Raza e Muhammad
رضائے محمد ﷺ پر آپ کو خوش آمدید
Raza e Muhammad
رضائے محمد ﷺ پر آپ کو خوش آمدید
Raza e Muhammad
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.



 
HomeGalleryLatest imagesRegisterLog in
www.kanzuliman.biz.nf
Raza e Muhammad

Hijri Date

Latest topics
» نماز کے اوقات (سوفٹ وئیر)
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeWed 14 Aug 2013 - 4:43 by arshad ullah

» بے مثل بشریت
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeTue 12 Feb 2013 - 6:53 by Administrator

» Gucci handbags outlet online
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeThu 17 Jan 2013 - 2:19 by cangliang

» hermes Birkin 30
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeThu 17 Jan 2013 - 2:18 by cangliang

» CHRISTIAN LOUBOUTIN EVENING
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeSun 13 Jan 2013 - 6:06 by cangliang

» Cheap Christian Louboutin Flat
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeSun 13 Jan 2013 - 6:05 by cangliang

» fashion CHRISTIAN LOUBOUTIN shoes online
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeSun 13 Jan 2013 - 6:05 by cangliang

» Christian Louboutin Evening Shoes
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeWed 9 Jan 2013 - 5:36 by cangliang

» CHRISTIAN LOUBOUTIN EVENING
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeWed 9 Jan 2013 - 5:35 by cangliang

Similar topics
Search
 
 

Display results as :
 
Rechercher Advanced Search
Flag Counter

 

 قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد

Go down 
2 posters
AuthorMessage
Administrator
Admin
Admin
Administrator


Posts : 1220
Join date : 23.02.2009
Age : 43
Location : Rawalpindi

قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Empty
PostSubject: قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد   قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeSat 25 Sep 2010 - 16:41

قرآن اور قدرتی آفات
پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد

ابتدائیہ
دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لکھنے اور بولنے والے آٹھ اکتوبر (اور اس طرح کی دوسری قدرتی آفات) کا تعلق گزشتہ انبیاء کرام کی اقوام کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ، جن کا تذکرہ قرآن مجید اور بائبل میں*ملتا ہے کے ساتھ جوڑتے ہیں اور کبھی کھلے اور کبھی لفظوں میں عذاب الٰہی اور قہر خداوندی قرار دیتے ہیں ۔
زلزلے ،سیلاب اور سمندری طوفان جیسے مظاہر انسانی ، حیوانی اور نباتی زندگی کے لیے خطرناک حد تک تباہ کن نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں ، ان کا نتیجہ بڑے پیمانے پر عمارتوں اور دوسرے ساز و سامان کی تباہی کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے ، مزید برآں ان واقعات سے طبی اور نفسیاتی وجوہ کی بنیاد پر ایسے دکھ اور غم جنم لے سکتے ہیں جو زندگی بھر انسان کو پریشان اور ملول کرتے رہیں ۔
قدرتی آفات اور انسان رنج و ابتلاء کا موضوع سائنس ، مذہب اور مختلف دوسرے شعبہ ہائے علم ، جیسے نفسیات اور معاشرتی علوم کے نہایت فکر انگیز موضوعات میں سے ہے جب کبھی کوئی آفت واقع ہوتی ہے تو اس سے نہ صرف فوری عملی اہمیت کے مسائل ابھرتے ہیں بلکہ ایسے سوالات بھی جھنجوڑتے ہیں جن کی حیثیت علمیاتی اور فلسفیانہ ہوتی ہے ، لوگ بجاطور پر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ قدرتی آفات کے موقع پر ہونے والی تباہی کا اصل سبب کیا ہے ؟ یہ اللہ تعالی کے غضب کا نتیجہ ہے یا اس کا سبب انسانوں کی غلطیاں ہیں ؟ یا کہ یہ ارباب اختیار کی انتظامی غفلت جو ممکن ہے کہ سالہا سال سے چلی آرہی ہو کا نتیجہ ہوتی ہے ، اس مضمون میں ہم نے قدرتی آفات کے موضوع پر اس سے متعلق کئی سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بحث کی ہے ، عذاب الٰہی اور قہر خداوندی نظریہ کا جائزہ قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں لیا گیا ہے ۔

