محدث بریلوی اور تعلیم و تعلم
مولانا غلام مصطفی رضوی
نوری مشن، مالیگاؤں، انڈیا
علم ”اجالا“ ہے۔ ایسا اجالا کہ جو چھپائے نہیں چھپتا، مٹائے نہیں مٹتا، عام کرنے سے نہیں گھٹتا۔ قرآنِ مقدس میں تعلیم و تعلّم سے متعلق بہت سے مضامین آئے ہیں۔ قرآنِ مقدس کی سمجھ کے لئے بھی علم چاہئے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اَلرَّحمٰنُ O عَلَّمَ القُراٰنَ O ترجمہ: ”رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔“ (1)
قرآن علم و حکمت کا منبع ہے جس کی تعلیم حق تعالیٰ نے اپنے محبوب سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمائی اور صحابہ کرام کی مقدس جماعت نے معلمِ کائنات سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ مقدس کی تعلیم لی اور علوم سیکھے اور ان کا نقش بعد والوں کے لئے ہدایت ہوا اور وہ راہ بر و راہ نُما ٹھہرے۔
تِرے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے
اللہ عزوجل نے اپنے آخری نبی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر حق و باطل، اچھائی و برائی کے فرق کو واضح کردیا۔ حق ظاہر فرمادیا اور ہر ایک کے لئے معیار ”علم“ بنایا تاکہ سچی راہ کا انتخاب بآسانی ہو۔ پھر اس کے لئے علمِ دین کو فرض قرار دیا گیا تاکہ ایمان و عقیدہ کی تعمیر و حفاظت ہوسکے اور نور و نار کے درمیان امتیازات کئے جاسکیں۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے، ان سے تابعین نے اور پھر بعد والوں نے علم سیکھا۔ اس طرح تعلیم و تعلّم کا سفر جاری رہا اور باضابطہ پہلی درس گاہ مسجد نبوی سے متصل قائم ہوئی اور اس سے اُٹھنے والے نور نے ساری کائنات کو روشن و منور کردیا۔
اسلام نے جہاں علم کو اوّلیت دی ہے اور علمِ دین کا حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے وہیں علم سکھانے والے ”معلم“ (استاذ) کے مقام و مرتبہ کی پہچان بھی کروائی ہے۔ معلم کی اہمیت قرآن مقدس کے اس بیان سے بھی مزید واضح ہوتی ہے:
فَسئَلُوآ اَھلَ الذِّکرِ اِن کُنتُم لَاتَعلَمُونَ O
ترجمہ: ”تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔“ (2)
علم و فن کو مسلمانوں نے ترقی دی۔ سرزمینِ عرب سے نمودار ہوکر اسلام کی کرنوں نے دیگر بلاد و امصار کو بھی روشن و منور کردیا تو علم کا بھی نصیبہ جاگ اُٹھا۔ تحقیق و تدقیق کی راہیں کھلیں۔ قرآن جو علم و حکمت کا سرچشمہ ہے اس سے استفادہ عام ہوا۔ ذہن کی گرہیں کھلیں، مشاہدات و تجربات کے در کھل گئے۔ علم و فن کے نئے نئے پہلو متعارف ہوئے۔ مسلمانوں نے ہر علم و فن کو اسلام ہی کا مرہونِ منت جانا اور اصل علاقہ ”علمِ دین“ سے رکھا بایں ہمہ دنیا کے قائد و معلم رہے۔ ایک مسلمان عالمِ دین ہوتا تو ساتھ ہی سائنس، حکمت، ریاضی و دیگر علوم و فنون میں ماہر و مشتاق۔ اکابرِ امت و علمائے امت نے اس قدر کو نبھائے رکھا۔ ہندوستان کی سرزمین پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی (ولادت 1272ھ/ 1856ء…. وصال 1340ھ/ 1921ء) کی ذات شاہد ہے جن کی دینی و علمی اور تعلیمی خدمات نے مسلمانوں کے ایمان و ایقان کے تحفظ اور عروج و ترقی کی راہیں ہموار کیں۔
