۔''(بخاری کتاب الاشربہ،ابودائود،بیھقی،معجم الکبیر) تمہید:ا ن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی اُس زمانے میں ہی نہیں بلکہ قیامت تک جائز نہیں ہے اور یہ مشرکانہ اور اخلاقی قباحت کی وجہ سے نہیں اور نہ اْس دو ر ا ور کسی خاص نوعیت کی بِنا پر حرام ہوئی تھی بلکہ موسیقی ان برائیوں کی جڑ ہے جس سے معاشرے میں یہ قباحتیں(ناچ گانا،شراب،بے حیائی) پیدا ہوتی ہیں اگر ہم اپنے اطراف میں نظر ڈالیں تو یہ بات بڑی واضح ہے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیاں حرف باحرف پوری ہوتی نظر آتی ہیں جیسا کہ احادیث میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ اسے حلال کرلیں گے اور اس کو جائز ،ایسے ہی لوگ(ادارہ المورد،غامدی)کریں گے اللہ ایسے لوگوں سے حفاظت فرمائے۔(آمین | |
|
muhammad khurshid ali Moderator
Posts : 371 Join date : 05.12.2009 Age : 42 Location : Rawalpindi
| Subject: Re: غامدی کا جوازِ موسیقی Tue 1 Jun 2010 - 10:34 | |
| | |
|