درجہ بندی
آفات وہ واقعات ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی اور تکلیف و غم کا باعث بنتے ہیں قدرتی آفات کی مذہب یا کسی دوسرے علمی نظام کے تحت تفہیم اور منطقی توجیح کے لیے ضروری ہے کہ ہم قدرتی واقعات کے نتیجہ میں واقع ہونے والی تباہی اور اس تباہی میں فرق کریں جوکہ لوگوں کے ان اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے جن کا ارتکاب وہ الٰہی اقدار کے نظام کو پش پشت ڈالتے ہوئے کرتے ہیں کسی موزوں درجہ بندی کے بغیر ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم کسی آفت کے حوالے سے علت و معلول کے تعلق ٹھیک ٹھیک کرسکیں ، ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی واقعہ کے سبب کی شناخت صحیح طور پر نہ کی جائے تو اس کے حل کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کریں گے ۔
سوال یہ ہے کہ زلزے کی طرح قدرتی واقعات فطرت میں ہونے والے کسی طبیعی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں جو لوگوں کی نیکی اور بدی سے آزاد ہوتا ہے یا کہ یہ انسان کے کسی اخلاقی رویہ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ہم قدرتی آفات کو ان کے اسباب اور (Cause) کی بنیاد ہر قدرتی، سماجی اور حادثاتی اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

(1) قدرتی آفات کو مزید آگے طبیعی اور حیاتاتی آفات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ زلزلوں، سیلابوں اور سمندری طوفانوں وغیرہ سے متعلق آفات کی مثالیں ہیں جبکہ وبائی امراض اور وسیع پیمانے پر متاثر کرنے والی تباہیاں حیاتیاتی آفات کی مثالیں ہیں۔
(ب) معاشرتی آفات وہ ہیں جو بدعنوانی، اخلاقی انحطاط، انفرادی و اجتماعی نا انصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
(ج) حادثاتی آفات جیسا کہ نام سے ظاہر ہے وہ آفات ہیں جو کسی حادثہ سے تعلق رکھتی ہیں ریل، فضایا سمندر میں پیش آنے والے حادثات۔
قرآن پاک غضب الٰہی کے نظریہ کی ہر گز تائید نہیں کرتا
عذاب الٰہی کا نظریہ
ایک انداز کے مطابق اس وقت دنیا میں 19 بڑے مذاہب ہیں جو تقریبا 270 بڑے ذیلی گروہوں پر مشتمل ہیں۔ مختلف مذاہب چونکہ قدرتی آفات کو اپنے اپنے انداز میں دیکھتے ہیں لہٰذا قدرتی آفات کے حوالے سے تمام مذاہب کے رد عمل کی کوئی عمومی تصور پیش کرنا شاید بہت مشکل ہو۔ تاہم بہت سے لوگ بالخصوص مختلف مذاہب کے رسوم و مناسک کی ادائیگی سے متعلق افراد کا ایک گروہ عام طور پر قدرتی آفات کو اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا ایک اظہار قرار دیتا ہے۔ اس کا نظریہ ہے کہ زلزلے، سونامی، سمندری طوفان اور سیلاب وغیرہ اس کے اپنے الفاظ میں اللہ تعالٰی کے غیض و غضب کی علامات ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں طبعی آفات کا تعلق انبیائے کرام کے مخالفین پر نازل ہونے والے عذاب سے جن کا ذکر قرآن اور بائیبل میں ملتا ہے جوڑنے کا رجحان بھی عام ہے لہٰذا یہ عام قدرتی آفات کو بھی قہر الٰہی یا عذاب الٰہی کے زمرے میں ہی شامل کرتے ہیں جو متاثرہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے۔
معاشرتی آفات وہ ہیں جو بدعنوانی، اخلاقی انحطاط، انفرادی و اجتماعی نا انصافیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
قرآنی تصور
تاہم قرآن پاک غضب الٰہی کے نظریہ کی ہر گز تائید نہیں کرتا۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید میں (اور اسی طرح بائیبل میں) کئی گزشتہ انبیائے کرام کی قوموں پر قدرتی آفات کی شکل میں عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا ذکر ہے مثلا قرآن پاک کی کئی سورتوں میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت نوح علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ھود علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی اقوام نے اپنے رسولوں کی مخالفت کی اور کس طرح نتیجے کے طور پر وہ عذاب الٰہی کا شکار ہوکر نیست ونابود ہوگئیں۔ اس طرح کے تمام مقامات کا اگر ہم غور سے مطالعہ کریں تو دواہم باتیں ہمیں ہر موقع پر نظر آتی ہیں، یہ عذاب ہمیشہ اس وقت آیا جب کسی قوم نے وقت کے رسول کی دعوت کو ٹھکرادیا اور اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی اور حتٰی کہ اس کی جان کی دشمن ہوگئی، وقت کے رسول صبر و تحمل کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے اور جب انہوں نے ہر طرح سے تمام حجت کردی تو یہ وہ وقت ہوتا تھا جب اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوتا تھا۔ دوسری بات جو متعلقہ تمام مواقع پر ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ کہ عذاب الٰہی جو کسی رسول کی قوم پر نازل ہوتا تھا اس کا شکار صرف رسول مخالفین اور انکار کرنے والے ہی ہوتے تھے کسی ایک بھی موقع پر کوئی مومن ان کا شکار نہیں ہوا۔ ان دو نکات کی تشریح قرآن مجید کے کئی مقامات سے ہوتی ہے، مثال کے طور پر سورہ بنی اسرائیل (17:15) میں ہے:
"ہم (کسی قوم کو) عذاب دینے والے نہیں جب تک کہ (اس قوم میں) کوئی رسول نہ بھیج لیں"
اسی طرح سورہ ھود میں ہے:
" اور جب ہمارا حکم (عذاب) آیا ہم نے شعیب علیہ السلام کو ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچالیا اور جن لوگوں نے ظلم ڈھائے تھے ان کو کڑک نے آپکڑا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔"

انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے کے طور پر خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا۔

چناچہ اگر ہم قوموں پر عذاب کے حوالے سے اللہ تعالٰی کی سنت (طریقہ جیسا کہ وہ ہمیں قرآن پاک سے معلوم ہوتی ہے مد نظر رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بے شک انبیاء کرام کی مخالفت قوموں پر عذاب الہٰی قدرتی آفات ہی کی شکل میں آئے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قدرتی آفت الہٰی ہوتی ہے عام قدرتی آفات کو عذاب الہٰی قرار دینا در اصل اللہ تعالٰی کے قانون عذاب سے نا واقفیت کا نتیجہ ہے گویا زلزلہ اور سیلاب وغیرہ قدرتی مظاہر ہیں جو ارضیات وجوہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ، یہ آفت اور تباہی کی شکل انسانی کوتاہی اور کمزوری کے نتیجے میں اختیار کرتے ہیں ۔ 08 اکتوبر کے زلزلے سے یہ بات معلوم شدہ حقیقت تھی کہ وہ علاقہ جہاں یہ زلزلہ آیا ہے زلزلہ کی فالٹ لائن پر واقع ہے یہ معلوم تھا کہ یہاں کسی بھی وقت زلزلہ آسکتا ہے اس کے باوجود انتظامی سطح پر کسی قسم کی کوئی پیش بندی نہیں کی گئی نہ کوئی تعمیراتی ضابطہ وجود میں لا کر اس پر عمل کرایا گیا نہ لوگوں کی اس حوالے تعلیم و تربیت ہی کی گئی ۔
معاشرے کو معاشرتی آفات اپنے اخلاقی اعمال کے نتیجے کے طور پر بھگتنی پڑتی ہے
قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالٰی نے کائنات کو ایک مقصد اور حکمت کے مطابق پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالٰی جو کہ علیم اور قدیر ہے Arbitrary فیصلے نہیں فرماتا اسے ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں اس کے بارے میں اس طرح کی سوچ رکھنا گویا کہ وہ انسان بادشاہ کی طرح عمل کرتا ہے اس کے شایان شان نہیں ہے۔ مذید بر آں غضب الٰہی کا نظریہ اللہ تعالٰی کے خوف اور ڈر کا خدا تصور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بات قرآن کے رحمان، حکیم اور علیم خدا کے جو کہ کائنات کو خالق اور رب ہے کے تصور کے بالکل خلاف ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارادہ کائنات میں ان قوانین فطرت اصل میں الٰہی قوانین ہیں جن کے لیے قرآن نے اللہ کی سنت اور تقدیر کے الفاظ استعمال کیے ہیں جسے ہم خدا کا طریقہ اور نظام کہہ سکتے ہیں، کسی قدرتی آفت کا تعلق، قرآن کے مطابق انسانوں کی نیکی اور بدی سے نہیں ہوتا۔ یہ قہر الٰہی نہیں نظام الٰہی ہے۔ ایسا نظام جو سراسر خیر ہے، جو مثبت، تعمیری اور تخلیقی ہے اور اللہ تعالٰی کے قانون ربوبیت کا مظہر ہے جس کے مطابق یہ کائنات ایک نشوونما پاتی ہوئی اور ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہوئی حقیقت ہے نہ کہ محض ایک جامد و ساکن اور تعمیرات سے عاری مادے کا ڈھیر زلزلے کے اللہ تعالٰی کے قانون کے مطابق واقع ہوتے ہیں لیکن وہ چیز جو بڑے تقاضوں کو نظر انداز کرکے ناقص طور پر بنائی گئی ہوتی ہیں۔ 8 اکتوبر کو زلزلے میں تقریباً 19 ہزار طلبہ اسکولوں کی ناقص عامرتوں کے گرنے کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ بڑے پیمانے پر سرکاری عمارتیں ناقص تعمیر کی وجہ سے گری ہیں۔ کیلیفورینا (امریکہ) کے Santacruz پہاڑوں میں 1989ء میں 9۔ 6 طاقت کا زلزلہ آیا تھا جس میں صرف 63 لوگ لقمہ اجل بنے تھے جبکہ زخمیوں کی تعداد 3757 تھی اس طرح Cape Mendocino میں 1992ء 2۔ 7 طاقت کا زلزلہ آیا تھا جس میں ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی تھی جبکہ صرف 95 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس کے برعکس بھوج (انڈیا) میں 2001 میں 7۔7 طاقتور زلزلہ آیا تھا جس میں 20،000 (بیس ہزار) سے زیادہ لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا، جبکہ 166،836 افراد زخمی ہوئے اسی طرح جاپان، ترکی اور دوسرے ممالک کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ ہلاکتوں اور دیگر نقصانات کے اصل اسباب کیا ہیں۔
زلزلہ زمین کے قدرتی و عمل (Natural Geological Process) کے نتیجے میں واقع ہوتا ہے اسی قدرتی ارضیاتی عمل کے نتیجے میں قشرارض میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ اسی کے نتیجے میں ایک عرصہ وقت میں مثال کے طور پر پہاڑ بنتے اور ختم ہوتے ہیں، سمندر اپنی جگہیں بدلتے اور دوسری جغفرائیاں تبدیلیاں آتی ہیں۔
لہذا زلزلوں کے موقع پر انسانی جانوں کے ضیاع اور تباہی سے بچنے یا اسے کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ علم و تحقیق کی بنیاد پر مناسب پیش بندی کی جائے۔ زلزلوں کے امکانی علاقوں میں عمارت سازی کے لیے موزوں ضابطہ تشکیل دیا جائے اور اس عمل پر درآمد میں ہرگز کوتاہی نہ ہونے دی جائے۔ لوگوں کو زلزلہ کی صورت میں حفاظتی تدابیر کا شعور دیا جائے۔ شہری دفاع کے ادارہ میں ہر قسم کی آفات سے نمٹنے کی پوری استعداد ہونی چاہئیے۔
چنانچہ زلزلے، سیلاب اور طوفان وغیرہ قدرتی مظاہر اور واقعات ہیں ان کا انسان کے اخلاقی اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ زمین اوراس کے ماحول کے قدرتی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں تاہم انسان کی علمی ، فنی اور انتظامی کمزوری اور غفلت کے باعث انسانی آبادیوں ان کا شکار ہوسکتی ہیں جن کا علم و تحقیق اور بہتر انتظامی عمل کے ذریعے تدراک کیا جاسکتا ہے ۔

