Raza e Muhammad
رضائے محمد ﷺ پر آپ کو خوش آمدید
Raza e Muhammad
رضائے محمد ﷺ پر آپ کو خوش آمدید
Raza e Muhammad
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.



 
HomeGalleryLatest imagesRegisterLog in
www.kanzuliman.biz.nf
Raza e Muhammad

Hijri Date

Latest topics
» نماز کے اوقات (سوفٹ وئیر)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeWed 14 Aug 2013 - 4:43 by arshad ullah

» بے مثل بشریت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeTue 12 Feb 2013 - 6:53 by Administrator

» Gucci handbags outlet online
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeThu 17 Jan 2013 - 2:19 by cangliang

» hermes Birkin 30
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeThu 17 Jan 2013 - 2:18 by cangliang

» CHRISTIAN LOUBOUTIN EVENING
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeSun 13 Jan 2013 - 6:06 by cangliang

» Cheap Christian Louboutin Flat
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeSun 13 Jan 2013 - 6:05 by cangliang

» fashion CHRISTIAN LOUBOUTIN shoes online
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeSun 13 Jan 2013 - 6:05 by cangliang

» Christian Louboutin Evening Shoes
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeWed 9 Jan 2013 - 5:36 by cangliang

» CHRISTIAN LOUBOUTIN EVENING
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeWed 9 Jan 2013 - 5:35 by cangliang

Similar topics
Search
 
 

Display results as :
 
Rechercher Advanced Search
Flag Counter

 

 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت

Go down 
2 posters
AuthorMessage
legendrao




Posts : 10
Join date : 12.05.2011
Age : 43
Location : Sargodha

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Empty
PostSubject: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeThu 9 Jun 2011 - 4:21

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی شانِ علم اور معرفت

الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ

میں صدقے یا رسول اللہ
میرے ماں باپ قربان

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت کا بیان

الحديث رقم 9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : ما يکره من کثرة السؤال وتکلف ما لايعنيه، 6 / 2660، الرقم : 6864، وفي کتاب : مواقيت الصلاة، باب : وقت الظهر عند الزوال، 1 / 200، الرقم : 2001، 2278، وفي کتاب : العلم، باب : حسن برک علي رکبتيه عند الإمام أو المحدث، 1 / 47، الرقم : 93، وفي الأدب المفرد، 1 : 404، الرقم : 1184، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : توقيره صلي الله عليه وآله وسلم وترک إکثار سؤال عما لا ضرورة إليه، 4 / 1832، الرقم : 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 162، الرقم : 12681، وأبو يعلي في المسند، 6 / 286، الرقم : 3201، وابن حبان في الصحيح، 1 / 309، الرقم : 106، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 72، الرقم : 9155.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا
۔
نْ عُمَرَ رضي الله عنه يَقُوْلُ : قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّي دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ، حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

الحديث رقم 10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في قول اﷲ تعالي : وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده وهوأهون عليه، 3 / 1166، الرقم : 3020.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘

559 / 11. عَنْ حُذَيفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَقَامًا مَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَي قِيَامِ السَّاعَةِ، إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : القدر، باب : وکان أمر اﷲ قدرا مقدورا، 6 / 2435، الرقم : 6230، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : اخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، والترمذي مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وأبوداود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 94، الرقم : 4240، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 385، الرقم : 23322، والبزار في المسند، 7 / 231، الرقم : 8499، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والطبراني مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في مسند الشاميين، 2 / 247، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکوٰة المصابيح، 2 / 278، الرقم : 5379.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہ فرما دیا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّي بِنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْفَجْرَ. وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّي حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّي حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّي غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا هُوَ کَاءِنٌ قَالَ : فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

الحديث رقم 12 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2892، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء ما أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وابن حبان في الصحيح، 15 / 9، الرقم : 6638، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم : 8498، وأبويعلي في المسند، 12 / 237، الرقم : 2844، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 28، الرقم : 46، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم : 2183.

’’حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو ہم میں سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔
عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ : أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : بِمَا هُوَکَاءِنٌ إِلَي أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ. فَمَا مِنْهُ شَيئٌ إِلاَّ قَدْ سَأَلْتُهُ إِلاَّ أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ مَا يُخْرِجُ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ مِنْ الْمَدِيْنَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 13 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 386، الرقم : 23329، والحاکم في المستدرک، 4 / 472، الرقم : 8311، والبزار في المسند، 7 / 222، الرقم : 2795، والطيالسي في المسند، 1 / 58، الرقم : 433، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 912، الرقم : 996، وإسناده صحيح، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 889، الرقم : 458.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والی ہر ایک بات بتا دی اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا نہ ہو البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہلِ مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی؟‘
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ : لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ. قَالَ : فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَ.لَأُ الْأَعْلَي؟ قُلْتُ : رَبِّي لَا أَدْرِي، فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ، حَتَّي وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي. وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

وفي رواية عنه : قَالَ : فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَتَلاَ : (وَکَذَلِکَ نُرِيْ إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْقِنِيْنَ) (الأنعام، 6 : 75). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

وفي رواية : عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : فَتَجَلَّي لِي کُلُّ شَيءٍ وَعَرَفْتُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِِيُّ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وفي رواية : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَعَلِمْتُ فِي مَقَامِي ذَلِکَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالرُّوْيَانِيُّ.

وفي رواية : فَعَلِمْتُ مِنْ کُلِّ شَيءٍ وَبَصَرْتُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

وفي رواية : عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا عَلِمْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم 14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة ص، 5 / 366 - 368، الرقم : 3233 - 3235، والدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب : في رؤية الرب تعالي في النوم، 2 / 170، الرقم : 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم : 3484، 4 / 66، 5 / 243، الرقم : 22162، 23258، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 290، الرقم : 8117، 20 / 109، 141، الرقم : 216، 690، والروياني في المسند، 1 / 429، الرقم : 656، 2 / 299، الرقم : 1241، وأبويعلي في المسند، 4 / 475، الرقم : 2608، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم : 31706، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 49، الرقم : 2585، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 228، الرقم : 682، وابن أبي عاصم في السنة 1 / 203، الرقم : 465، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 489، الرقم : 1121، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 120، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 159، الرقم : 591، وابن عبد البر في التمهيد، 24 / 323، وابن النجاد في الرّد علي من يقول القرآن مخلوق، 1 / 5856، الرقم : 76 - 78، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 176 - 178.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔‘‘

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔‘‘ (الانعام، 6 : 75)۔

’’اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔‘‘

’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔‘‘

’’اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔‘‘

’’اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔‘
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقَبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّي نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ : وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَي الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ : فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّّ صلي الله عليه وآله وسلم نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ رضي الله عنهم لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ : أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّي أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ، حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ : فَأَخْبَرَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ : مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا : دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
حدیث 1ابوداود شریف کتاب الصلوٰت جلد 1صفحہ 67

اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کی تین نمازیں معاف فرمادیں ان صحابی کا کہنا تھا کہ وہ کسی وجہ سے پانچ نمازیں نہیں پڑھ سکتے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تین نمازیں معاف فرمادیں اب آپ یہ دیکھیں کہ جو پانچ نمازیں اللہ کی طرف سے فرض کی گئیں اس کو ہم سب کا آقا و مولا نے ان صحابی کے لیئے کیسا کرم فرمایا۔

حدیث2 مسلم شریف کتاب الایمان جلد 1صفحہ 37

اس حدیث میں مالک شریعت نے ایک صحابی کے لیئے زکوٰت اور جہاد معاف فرمادئیے ان صحابی نے اسلام قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ میں نہ تو زکوٰت دونگا اور نہ جہاد کرونگا ان صحابی کی اس شرط کو مانتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داخل اسلام کیا
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دعائے برکت دے دی، تو سب کے باغوں میں سال میں ایک بار پھل آتا تھا۔ مگر حضرت انس کے باغ میں سال میں دو بار (مشکٰوۃ باب الکرامات) حضرت جابر و ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کو تھوڑے سے جو عنایت فرمادئیے، تو تیس سال تک وہ جو ختم نہ ہوئے (مشکٰوۃ باب المعجزات) ایک پیالہ پانی تھا آپ نے اپنی انگلیاں اس میں ڈال دیں ، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے، سینکڑوں آدمیوں نے اس سے وضو کیا، غسل کیا، جانوروں کو پلایا اور مشکیزے بھر لئے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر چار سیر آٹے سے تمام لشکر اور سارے مدینہ والوں کو دعوت کھلادی۔ یہ ہے سخاوت مصطفٰیے صلی اللہ علیہ وسلم۔
اگر قدرت خدا کا نظارہ کرنا ہے تو محبوب کی قدرت کو دیکھو کہ اشارے سے ڈوبا ہوا سورج واپس کرلیا (شامی) پورا چاند دو ٹکڑے کر ڈالا (قرآن کریم) رفع حاجت کےلئے دو درختوں کو جو دور دور تھے جمع فرمادیا۔ اگر نور الٰہی دیکھنا ہو تو جمال مصطفٰی دیکھو۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ چاندنی رات تھی۔ محبوب علیہ السلام حلہ پہنے بیٹھے تھے، میں کبھی آسمان کے چاند کو دیکھتا تھا اور کبھی اپنے مدینہ کے چاند کو، واللہ شکل مصطفٰیے چاند سے کہیں منور تھی۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھ کر کہا! سبحان اللہ آپ کا چہرہ مبارک اور رنگ کتنا نور سے لبریز ہے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اے عائشہ! ان لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو قیامت کے دن اس چہرے کو دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے اور وہ لوگ بخیل ہوں گے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا بخیل کون ہے؟
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بخیل وہ ہے جو میرا نام سنے اور درود نہ پڑھے۔“