استحضارِ علمی: امام احمد رضا محدثِ بریلوی، علم و فن کا بحرِ عمیق، جس میں غواصی کی جائے تو تہہ نہ ملے۔ یہ اللہ عزوجل کا انعام و اکرام ہے۔ آپ کے استحضارِ علمی کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ آج عالمی یونیورسٹیوں میں آپ کے علوم و فنون، حیات و خدمات، دینی و فقہی بصیرت پر تحقیق کی جارہی ہے جبکہ علوم و فنون کے اس مرجع نے نہ تو کسی کالج و یونیورسٹی میں پڑھا، نہ کسی ماہر فن کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ جو پڑھا، دین کا علم پڑھا۔ جملہ درسیات کی تکمیل اپنے والدِ ماجد مولانا نقی علی خاں بریلوی سے گھر پر کی۔ اپنے دورِ طالب علمی کے احوال بقلم محدثِ بریلوی ملاحظہ فرمائیں اور آپ کی استعدادِ علمی کی داد دیں:
”بچپن میں استاذ محترم نے ”علم الفرائض“ میں وارثوں کے حصے اور ان کی تقسیم کا طریقہ بتایا تھا وہ بھی زبانِ مبارک سے، کتاب کے بغیر، صرف ایک گھڑی کے اندر اور حساب کے صرف چار قاعدے سکھائے تھے:
1۔ جمع 2۔ تفریق 3۔ ضرب 4۔ تقسیم
ان قاعدوں کی تعلیم اس لئے دی تھی کہ علمِ فرائض میں جو علومِ دینیہ کا نصف ہے، ان کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اور علمِ ہیئت سے شرح چغمینی کے چند اوراق دائرة الارتفاع تک پڑھائے تھے۔ اور علمِ ہندسہ میں نصیر طوسی کی تحریر اقلیدس کی صرف شکلِ اول کی تعلیم دی تھی۔ میں نے جب سیدی والد (قدس الواجد سرہ الماجد) سے شکل اول تک پڑھا تو خدا معلوم انہوں نے مجھ میں کیا دیکھا کہ زیادہ پڑھنے سے روک دیا اور فرمایا اس میں اپنا وقت ضائع نہ کر، تو اپنی فکر اور ذہن کے ذریعہ خود ہی اس سب کو حل کرلے گا۔ اپنے آپ کو صرف علومِ دینیہ کی تحصیل و تکمیل میں مشغول رکھ۔ میں نے ان کے اس ارشادِ گرامی کی برکت اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہے۔ سب تعریفیں دن رات کے اند رصرف اللہ تبارک شانہ کو ہیں اور علمِ تکسیر سے مثلث و مربع کے بعض طرق سکھائے۔ ازاں بعد فقیر نے قدرت والے رب کی مدد سے ان تمام علوم و فنون میں غواصی کی اور ان کے دقائق آسان کرکے ان کے اصحاب کو سکھائے اور ان کی کتابیں پوری چھان بین اور تنقید کے ساتھ پڑھائیں۔“ (3)
مذکورہ سطور کے مطالعہ سے محدثِ بریلوی کے حزم و احتیاط، حکمت و تدبر اور علومِ دینیہ کی اہمیت و افادیت نیز تفنن طبع کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور آپ کی علمی بصیرت کا درخشاں پہلو اجاگر ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا تعلیمی انحطاط اور اخلاقی زوال اور مسلم معاشرے پر مغربی تمدن کے اثرات، فحاشی و عریانیت کی یلغار پوشیدہ نہیں۔ محدثِ بریلوی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے اور اس کا اظہار کردار و گفتار، افکار و اطوار اور افعال سے ہو۔ آپ تعلیم و تعلّم، درس و تدریس کے نشیب و فراز سے واقف اور علمی و فنی نزاکتوں سے آگاہ تھے اور نصاب کے لوازمات سے باخبر۔ 70سے زائد قدیم و جدید علوم و فنون کے ماہر اور لگ بھگ ایک ہزار کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ کے تعلیمی نظریات قوم کی تعمیر و ترقی اور فلاح و اصلاح کے ضامن ہیں اور صحت مند مسلم معاشرے کی تشکیل میں معاون ہیں۔
