عبادات
[right]
وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی ترستے ہیں اُسی سجدے کو منبر و محراب مسائل کی چند اصطلاحیںیہ وہ اصطلاحی بولیاں ہیں کہ ان کو جان لینے سے عبادات کے مسائل کو سمجھنے میں بہت ہی سہولت اور آسانی ہو جائے گی۔ اس لئے کوئی عبادت کرنے سے پہلے ان اصلاحوں کو خوب سمجھ کر اچھی طرح یاد کر لیں !!
فرضوہ ہے جو شریعت کی یقینی دلیل سے ثابت ہو اس کا کرنا ضروری، اور بلا کسی عذر کے اس کو چھوڑنے والا فاسق، اور جہنمی۔ اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ جیسے نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ وغیرہ۔ پھر فرض کی دو قسمیں ہیں ایک فرض عین، دوسرے فرض کفایہ ۔ فرض عین وہ ہے جس کا ادا کرنا ہر عاقل و بالغ مسلمان پر ضروری ہے جیسے نماز پنج گانہ وغیرہ۔ اور فرض کفایہ وہ ہے جس کا کرنا ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ بعض لوگوں کے ادا کر لینے سے سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے جیسے۔ نمازِ جنازہ وغیرہ ۔
واجب وہ ہے جو شریعت کی ظنی دلیل سے ثابت ہو اس کا کرنا ضروری ہے اور اسے بلا کسی تاویل اور بغیر کسی عذر کے چھوڑ دینے والا فاسق اور عذاب کا متمنی ہے۔ لیکن اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں بلکہ گمراہ اور بد مذہب ہے۔
سنّت مؤکدہوہ ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو۔ البتہ بیان جواز کے لئے کبھی چھوڑ بھی دیا ہو اس کو ادا کرنے میں بہت بڑا ثواب اور اس کو کبھی اتفاقیہ طور پر چھوڑ دینے سے اللہ و رسول کا عتاب اور اس کو چھوڑ دینے کی عادت ڈالنے والے پر جہنم کا عذاب ہوگا۔ جیسے نمازِ فجر کی دو رکعت سنّت، اور نمازِ ظہر کی چار رکعت
فرض سے پہلے اور دو رکعت فرض کے بعد سنّتیں۔ اور نمازِ مغرب کی دو رکعت سنّت، اور نمازِ عشاء کی دو رکعت سنّت۔ یہ نماز پنج گانہ کی بارہ رکعت سنّتیں سب سنّت مؤکدہ ہیں۔
سنّت غیر مؤکدہوہ ہے جس کو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہو۔ اور بغیر کسی عذر کے کبھی کبھی اس کو چھوڑ بھی دیا ہو۔ اس کو ادا کرنے والا ثواب پائے گا اور اس کو چھوڑ دینے والا عذاب کا مستحق نہیں۔ جیسے عصر کے پہلے کی چار رکعت سنّت۔ اور عشاء سے پہلے کی چار رکعت سنّت کہ یہ سب سنّت غیر مؤکدہ ہیں۔ سنت غیر مؤکدہ کو سنتِ زائدہ بھی کہتے ہیں۔
مستحبہر وہ کام ہے جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہو۔ اور اس کو چھوڑ دینا شریعت کی نظر میں بُرا بھی نہ ہو۔ خواہ اس کام کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہو یا اس کی ترغیب دی ہو۔ یا علماء صالحین نے اس کو پسند فرمایا اگرچہ حدیثوں میں اس کا ذکر نہ آیا ہو۔ یہ سب مستحب ہیں مستحب کو کرنا ثواب۔ اور اس کو چھوڑ دینے پر نہ کوئی عذاب ہے نہ کوئی عتاب۔ جیسے وضو کرنے میں قبلہ رو ہو کر بیٹھنا۔ نماز میں بحالت قیام سجدہ گاہ پر نظر رکھنا۔ خطبہ میں خلفاء راشدین وغیرہ کا ذکر، میلاد شریف، پیران کبار کے وظائف وغیرہ مستحب کو مندوب بھی کہتے ہیں۔
مُباحوہ ہے جس کا کرنا اور چھوڑ دینا دونوں بربار ہو۔ جس کے کرنے میں نہ کوئی ثواب ہو اور چھوڑنے میں نہ کوئی عذاب ہو۔ جیسے لذیذ غذاؤں کا کھانا اور نفیس کپڑوں کا پہننا وغیرہ۔
حراموہ ہے جس کا ثبوت یقینی شرعی دلیل سے ہو۔ اس کا چھوڑنا ضروری اور باعثِ ثواب ہے اور اس کا ایک مرتبہ بھی قصداً کرنے والا فاسق و جہنمی اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ خوب سمجھ لو کہ حرام فرض کا مقابل ہے یعنی فرض کا کرنا ضروری ہے اور حرام کا چھوڑنا ضروری ہے۔
مکروہ تحریمیوہ ہے جو شریعت کی ظنی دلیل سے ثابت ہو۔ اس کا چھوڑنا لازم اور باعثِ ثواب ہے۔ اور اس کا کرنے والا گناہگار ہے۔ اگرچہ اس کے کرنے کا گناہ حرام کے کرنے سے کم ہے۔ مگر چند بار اس کو کر لینا گناہِ کبیرہ ہے۔ اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ یہ واجب کا مقابل ہے یعنی واجب کو کرنا لازم ہے اور مکروہ تحریمی کو چھوڑنا لازم ہے۔
اساءتوہ ہے جس کا کرنا بُرا۔ اور کبھی اتفاقیہ کر لینے والا لائق عتاب اور اس کو کرنے کی عادت بنا لینے والا مستحقِ عذاب ہے۔
واضح رہے کہ یہ سنّت مؤکدہ کا مقابل ہے یعنی سنّت مؤکدہ کا کرنا ثواب اور چھوڑنا بُرا ہے۔ اور اساءت کو چھوڑنا ثواب اور کرنا بُرا ہے۔مکروہ تنزیہیوہ ہے جس کا کرنا شریعت کو پسند نہیں۔ مگر اس کے کرنے والے پر عذاب نہیں ہوگا۔ یہ سنّت غیر مؤکدہ کا مقابل ہے۔
خلافِ اولٰیوہ ہے کہ اس کو چھوڑ دینا بہتر تھا لیکن اگر کر لیا تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ مستحب کا مقابل ہے۔