حضرت علی کرم اللہ وجہ، فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے گرد ونواح میں تشریف لے گئے تو جس پہاڑ یا درخت کا بھی سامنا ہوتا تو وہ عرض کرتا : الَسَّلَامُ عَلَیکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ (ترمذی شریف) (مشکوٰتہ شریف)
حدیث 1ابوداود شریف کتاب الصلوٰت جلد 1صفحہ 67

اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کی تین نمازیں معاف فرمادیں ان صحابی کا کہنا تھا کہ وہ کسی وجہ سے پانچ نمازیں نہیں پڑھ سکتے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تین نمازیں معاف فرمادیں اب آپ یہ دیکھیں کہ جو پانچ نمازیں اللہ کی طرف سے فرض کی گئیں اس کو ہم سب کا آقا و مولا نے ان صحابی کے لیئے کیسا کرم فرمایا۔

حدیث2 مسلم شریف کتاب الایمان جلد 1صفحہ 37

اس حدیث میں مالک شریعت نے ایک صحابی کے لیئے زکوٰت اور جہاد معاف فرمادئیے ان صحابی نے اسلام قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ میں نہ تو زکوٰت دونگا اور نہ جہاد کرونگا ان صحابی کی اس شرط کو مانتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داخل اسلام کیا

حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دعائے برکت دے دی، تو سب کے باغوں میں سال میں ایک بار پھل آتا تھا۔ مگر حضرت انس کے باغ میں سال میں دو بار (مشکٰوۃ باب الکرامات) حضرت جابر و ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کو تھوڑے سے جو عنایت فرمادئیے، تو تیس سال تک وہ جو ختم نہ ہوئے (مشکٰوۃ باب المعجزات) ایک پیالہ پانی تھا آپ نے اپنی انگلیاں اس میں ڈال دیں ، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے، سینکڑوں آدمیوں نے اس سے وضو کیا، غسل کیا، جانوروں کو پلایا اور مشکیزے بھر لئے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر چار سیر آٹے سے تمام لشکر اور سارے مدینہ والوں کو دعوت کھلادی۔ یہ ہے سخاوت مصطفٰیے صلی اللہ علیہ وسلم۔
اگر قدرت خدا کا نظارہ کرنا ہے تو محبوب کی قدرت کو دیکھو کہ اشارے سے ڈوبا ہوا سورج واپس کرلیا (شامی) پورا چاند دو ٹکڑے کر ڈالا (قرآن کریم) رفع حاجت کےلئے دو درختوں کو جو دور دور تھے جمع فرمادیا۔ اگر نور الٰہی دیکھنا ہو تو جمال مصطفٰی دیکھو۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ چاندنی رات تھی۔ محبوب علیہ السلام حلہ پہنے بیٹھے تھے، میں کبھی آسمان کے چاند کو دیکھتا تھا اور کبھی اپنے مدینہ کے چاند کو، واللہ شکل مصطفٰیے چاند سے کہیں منور تھی۔
لیکن صبح کو اچانک یہ صدا لوگوں کے کان میں آئی کہ علی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ آپ نے قاصد بھیج کر ان کو بلایا اور ان کی دکھتی ہوئی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا دیا اور دعا فرمائی تو فوراً ہی انہیں ایسی شفا حاصل ہو گئی کہ گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اپنا علم نبوی جو حضرت ام المومنین بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی سیاہ چادر سے تیار کیا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں عطا فرمایا۔ (زرقانی ج2 ص222)
اور ارشاد فرمایا کہ :
تم بڑے سکون کے ساتھ جاؤ اور ان یہودیوں کو اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ مسلمان ہو جانے کے بعد تم پر فلاں فلاں اللہ کے حقوق واجب ہیں۔ خدا کی قسم ! اگر ایک آدمی نے بھی تمہاری بدولت اسلام قبول کر لیا تو یہ دولت تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ (بخاری ج2 ص 605 غزوہء خیبر)
[right]
Back to top Go down
muhammad khurshid ali
Moderator
Moderator
muhammad khurshid ali


Posts : 371
Join date : 05.12.2009
Age : 42
Location : Rawalpindi

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Empty
PostSubject: Re: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    Icon_minitimeThu 9 Jun 2011 - 7:51

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت    755444
Back to top Go down
 
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت
Back to top 
Page 1 of 1
 Similar topics
-
» جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے
» حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں کا بیان
» ) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دے کر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے۔

Permissions in this forum:You cannot reply to topics in this forum
Raza e Muhammad :: اسلامی شخصیات :: حضرت محمد ﷺ-
Jump to:  
Free forum | ©phpBB | Free forum support | Report an abuse | Latest discussions