فضلیتِ علم: امام احمد رضا محدثِ بریلوی علم کی فضیلت سے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ”مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، جنہوں نے علم و علماءکے فضائلِ عالیہ ارشاد فرمائے، انہیں کی حدیث میں وارد ہے کہ علماءوارث انبیاءکے ہیں، انبیاءنے درم و دینار ترکہ میں نہ چھوڑا، علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے، جس نے علم پایا اس نے بڑا حصہ پایا۔“ (4)
فرض عین علم: علامہ محمد عبد المبین نعمانی تحریر فرماتے ہیں: ”آج کل علم کا بڑا چرچا ہے، تعلیم کو کافی فروغ بھی مل رہا ہے۔ تعلیم کی اہمیت و فضیلت پر تقریر و تحریر کے ذریعے زوردار انداز سے روشنی بھی ڈالی جارہی ہے۔ ”علم سیکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔“ اس کا بھی بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس علم سے کون سا علم مراد ہے اس کی تعیین میں بہت من مانی سے کام لیا جاتا ہے جو جس علم کی اہمیت زیادہ سمجھتا ہے اس پر اس حدیث کو فٹ کرتا نظر آتا ہے بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ دنیاوی علم کے دلدادہ اور فرنگی تہذیب کے شیدا حضرات اس حدیث کو بہت زیادہ پڑھتے اور سناتے اور اس کے ذریعہ دنیاوی علم کی طرف رغبت دلاتے ہیں۔ دنیاوی علوم حاصل کرنا صنعت و حرفت اور سائنس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا منع نہیں۔ اسلام اور علمائے اسلام نے ان سے کبھی منع نہیں کیا۔ البتہ اس بات کا غلط پروپیگنڈہ خوب کیا گیا۔ کسی چیز کا جائز ہونا اور بات ہے اور اس کی فرضیت چیزے دگر۔“ (5)
فرض عین علم صرف ”علمِ دین“ ہے۔ رہی بات دیگر علوم کی اس تعلق سے محدثِ بریلوی نے قدرے وضاحت فرمائی ہے اور ان علوم کی تعلیم سے متعلق اسلامی احکام واضح کئے ہیں۔ جن کی بابت اس مقالے میں گفتگو ہوگی۔ محدثِ بریلوی رقم طراز ہیں: ”فقیر غفر اللہ تعالیٰ لہ قرآن و حدیث سے صدہا دلائل اس معنی پر قائم کرسکتا ہے کہ مصداقِ فضائل (علم) صرف علومِ دینیہ ہیں و بس۔“ (6)
دنیا بندہ مومن کے لئے آخرت کی کھیتی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے دنیا، دین سے جدا نہیں اور علمِ دین کے ثمرات تو دنیا آخرت میں بھی ظاہر ہوں گے۔ بایں سبب علمِ دین کا سیکھنا فرض قرار دیا گیا پھر دیگر علوم کی تعلیم بقدر ضرورت لی جاسکتی ہے۔
دین کا علم حاصل کئے بغیر دیگر علوم جغرافیہ، تاریخ وغیرہ میں وقت لگانا جائز نہیں اس لحاظ سے محدثِ بریلوی رقم طراز ہیں: ”علمِ دین سیکھنا اس قدر کہ مذہب حق سے آگاہ ہے، وضو، غسل، نماز، روزے وغیرہا ضروریات کے احکام سے مطلع ہو۔ تاجر تجارت، مزارع زراعت، اجیراجارت، غرض ہر شخص جس حالت میں ہے اس کے متعلق احکامِ شریعت سے واقف ہو، فرض عین ہے جب تک یہ حاصل کرے، جغرافیہ، تاریخ وغیرہ میں وقت ضائع کرنا جائز نہیں۔“ (7)