معاشرتی آفات
معاشرتی آفات ، سادہ زبان میں وہ ہیں کو ایک معاشرے کو اپنے اخلاقی اعمال کے نتیجے کے طور پر بھگتنی پڑتی ہیں،اللہ تعالی نے انسان کو ایک دائرے کے اندر ارادہ و اختیار (Freewill)کی صالحیت عطا فرمائی ہے ، کسی معاشرے کا اجتماعی سطح پر پست سماجی معاشی اور سیاسی رویہ (Substandard Collective Socio Politico Economic Bahaviour ) سماجی آفات کا سبب بن سکتا ہے یعنی جب کوئی معاشرہ الٰہی نظام اقدار مثلا عدل، مساوات ، قانون کی حکمرانی ، سچ،محبت اور بےحیائی وغیرہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے وہ انسانی زندگی کے اہمیت کے حامل تمام میدانوں میں پسماندگی ، بنیادی انسانی ضرورتوں کے فقدان یا پست معیارات اور جرائم کے فروغ وغیرہ جیسی معاشرتی آفات کا شکار ہوجاتا ہے ، یہ وہ حالت ہے جسے قرآن کی زبان میں خوف و عالم کی حالت کہا جاتا ہے ۔
معاشرتی آفات کی وضاحت قرآن مجید کے کئی مقامات سے ہے جن میں سے ایک اہم مقام ہے ۔:: انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے کے طور پر خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ، سو اللہ تعالی لوگوں کو ان کے بعض اعمال کے نتائج کا مزہ چکھائے گا تاکہ وہ (درست راہ کی طرف) لوٹ آئیں ۔سورہ الروم ۔
یہاں فساد کا لفظ جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے کہ ہر قسم کی معاشرتی و ماحولیاتی آلودگی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔
حادثاتی آفات کو اگر وہ واقعی حادثاتی ہیں تو یقینی طور پر عذاب الٰہی یا قہر خداوندی نہیں کہا جاسکتا یہ حقیقت اس قدر واضح ہے کہ اس کے لئے دلائل حاجت نہیں*۔
بشکریہ ماہنامہ دلیل راہ جولائی 2007
Back to top Go down
https://razaemuhammad.123.st
muhammad khurshid ali
Moderator
Moderator
muhammad khurshid ali


Posts : 371
Join date : 05.12.2009
Age : 42
Location : Rawalpindi

قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Empty
PostSubject: Re: قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد   قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد Icon_minitimeSat 25 Sep 2010 - 17:49

قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد 755444
Back to top Go down
 
قرآن اور قدرتی آفات پروفیسر ڈاکٹر دلدار احمد
Back to top 
Page 1 of 1
 Similar topics
-
» ڈاکٹر ذاکر نائیک کے عقائد
» جمع قرآن مجید
» مسئلہ تحریف قرآن

Permissions in this forum:You cannot reply to topics in this forum
Raza e Muhammad :: فیضِ قرآن :: فیضِ قرآن :: قرآنیات-
Jump to:  
Free forum | ©phpBB | Free forum support | Report an abuse | Latest discussions