Administrator Admin
Posts : 1220 Join date : 23.02.2009 Age : 44 Location : Rawalpindi
| Subject: جمع قرآن مجید Tue 8 Dec 2009 - 6:54 | |
| جمع قرآن مجید ! حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فاضل اور فن تحریر میں ماہر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین کی ایک جماعت کو قرآن کریم کی کتابت کے لیے متعیّن فرمایا ہوا تھا جنھیں کاتبان وحی کہا جاتا تھا ، جب بھی کوئی آیت یا مجموعہ آیات یاسورہ نازل ہوتی تو ارشاد نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق کاتبان وحی اسے ضبط تحریر میں لاتے ، حضور ہر آیت کے متعلق یہ تصریح فرماتے کہ یہ آیت فلاں سورۃ میں فلاں مقام پر لکھی جائے اس طرح جوں جوں قرآن نازل ہوتا رہا رسول مکرّم کی نگرانی میں حضور کی ہدایات کے مطابق تحریر کیا جاتا رہا ،لیکن یہ تحریریں کتابی شکل میں مدون نہیں تھیں بلکہ کاغذوں ،ہڈی کے ٹکڑوں ،کھجور کے چھلکوں ،پتھّر کی سِلّوں وغیرہ اشیاء پر لکھی جاتی رہیں ۔ حفاظت قرآن کا سب سے اہم ذریعہ حفظ قرآن مجید تھا ،حضور اپنے صحابہ کو اسے یاد کرنے کا شوق دلاتے ، قیامت کے روز حفّاظ قرآن کو مقامات رفیعہ اور مدارج سنیّہ پر فائز ہونے کی بشارتیں دیتے ، نماز میں بھی اس کی تلاوت کو فرض کر دیا گیا ، اس لئے ہر مسلمان کے لئے قرآن کا کُچھ نہ کُچھ حصّہ حفظ کرنا ضروری ہوگیا ۔ اور کئی صحابہ ایسے تھے جنھیں تمام کا تمام قرآن حکیم یاد تھا ۔ رحمت عالم علیہ الصلواۃ والسلام کے رفیق اعلٰی سے جا ملنے کے بعد جب ارتداد کا فتنہ اٹھا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو کچلنے کے لئے صحابہ کے لشکر روانہ کئے تو مسیلمہ کذاب سے یمامہ کے مقام پر مسلمانوں کی جو خونریزی جنگ ہوئی اس میں اگر چہ مسیلمہ اور اس کی جھوٹی نبوت کا تو خاتمہ ہوگیا لیکن ختم رسالت کے فدا کاروں کا بھی بے انداز جانی نقصان ہوا ، جس میں سات سو کے قریب صرف حفّاظ قرآن نے جام شہادت نوش کیا۔ ( القرطبی ) اس سانحہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بہت پریشان کردیا ، بارگاہ خلافت میں حاضر ہو کر انھوں نے عرض کی کہ اے صدیق رضی اللہ عنہ ! باطل سے جنگوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا ، اگر حفاظ قرآن کے قتل کی یہی رفتار رہی تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہم اللہ تعالٰی کی اس کتاب سے محروم نہ ہوجائیں ، اس لئے مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے کتابی شکل میں یکجا جمع کر دیا جائے ، حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اے عمر رضی اللہ عنہ ! میں وہ کام کرنے کو تیار نہیں جسے حضور علیہ الصلواۃ والتسلیم نے نہیں کیا ، لیکن حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے پیہم اصرار کے باعث آپ کو بھی اس کام کی اہمیّت کا احساس ہوگیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو طلب کیا اور انھیں قرآن کریم کو یکجا جمع کرنے کی ہدایت فرمائی ، حضرت زید رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حضرت ابو بکر مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جانے کا حکم دیتے تو مجھ پر اتنا شاق نہ گزرتا جتنی اس حکم کی تعمیل شاق گزری ۔ پہلے آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا کام کرنے سے انکار کیا جو عہد رسالت میں نہیں کیا گیا تھا لیکن خلیفہ اوّل کی فہمائش سے انھیں بھی انشراح صدر حاصل ہوگیا ، اور اس کام کی اہمیّت کا انھیں بھی احساس ہوگیا ، بڑی جانفشانی ، محنت تجسّس اور جستجو سے قرآن حکیم کا پہلا نسخہ مدوّن کیا گیا، چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یہ نسخہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس رہا ، آپ رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس رہا ، اور ان کے بعد اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس محفوظ رکھ دیا گیا ، اور ضرورت کے وقت اس کی طرف رجوع کیا جاتا ۔ یہ امر مخفی نہیں کہ قرآن کے اولّین مخاطب اہل عرب تھے جن کی مادری زبان عربی تھی ، اگر چہ سب قبائل کی مشترک زبان عربی ہی تھی لیکن ان کے لہجوں میں تلفّظ الفاظ میں اور بعض اعراب میں بیّن تفاوت تھا ، یہ صورت حالات ہر زبان میں ہوتی ہے ، جس علاقہ میں اُردو بولی جاتی ہے وہاں کے ہر ضلع بلکہ ہر تحصیل کے لوگوں کے لب و لہجہ میں کافی فرق پایا جاتا ہے ، ابتداء میں مختلف قبائل کی سہولت کے پیش نظر انھیں اُن کے مخصوص انداز کے مطابق قرآت قرآن کی اجازت دے دی گئی تھی ، کیونکہ سب اہل زبان تھے ، اس لئے ایسے تفاوت سے کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوتی تھی ، لیکن جب فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا اور دوسرے ممالک بھی قلمر واسلامی کا حصہ بن گئے اور وہاں کے باشندوں نے اسلام قبول کیا اور قرآن مجید پڑھنا شروع کیا تو ہر ایک نے قرآن کے فقط اسی لہجہ اور تلفّظ کو صحیح یقین کیا جو اُسے اُس کے استاد نے سکھایا تھا اس طرح مختلف اساتذہ کے شاگرد ان اختلاف کے باعث ایک دوسرے کی تغلیظ کرنے لگ گئے اور فتنہ و فساد کی آگ آہستہ آہستہ سُلگنے لگی ، اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش آیا ،جس نے آپ رضی اللہ عنہ کو حیران و سراسیمہ کردیا ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ جنگ ارمینیہ میں شریک تھے عراق اور شام کے نو مسلم بھی اس جنگ میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے ، ہر ایک نے اپنے معلّم کی سکھائی ہوئی قرآت کے مطابق قرآن مجید پڑھنا شروع کیا جس سے باہمی نزاع پیدا ہوگیا ، ہر ایک نے دوسرے کی تغلیظ کی اور اسے محرّف قرآن کہا ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھا تو انھیں سخت فکر دامن گیر ہوئی چنانچہ آپ مدینہ منوّرہ واپس آئے اور اپنے گھر جانے سے پہلے امیر المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ۔ ادرک ھذہ الامۃ قبل ان تھلک ! اس امت کی چارہ سازی کیجئے اس سے پیشتر کہ یہ ہلاک ہوجائے اور پھر سارا ماجرا کہہ سنایا اور کہا ! انی اخشی علیہم ان یختلفوا فی کتابھم کما اختلف الیھود والنصاری ! یعنی مجھے ان کے بارے میں سخت اندیشہ ہے کہ کہیں یہ بھی یہود و نصارٰی کی طرح اپنی کتاب میں اختلاف نہ کرنے لگیں ۔ قرآن کریم کا نزول لغت قریش کے مطابق ہوا تھا ، محض آسانی اور سہولت کے پیش نظر دوسرے قبائل کو اپنے اپنے لب و لہجہ سے اس کی تلاوت کی اجازت دی گئی تھی ،لیکن اب یہ رُخصت ایک عظیم فتنہ کا باعث بن رہی تھی ، ان حالات میں اس کو برقرار رکھنا سراسر نقصان دہ اور مُضر تھا ، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے مشورہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قرآن کریم کا ایک نسخہ صرف لغت قریش کے مطابق لکھیں ، چنانچہ وہ تیار کر چکے تو اس کی متعدّد نقلیں تیّار کرکے مختلف دیار و امصار میں بھیجی گئیں اور لوگوں کو اس کی پابندی کا سختی سےحکم دیا گیا اور دوسرے تمام نسخوں کو ممنوع قرار دے دیا گیا ، اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سعی و کوشش سے ایک مہلک ترین فتنہ کا سد باب ہوگیا ۔ اُمّت اسلامیہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس احسان کا شکریہ ادا نہیں کرسکتی ، اسی وجہ سے ہی آپ کو جامع آیات القرآن کے معزّز لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لب و لہجہ کے تفاوت اور قرآتوں کے اختلاف کی نوعیّت بیان کردی جائے تاکہ اس کے متعلق کوئی وسوسہ دل میں نہ رہ جائے ، چند مثالیں ذکر کردینے سے ان اُمور کی حقیقت واضح ہو جائے گی ، اور پتہ چل جائے گا کہ یہ اختلاف معمولی قسم کا تھا ، مثلاً قریش حتّی (جب تک ) کہتے اور بنی ہذیل اور بنی ثقیف اس کا تلفظ اَتّی کیا کرتے ، بنی اسد مضارع میں حروف ،، اتین کو مکسور پڑھا کرتے ، جیسے تِعلَمُونَ اور قریش کی لغت میں حروف اتین مفتوح ہیں تَعلَمُونَ ، مصر میں اب بھی عام لوگ اپنی گفتگو میں حروف ،، اتین ،، کو کسرہ دیا کرتے ہیں ۔ قریش کی لغت میں ماء غیر آسن ہے ، لیکن بنی تمیم اسے ماء غیر یَاسِن پڑھتے ۔ ان امثلہ سے معلوم ہوگیا کہ یہ اختلاف کس نوعیّت کا تھا ، لیکن قرآن کا تقدّس اور اس کی عظمت اتنے سے اختلاف کی بھی متحمّل نہیں ۔ اس لئے اس کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ، چنانچہ وُہی قرآن جو عرش عظیم کے رب نے اپنے محبوب رُسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا تھا اور جس کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے خالص قریشی لغت کے مطابق جس میں اس کا نزول ہوا تھا ایک صحیفہ میں مدوّن فرمایا وہی قرآن جوں کا تُوں ، بغیر کسی تحریف کے ، بغیر کسی معمولی تغیّر کے ، بغیر کسی ادنٰی ردّ بدل کے اب تک محفوظ ہمارے پاس موجود ہے ، اور قیامت تک موجود رہے گا ۔ اور اس کا اعتراف دوست ودُشمن سب کو ہے ، چنانچہ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا صفحہ 480 جلد 13 میں بھی یہ تصریح موجود ہے ۔ This Recension Of ,,Uthman,, Thus Became the only Standard Text For The Whole Muslim World Up To The Present Day.
| |
|
muhammad khurshid ali Moderator
Posts : 371 Join date : 05.12.2009 Age : 42 Location : Rawalpindi
| Subject: Re: جمع قرآن مجید Wed 9 Dec 2009 - 12:44 | |
| | |
|
casper1980 Moderator
Posts : 11 Join date : 09.12.2009
| Subject: Re: جمع قرآن مجید Thu 10 Dec 2009 - 6:04 | |
| | |
|
sohnee
Posts : 68 Join date : 15.12.2009 Age : 39 Location : rawalpindi
| Subject: Re: جمع قرآن مجید Tue 15 Dec 2009 - 16:06 | |
| | |
|
Sponsored content
| Subject: Re: جمع قرآن مجید | |
| |
|