غرضیکہ علم وہی ہے جس سے معرفتِ الٰہی عزوجل حاصل ہو اور سرکارِ اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت کی پہچان ہو۔
فرضِ کفایہ علم: امام احمد رضا محدثِ بریلوی فرماتے ہیں: ”ان ضروریات (فرض عین علم) سے فراغ کے بعد پورا علمِ دین فقہ، حدیث، تفسیر، عربی زبان، اس کی صرف، نحو، معانی، بیان، لغت، ادب وغیرہا آلات علومِ دینیہ بطور آلات سیکھنا سکھانا فرضِ کفایہ ہے۔“ (
مباح علم: محدثِ بریلوی بعض فنون کا ذکر مباح کام کے زمرے میں کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”ہاں جو شخص ضروریاتِ دین مذکورہ سے فراغت پاکر اقلیدس، حساب، مساحت، جغرافیہ وغیرہا وہ فنون پڑھے جن میں کوئی امر مخالف شرعی نہیں تو ایک مباح کام ہوگا جبکہ اس کے سبب کسی واجب شرعی میں خلل نہ پڑے ورنہ
مبادا دل آں فرو مایہ شاد از بہر دنیا دہد دیں بباد“ (9)
علومِ عقلیہ: امام احمد رضا محدثِ بریلوی فکرِ صحیح کے مالک تھے۔ آپ کا معیار وہی تھا جو قرآن و سنت نے دیا لہٰذا اس کسوٹی پر جسے کھرا پایا اسے قبول کیا اور جسے برخلاف اسے پامال کردیا اور اس سے قوم کو بچنے کی تلقین و تنبیہ فرمائی۔ علومِ عقلیہ (مثلاً سائنس، جغرافیہ، ہیئت، ریاضی وغیرہ) سے متعلق متوازن فکر دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”تو مطلقاً علومِ عقلیہ کے تعلیم و تعلّم کو ناجائز بتانا یہاں تک کہ بعض مسائلِ صحیحہ مفیدہ عقلیہ پر اشتمال کے باعث توضیح و تلویح جیسی کتبِ جلیلہ عظیمہ دینیہ کے پڑھانے سے منع کرنا سخت جہالت شدیدہ و سفاہت بعیدہ ہے۔“ (10)
دیگر علوم کی تحصیل: محدثِ بریلوی کے نزدیک دین کا علم سیکھنا ہی سب سے اہم و افضل ہتے۔ اگر دیگر علوم کو دین کی بنیادوں پر سیکھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ایک مقام پر منطق کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: ”نفس منطق ایک علم آلی و خادم علم اعلی الاعالی ہے اس کے اصل مسائل یعنی مباحث کلیاتِ خمسہ و قول شارح و تقاسیم قضایا و تناقض و عکوس ضاعات خمس کے تعلّم میں اصلاً حرج شرعی نہیں، نہ یہ مسائل شرع مطہرہ سے کچھ مخالفت رکھیں۔“ (11)
یہ ناروا ہے کہ علمِ دین کے سوا دیگر علوم میں منہمک ہورہے اور ان میں اپنے اوقات صرف کردے۔ چاہئے کہ دیگر علوم و فنون کو دین کی بنیادوں پر اور اس کے اصولوں کی روشنی میں سیکھا جائے۔ دینی ضرورت کے تحت یا مسائلِ شرع میں جو علوم معاون ہوں ان کا حاصل کرنا محمود ہے۔ محدثِ بریلوی کے مطابق:
