(
ستر ہزار مردے زندہ ہو گئے !
یہ حضرت حزقیل علیہ السلام کی قوم کا ایک بڑاہی عبرت خیز اور انتہائی نصیحت آمیز واقعہ ہے جس کو خداوند قدوس نے قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں بیان فرمایا ہے۔
حضرت حزقیل علیہ السلام کون تھے ؟
یہ حضرت موسٰٰی علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ ہیں جو منصب نبوت پر سرفراز کئے گئے ۔ حضرت موسٰٰی علیہ السلام کے وفات کے بعد آپ کے خلیفہ اول حضرت یوشع بن نون علیہ السلام ہوئے جن کو اللہ تعالٰی عطافرمائی ۔ ان کے بعد حضرت کالب بن یوحنا علیہ السلام، حضرت موسٰی علیہ اسلام کے خلافت سے سرفراز ہو کر مرتبہ پر فائز ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام حضرت موسٰی علیہ السلام کے جانشین اور نبی ہوئے۔
حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ابن العجوز ( بڑھیا کے بیٹے ) ہے اور آپ ذوالکفل بھی کہلاتے ہیں۔ ‘ ابن العجوز ‘ کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کی والدہ ماجدہ بہت بوڑھی ہو چکی تھیں اور آپ کا لقب ذوالکفل اس لئے ہوا کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاءکرام کو قتل سے بچا لیا تھا جن کے قتل پر یہودی قوم آمادہ ہوگئی تھی۔ پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے یہودیوں کی تلوار سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو ہدایت فرماتے رہے۔ ( تفسیر الصاوی، ج1، ص206، پ2، البقرۃ: 243 )
مردوں کے زندہ ہونے کا واقعہ:
اس کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالٰی کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس جنگل میں بھیج دیا۔ جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مار کر بلند آواز سے یہ فرما دیا کہ موتوا یعنی تم سب مر جاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مر گئے جن کی تعداد ستر ہزار تھی۔ ان مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کر سکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گور و کفن آٹھ دن تک پڑی پڑی سڑنے لگیں اور بے انتہا تعفن و بدبو سے پورے جنگل بلکہ اس کے اطراف میں بدبو پیدا ہو گئی۔ کچھ لوگوں نے ان کی لاشوں پر رحم کھا کر چاروں طرف سے دیوار اٹھا دی تاکہ یہ لاشیں درندوں سے محفوظ رہیں۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اس جنگل میں ان لاشوں کے پاس گزر ہوا تو اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موت ناگہانی اور بےگور و کفن لاشوں کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر گیا۔ آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالٰی کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑ گڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یااللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے۔ یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سے مجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے۔ افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا۔ اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیری حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی۔
آپ بڑے سوز دل کے ساتھ دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر وحی اتر پڑی کہ اے حزقیل ( علیہ السلام ) آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرما دیجئے کہ اے ہڈیو!* بے*شک* اللہ تعالٰی *تم کو* حکم *فرماتا* ہے *کہ *تم *اکٹھا *ہو* جاؤ۔ *یہ *سن *کر *بکھری *ہوئی* ہڈیوں *میں *حرکت *پیدا* ہوئی *اور* ہر *آدمی *کی* ہڈیاں *جمع ***ہو* کر **ہڈیوں *کے *ڈھانچے **بن* گئے۔** پھر *یہ *وحی* آئی *کہ* اے* حزقیل*( علیہ السلام ) آپ فرما دیجئے کہ اے ہڈیو! تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم گوشت پہن لو۔ یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی۔ اے حزقیل اب یہ کہہ دو کہ کے مردو! خدا کے حکم سے تم سب اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیں دم زدن میں ناگہاں یہ پڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئیں کہ
سبحان اللٰھم و بحمدک لاالٰہ الا انت پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آکر دوبارہ آباد ہو گئے اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبو برابر آتی وہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہو جاتا تھا۔ اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہو جاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کے کپڑوں پر نمودار ہو جاتا تھا۔ چنانچہ یہ اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں۔ ( تفسیر روح البیان، ج1، ص378، پ2، البقرۃ: 243 )
یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں خدا وند قدوس نے اس طرح بیان فرمایا کہ
الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت ص فقال لھم اللہ موتوا قف ثم احیاھم ط ان اللہ لذو فضل علی الناس ولکن اکثر الناس لا یشکرون ہ ( پ2، البقرہ: 243 )ترجمہ کنزالایمان: اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مر جاؤ پھر انہیں زندہ فرما دیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
درس ہدایت:::بنی اسرائیل کے اس محیر العقول واقعہ سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں۔
(1) آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ لٰہذا موت سے بھاگنا بالکل ہی بیکار ہے۔ اللہ تعالٰی نے جو موت مقدر فرما دی ہے وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی نہ ایک سیکنڈ اپنے وقت سے پہلے آ سکتی ہے نہ ایک سیکنڈ بعد آئے گی لٰہذا بندوں کو لازم ہے کہ رضاء الٰہی پر راضی رہ کر صابر و شاکر رہیں اور خواہ کتنی ہی وبا پھیلے یا گھمسان کا رن پڑے اطمینان و سکون کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور یہ یقین رکھیں کہ جب تک میری نہیں آتی مجھے کوئی نہیں مار سکتا اور نہ میں مر سکتا ہوں اور جب میری موت آ جائیگی تو میں کچھ بھی کروں کہیں بھی چلا جاؤں بھاگ جاؤں یا ڈٹ کر کھڑا رہوں میں کسی حال میں بچ نہیں سکتا۔
(2) اس آیت میں خاص طور پر مجاہدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاد سے گریز کرنا یا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہرگز موت کو دفع نہیں کر سکتا لٰہذا مجاہدین کو میدان جنگ میں دل مضبوط کرکے ڈٹے رہنا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ میں موت کے وقت سے پہلے نہیں مر سکتا ،نہ کوئی مجھے مار سکتا ہے ،یہ عقیدہ رکھنے والا اس قدر بہادر اور شیر دل ہوجاتاہے کہ خوف اور بزدلی کبھی اس کے قریب نہیں آتی اور ا س کے پائے استقلال میں کبھی بال برابر بھی کوئی لغزش نہیں آسکتی۔ اسلام کا بخشا ہوا یہی وہ مقدس عقیدہ ہے کہ جس کی بدولت مجاہدین اسلام ہزاروں کفار کے مقابلہ میں تنہا پہاڑ کی طرح جم کر جنگ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ فتح مبین ان کے قدموں کا بوسہ لیتی تھی اور وہ ہر جگہ جنگ میں مظفر و منصور ہو کر اجر عظیم اور مال غنیمت کی دولت سے مالا مال ہوکر اپنے گھروں میں اس حال میں واپس آتے تھے کہ ان کے جسموں پر زخموں کی کوئی خراش بھی نہیں ہوتی تھی اور وہ کفار کے دل بادل لشکروں کا صفایا کر دیتے تھے۔ شاعر مشرق نے اس منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کسی مجاہد اسلام کی زبان سے یہ ترانہ سنایا کہ
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
حق سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
( کلیات اقبال، بانگ درا، ص164 )
[center]