”خصوصاً علمِ طب کا مفید و محمود و محتاج الیہ ہونا تو ظاہر، یونہی فرائض کے لئے ضروری حساب اور ہمیں معرفت صحیحہ اوقاتِ طلوعِ فجر، کاذب و صادق و شمس و ضحوۂ کبریٰ و استوا و ظلِ ثانی غایۃ الارتفاع و مثلِ اوّل و ثانی و غروبِ شمس و شفقِ احمر و ابیض کہ نماز و سحری و افطار وغیرہا امورِ دینیہ و مسائلِ شرعیہ میں ان کی سخت حاجتِ عامہ کو بروجہ تحقیق بقدر قدرت بشری بے علم زیجات یا آلاتِ رصدیہ نامتصور، ان کی ناواقفی سے بہت لوگ سخت غلطیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔“ (12)
جو علوم کسی نہ کسی طرح مفید و کار آمد ہیں ایسے علوم کو بقدرِ ضرورت حاصل کرنے کی اجازت ہے لیکن اسی میں مشغول ہورہنا وقت کو ضائع کرنا ہے۔ محدثِ بریلوی کا یہ ارشاد جہاں بلاغت کا مرقع ہے وہیں فکر انگیز اور سینکڑوں صفحات پر بھاری ہے۔ محدثِ بریلوی تحریر فرماتے ہیں:
”ہاں علم آلی سے بقدر آلیت اشتغال چاہئے۔ اس میں منہمک ہوجانے والا سَفِیہ، جاہل اور مقاصدِ اصلیہ سے محروم و غافل ہے، اسی طرح بہت اجزائے حکمت مثلِ ریاضی، ہندسہ و حساب و جبر و مقابلہ و ارثماطیقی و سیاحت و مرایا و مناظر و جرثقیل و علمِ مثلثِ کروی و مثلث مسطح و سیاستِ مدن و تدبیر منزل و مکائد حروب و فراست و طب و تشریح و بیطرہ و بیزرہ و علم زیجات و اسطر لاب و آلاتِ رصدیہ و مواقیت و معاون و نباتات و حیوانات و کائنات الجو و جغرافیہ وغیرہا بھی شریعتِ مطہرہ سے مضادت نہیں رکھتے بلکہ ان میں بعض بلاواسطہ بعض بالواسطہ امورِ دینیہ میں نافع و معین اور بعض دیگر دنیا میں کار آمد ہیں اگرچہ مقاصدِ اصلیہ کے سوا حاجت سے زیادہ کسی شے میں تَوَغُل فضولی و بیہودگی ہے۔“ (13)
ایک اور مقام پر محدثِ بریلوی ارشاد فرماتے ہیں: ”ان (علومِ دینیہ) کے سوا کوئی علم شرع کے نزدیک علم، نہ آیات و احادیث میں وارد، اگرچہ عرف ناس میں یا باعتبار لغت اسے علم کہا کریں، ہاں آلات و وسائل کے لئے حکم مقصود کا ہوتا ہے مگر اُسی وقت تک کہ وہ بقدر توسل و تقصد توسل سیکھے جائیں اس طور پر وہ بھی موردِ فضائل ہیں۔“ (14)
علومِ اسلامیہ کے سوا دیگر علوم کی تحصیل میں محدثِ بریلوی کے مذکورہ ضابطے کی روشنی میں ہم درج ذیل نتائج اخذ کرسکتے ہیں:
(1) وہ علوم جو علومِ دینیہ کی سمجھ کے لئے ذریعہ ہوں مثل منطق، ریاضی، ہیئت وغیرہ ان کے حصول میں کوئی قباحت نہیں۔
(2) بعض وہ علوم جو دین کے امور میں فیصلے کے صدور میں معاونت کرتے ہیں اور انہیں حاصل نہ کرنے پر غلطیوں کا احتمال ہو ایسے علوم کا حاصل کرنا محمود ہے۔
(3) دین کے علم کے سوا دیگر علوم کا ہی ہو رہنا غفلت ہے اور تضیعِ اوقات۔
ممنوعہ علوم: دین و دنیا میں جن علوم کے مضرات ظاہر ہوں، جو عقائد کو تباہ اور اعمال کو برباد کردیں، ایمان و ایقان کو متزلزل اور فکر کو مضمحل کردیں، ایسے علوم کا حصول ناروا اور نقصان دہ ہے۔ اس لحاظ سے محدثِ بریلوی کے بالترتیب چند ارشادات ملاحظہ کریں:
(1) فلسفہ کی مذمت: ”اور فلسفہ تو حرام و مضر اسلام ہے، اس میں منہمک رہنے والا جہل جاہل، اجہل بلکہ اس سے زائد کا مستحق ہے، لاحول ولاقوۃالاباللہ العلی العظیم، ہیہات ہیہات، اسے علم سے کیا مناسبت، علم وہ ہے جو مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے، نہ وہ جو کفارِ یونان کا پس خوردہ۔“ (15)
(2) باطل نظریات کی تردید: علوم و فنون مسلمانوں کی میراث، انہیں مسلمانوں نے سنوارا اور عام کیا بعد کو یہود و نصاریٰ نے ان پر قبضہ جمایا اور پھر عقائدِ باطلہ کی آمیزش کے ساتھ علوم کو مشتہر کیا اور اسلامی عقائد پر رکیک حملے کئے۔ محدثِ بریلوی باطل افکار و خیالات سے متعلق یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں:
”ہاں اکثر طبیعات و عامہ الٰہیات فلاسفہ مخذولین صدہا کفر صریح و شرکِ جلی پر مشتمل مثلاً زمان و حرکت و افلاک ہیولی و صورتِ جرمیہ و نوعیہ و سفسطات و انواع موالید و نفوس کا قدم اور خالقیت عقول مفارقہ و افکار فاعل مختار و علمِ جزئیات و حشر اجساد و جنت و ناروا حالہ خرق افلاک و اعادۂ معدوم و صدور کثیر عن الواحد وغیرہا اور ان کے سوا اور اجزا و فروع فلسفہ بھی کفریاتِ صریحہ و محرماتِ قبیحہ سے مملو ہیں۔“ (16)
یہود و نصاریٰ نے علومِ جدیدہ، سائنس و فلسفہ کے توسط سے اسلام پر حملے کیے۔ محدثِ بریلوی نے ان کا بروقت جواب دیا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا۔ 1919ءمیں امریکی میٹرولوجسٹ البرٹ۔ایف۔پورٹا کی باطل پیشین گوئی کے ردّ میں ”معینِ مبین بہر دورِ شمس و سکونِ زمین“ کی تصنیف اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ نگار معرفانی نے The Revolving Sun and the Static Earth کے نام سے کیا ہے اور ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا، کراچی نے اس کی اشاعت کی ہے۔ اردو میں رضا اکیڈمی ممبئی سے اشاعت ہوچکی ہے۔
یوں ہی حرکتِ زمین اور فلاسفہ کے نظریاتِ باطلہ (قدیم و جدید) کے ردّ میں محدثِ بریلوی کی درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیا جانا چاہئے:
(1) نزولِ آیاتِ فرقانِ بسکونِ زمین و آسمان
(مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی و ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا، کراچی)
(2) فوزِ مبین در ردِّ حرکتِ زمین (مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی)
(3) الکلمة الملہمة فی الحکمة المحکمة (مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی)
(4) مقامع الحدید علیٰ خدا لمنطق الجدید
(مطبوعہ المجمع الاسلامی، مبارکپور و رضا اکیڈمی، ممبئی)
”فوزِ مبین“ کا انگریزی ترجمہ 2005ءمیں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا نے شائع کیا ہے اور مترجم ہیں عبد الحمید مہاسکر۔ بعنوان: “A Fair Success Refuting Motion of Earth”
استاذ کا مقام: نصاب اور مواد کا افادہ جبھی ظاہر ہوتا ہے جب کہ اس کا تعلّم درست ہو اور اس کے لئے استاذ (معلم) کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سلیم اللہ جندران کے مطابق: ”تدریسی مواد کتنا ہی اعلیٰ، معیاری، دلکش کیوں نہ ہو، اگر اسے پیش کرنے والے استاذ کا طریقۂ تدریس موزوں، درست اور موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو تو وہی مواد حقیقی مقاصد کے حصول کے بجائے بوریت اور بیزاری کا سبب بنتا ہے۔“(17)
الغرض تعلیم، تدریس و تربیت کے لئے استاد کا رول مرکزی ہوتا ہے۔ اس رو سے استاذ کی اہمیت کو محدثِ بریلوی کے اس ارشاد کی روشنی میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:
”پیر اور استادِ علمِ دین کا مرتبہ ماں باپ سے زیادہ ہے، وہ مربّیِ بدن ہیں یہ مربّیِ روح، جو نسبت روح کو بدن سے ہے وہی نسبت استاد و پیر سے ماں باپ کو ہے۔“ (18)
استاذ کیسا ہو: قانون سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت، اسلام کا قانون ہے۔ ہر مسلمان پر ہر آن اس کی پاسداری ضروری ہے۔ استاذ و شاگرد بھی امورِ شرع کا التزام کریں۔ شریعت میں استاذ کا احترام سکھایا گیا ہے لیکن اس کے احکام کا اطلاق غیر شرعی باتوں میں نہیں ہوسکتا۔ محدثِ بریلوی کے بقول:
”عالمِ دین ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علمِ دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائب حضور پُرنور سید عالمﷺ ہے، ہاں اگر وہ کسی خلافِ شرع بات کا حکم کرے، ہرگز نہ مانے کہ لاطاعۃ لاحد فی معصیۃ اللّٰہ تعالٰی۔“ (19)
حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ یہ علم (یعنی قرآن و حدیث کو جاننا) دین ہے لہٰذا تم دیکھ لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کررہے ہو۔ (20)
تعلیم و تعلّم کے چند شرائط: تعلیم و تدریس کا انحصار استاذ پر ہوتا ہے، اس کے لئے فرش فروش اور عمارت کی وہ ضرورت نہیں جو استاذ کی ہے۔ تعلیم و تعلّم میں جو شرائط استاذ پر عائد ہوتی ہیں اس بارے میں محدثِ بریلوی کے پیش کردہ سات نکات بالترتیب پیش کئے جاتے ہیں:
اولاً: انہماک فلسفیات و توغل مزخرفات نے معلم کے نورِ قلب کو منطقی اور سلامت عقل کو منتفی نہ کردیا ہو کہ ایسے شخص پرخود ان علومِ ملعونہ سے یک لخت دامن کشی فرض اور اس کی تعلیم سے ضرر اشد کی توقع۔
ثانیاً: وہ عقائدِ حقہ اسلامیہ سنّیہ سے بروجہ کمال واقف و ماہر اور اثباتِ حق و ازہاقِ باطل پر بعونہ تعالیٰ قادر ہو ورنہ قلوب طلبہ کا تحفظ نہ کرسکے گا۔
ثالثاً: وہ اپنی اس قدر کو بالتزام تام ہر سبق کے ایسے محل و مقام پر استعمال بھی کرتا ہے ہرگز کسی مسئلہ باطلہ پر آگے نہ چلنے دے جب تک اُس کا بطلان متعلّم کے ذہن نشین نہ کردے۔ غرض اس کی تعلیم کا رنگ وہ ہو جو حضرت بحر العلوم قدس سرہ الشریف کی تصانیفِ شریفہ کا۔
رابعاً:متعلّم کو قبل تعلیم خوب جانچ لے کہ پورا سُنِّی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے قلب میں فلسفۂ ملعونہ کی عظمت وقعت متمکن نہیں۔
خامساً: اس کے ذہن بھی سلیم اور طبعِ مستقیم دیکھ لے۔ بعض طبائع خواہی نخواہی زیغ کی طرف جاتے ہیں، حق بات ان کے دلوں پر کم اثر کرتی اور جھوٹی جلد پیر جاتی ہے۔
قال اللّٰہ تعالٰی: وَاِن یَّرَوا سَبِیلَ الرُّشدِ لَا یَتَّخِذُوہُ سَبِیلًا ج وَاِن یَّرَوا سَبِیلَ الغَیِّ یَتَّخِذُوہُ سَبِیلًا (الاعراف: 146)
(اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر درستی اور ہدایت کی راہ دیکھیں تو اس پر نہیں چلتے اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ لیں تو اس پر چلنے لگتے ہیں۔)
بالجمہ گمراہ ضال یا مستعد ضلال کو اس کی تعلیم حرام قطعی ہے۔
ع اے لوری کوئی دیت ہے متوازن ہتھیار
سادساً: معلم و متعلّم کی نیت صالحہ ہو نہ کہ اغراضِ فاسدہ۔
سابعاً: تنہا اسی پر قانع نہ ہو بلکہ دینیات کے ساتھ ان کا سبق ہو کہ اس کی ظلمت اس کے نور سے متجلی ہوتی رہے، ان شرائط کے لحاظ کے ساتھ بعونہ تعالیٰ اس کے ضرر سے تحفظ رہے گا اور اس تعلیم و تعلّم سے انتفاع متوقع ہوگا۔ (21)
موجودہ دور آرائش و نمائش کا ہے۔ جہاں چکاچوند دکھائی دی، دل ادھر ہی کھنچے چلے جاتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے مروّج نظامِ تعلیم میں انہیں قدروں کا التزام تھا۔ ظاہری سج دھج کے ساتھ ہی مال و اموال کے ذرائع بھی اس میں شامل کئے گئے اور ان علوم کو وجہِ افتخار و باعثِ عزت گردانا گیا حالآنکہ اصل علم وہی ہے جو دین کا ہے، جو معرفتِ الٰہی عزوجل کا ذریعہ اور بارگاہِ سید عالمﷺ سے نسبت کا سبب ہے۔ محدثِ بریلوی نے مذکورہ نکات میں یہی فکر دی ہے کہ قلب و نظر میں ایمان کا نور رچا بسا رہے۔ آج اگر ان تجاویز کی روشنی میں تعلیم دی جائے تو ہمارے اساتذہ و مدرسین، طلبہ و متعلّمین عمدہ نتائج سے ہم کنار ہوسکیں گے اور قوم کا تعلیمی پہلو جو ہنوز پستی کا شکار بتدریج تنزل پذیر ہے وہ تابندہ ہوجائے گا۔
حوالہ جات
(1) الرحمن: 1،2، کنز الایمان، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی
(2) النحل:34، کنز الایمان، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی
(3) احمد رضا بریلوی، امام، الاجازات المتینہ لعلماءبکة والمدینة، مشمولہ رسائلِ رضویہ، مطبوعہ ادارہ اشاعتِ تصنیفاتِ رضا، بریلی، اردو ترجمہ: علامہ محمد احسان الحق قادری، ص:161۔163
(4) محمد عبد المبین نعمانی قادری، علامہ، علمِ دین و دنیا، مطبوعہ رضا اکیڈمی، مالیگاؤں، ص:6
(5) ایضاً، ص:1
(6) ایضاً، ص:7
(7) احمد رضا بریلوی، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) مطبوعہ مرکز اہلسنّت برکاتِ رضا پور بندر، گجرات 2003ء، ج:23، ص:647
(
ایضاً، ص:648
(9) ایضاً
(10) ایضاً، ص:634
(11) ایضاً، ص:621
(12) ایضاً، ص:633
(13) ایضاً، ص: 632
(14) ایضاً، ص:628
(15) ایضاً
(16) ایضاً، ص: 634
(17) سلیم اللہ جندران، امام احمد رضا خاں کا طریقۂ تدریس، مشمولہ معارفِ رضا سالنامہ 2004ءکراچی، ص:127
(18) احمد رضا بریلوی، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) مطبوعہ مرکزِ اہلِ سنت برکاتِ رضا پور بند، گجرات 2003ء، ج:23، ص:701
(19) ایضاً، ص:638
(20) جلال الدین احمدامجدی، مفتی، انوار الحدیث، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی 2006ء، ص:111، بحوالہ مسلم و مشکوٰۃ
(21) احمد رضا بریلوی، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) مطبوعہ مرکز اہلسنّت برکاتِ رضا پور بندر، گجرات، 2003ء، ج:23، ص:635